کھلے مین ہول

دنیا میں انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کرنا کسی بھی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر کسی راہگیر کو فٹ پاتھ یا سڑکوں پر کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے تو اس کو حکومت معاوضہ ہر جانہ کے طور پر دینا پڑتا ہے۔

منگل 2 جنوری 2018

Khulay Manhole
محمد رمضان چشتی:
دنیا میں انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کرنا کسی بھی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں اگر کسی راہگیر کو فٹ پاتھ یا سڑکوں پر کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے تو اس کو حکومت معاوضہ ہر جانہ کے طور پر دینا پڑتا ہے۔اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں انتظامیہ بہتر اقدامات کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو صورتحال اس کے بر عکس ہے روزانہ کیا بچے کیا بڑے کوئی نہ کوئی پیدل چلتے ہوئی کھلے مین ہولوں کی وجہ سے زخمی اور کئی بار اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،متاثرہ ہونے والے کے عزیز و اقارب صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ، اس وقت پسماندہ علاقوں کا کیا آج اچھے علاقوں میں بھی صورتحال دگر گوں ہے ،اسی لئے سیوریج کے گٹروں کے ڈھکن نہ ہونے سے پیدل چلنے والے ہی نہیں موٹرسائیکل سوار بھی گر کر زخمی یا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کیسا ترقی یافتہ زمانہ آگیا ہے، گھر سے باہر نکلنے کے بعد ہر طرف جان کا خطرہ ہی سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ زیادہ تر حادثات کی وجہ سڑکوں پر گٹر ہی ہیں جن کے ڈھکن یا تو چرا لئے جاتے ہیں یا ناقص مٹیریل کی وجہ ٹو کر گٹر کے اندر ہی گر جاتے ہیں۔ کیونکہ کبھی لوہے کے بنے ہوئے دھکن گٹروں پر رکھے جاتے تھے جب ان کی چوریاں ہونے لگیں تو ان کی جگہ پر ریت اور سیمنٹ کا کچا پکا ڈھکن گٹر پر رکھ دیا جانے لگا اور اس کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ نشئی لوہے کا ڈھکن اٹھا کر لے جاتے ہیں، لہٰذا کیوں نہ لے کر جائیں۔

ایسے ڈھکن پائیدار نہیں ہوتے جب اس پر سے ہیوی ٹریفک کے ساتھ، بسوں ٹرکوں اور ویگنوں کاروں کے گزرنے سے ان پر وزن اور دباو پڑتا ہے جس سے یہ ٹوٹ کر سیوریج لائن میں گر جاتا ہے جس کے باعث سارا گندا پانی وہاں سے ابل کر سڑک پر آجاتا ہے۔ انہیں ناقص ڈھکنوں کی وجہ سے آئے روز کتنی جانیں چلی جاتی ہیں ، کتنی غریب ماؤں کے بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔

امراء ان غریب‘ پسماندہ علاقوں پر توجہ نہیں دیتے۔ یہاں گٹروں کے ڈھکن ٹوٹ جائیں، گٹر ایک عرصہ بغیر ڈھکن موت کی آماجگاہ بنے رہیں انہیں اس سے کیا۔ کیونکہ ان امرا کے بچوں نے کون سا ان علاقوں میں رہنا ہوتا ہے، ان کے بچوں نے کونسا ان کچی پکی گلیوں اور ان ٹوٹی سڑکوں پر کھیل کر اپنا بچپن گزارنا ہوتا ہے۔ ان افسروں کے بچے تو پوش علاقوں میں رہتے ہیں وہ تو اللہ کی مہربانی سے محفوظ ہیں۔

وہ غریبوں کے بچے تھوڑی ہیں جو کیڑے مکوڑوں اور گندگی سے بھرے معاشرے میں زندگی گزر تے ہیں۔میڈیا میں کھلے مین ہولوں میں پیدل یا موٹرسائیکلوں سوار کے گر کر زخمی ہونے بارے آتا رہتا ہے ، ان میں سے کئیبدقسمت تو جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ اور مچھ قسمت اچھی ہو تو بچ جاتے ہیں لیکن باقی زندگی اپاہج ہوکر گزارتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کا ذکر ہے ایک شخص دفتر جانے کیلئے گھر سے نکلا ہی تھا کہ ایسے ہی ریت کے گٹر پر سے اس کے موٹرسائیکل کا ٹائر پھسل گیا اور سر پر چوٹ لگنے سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ٹی وی چینلز پر آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں اپنے لخت جگر کی موت پر ماں باپ، رشتے داررو رہے ہوتے ہیں، دل دہلانے والی آہ و بکا سے سارا محلہ سوگوار ہوتا ہے۔مقامی انتظامیہ سے پوچھا جائے کہ یہ غریب کے بچے آخر گلیوں میں نہ کھیلیں تو کہاں جائیں۔ ابھی چند دن پہلے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اسی طرح ایک کھلے گٹر کی نذر ہوگیا ۔ سوال تو یہ ہے کہ اگرمتعلقہ حکام ان گٹروں پر لوہے کے مضبوط ڈھکن لگا دیں مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔

لیکن لگتا ہے ، ہم بھول چکے ہیں کہ ہم سب نے ایک دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ کیونکہ جان تو وہ انمول نعمت ہے جو ایک صرف ایک بار ملتی ہے دوبارہ نہیں ملتی نہ ہی یہ خریدی جاسکتی ہے۔جو لوگ ایسے حادثات وواقعات کے ذمہ دار ہیں لگتا ہے کہ نہ تو وہ قانون سے ڈرتے ہیں نہ ان کو خوف خدا ہے۔وہ تنخواہوں کے ساتھ مراعات بھی لیتے ہیں لیکن ان کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کو کماحقہ پورا نہ کر کے ناانصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بھی اجر دیتا ہے۔ سڑک پر پڑے ایک پتھر کو بھی وہاں سے ہٹا دینے کا ثواب ہے۔ اور ایسے عناصر جو بڑی بڑی تنخواہیں لے ہیں پھر بھی وہ عوام اور معاشرے کی خدمت کرکے نیکیاں نہیں کما سکتے۔تو اس پر کیا کہا جاسکتا ہے سوائے افسوس کرنے کے۔اس حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان ثاقب نثار سے درخواست ہے کہ جن عناصر کی وجہ سے بے گناہوں اور معصوم بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔

ایسے ناقص مٹیریل سے تیار کردہ ڈھکنوں پر پابندی لگائی جائے اور اس کے ذمہ داران کا کڑا احتساب کیا جائے۔ ساتھ ہی کھلے مین ہولز کو معیاری لوہے کے ڈھکنوں سے فوری بند کرایا جائے تاکہ ماؤں کے لال اور قوم کے مستقبل کو گٹروں میں گر کر فنا ہونے سے بچایا جاسکے۔ایک چینل پر ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ابھی ویت نام سے آیا ہوں وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔

اس نے انیس سال تک دنیا کے ایک سپر طاقتور ملک سے جنگ لڑی ہے امریکہ نے وہاں بمباری سے تباہی مچا دی ، کوئی سڑک کوئی گھر صحیح سلامت حالت میں نہیں تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کسی ملک سے کوئی مدد نہیں لی۔ آج میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ پورے ویت نام میں ایک بھی سڑک بھی ایسی نہ تھی جس کو مرمت کیا گیا ہو، آج سڑکیں ایسی ہیں جیسے شیشے کی ہوں۔ میں نے ایک ویتنامی سے پوچھا اس سڑک کو بنے کتنے سال ہوگئے؟ اس نے جواب دیا ،یہاں کوئی بھی سڑک بیس سال تک خراب نہیں ہوتی۔

اس سے وہاں کی شاہراہوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ہمارا یہ حال ہے جو آتا ہے وہ اچھی بھلی سڑکوں، گلیوں کو توڑ کر سڑک بنانی شروع کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے گھر چار چار فٹ نیچے چلے جا تے ہیں۔ اور پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے بھی سڑکیں اور گٹر ٹوٹ جاتے ہیں اور گٹروں کا گندا پانی لوگوں کے گھروں میں چلا جاتا ہے۔مجھے 25دسمبر کو م یوحنا آباد میں ایک دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نے دیکھا کہ کوئی گلی صاف نہیں تھی‘ سب گٹر ٹوٹے ہوئے تھے، نہ صاف پانی علاقہ مکینوں کو میسر تھا ‘ جبکہ سیوریج لائن ٹوٹی ہوئی تھیں۔

دیکھا جائے تو یہ سارے کام وزیراعلیٰ پنجاب نے تو نہیں کرنے ‘ جن کی ذمہ داری ہے۔ یہ ان کا کام ہے۔کہ وہ گٹر صاف کرائیں‘ تاکہ علاقہ مکین بھی ان کو دعائیں دیں اور صفائی کی بدولت وہاں کے مکین بیماریوں سے بھی بچ کر صحت مند زندگی گزار سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khulay Manhole is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.