خواتین پر چاقو کے حملے، پولیس بے بس تماشائی!

سکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود شہری غیر محفوظ کیوں؟ انٹیلی جنس اور کیمرہ مانیٹرنگ سسٹم کی کارکردگی کا پول کھل کرسامنے آگیا

منگل 17 اکتوبر 2017

Khawteen pr Chaqoo k Hamly Police be Bas Tamashai
سالک مجید:
خواتین پر چاقو اور چھری کے حملوں نے شہر میں خوف وہراس پھیلا دیا اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات لگ گئے۔ ہر سال حکومت سکیورٹی کی مد میں اربوں روپے کے فنڈز جاری کرتی ہے، یہ فنڈز عوام کے ٹیکسوں سے ہی جمع کئے گئے ہوتے ہیں۔ عوام ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ سرکار ان کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات پر اخراجات کرے۔

سرکار اخراجات تو مسلسل کرتی آرہی ہے لیکن عوام آج بھی غیر محفوظ ہیں اگر گھر کی مائیں بہنیں بیٹیاں گھر میں ہی محفوظ نہ ہوں اور اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہر میں کوئی ان پر حملے کرے اور پولیس خاموش تماشائی بن کررہ جائے تو عوام کی امیدیں کس سے وابستہ ہوں گی۔

(جاری ہے)

پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرزاور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھیں گے آخر اتنا ذہین اور قابل انٹیلی جنس نیٹ ورک ایسے واقعات کی روک تھام میں فوری طور پر مدد گار اور مئوثر ثابت کیوں نہیں ہوتا اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ کمی ہے، کمزوری ہے ، کوتا ہی ہے اگر یہ سب کچھ غفلت لاپروائی اور نان پروفیشنل اپروچ کا نتیجہ ہے تو کسی نہ کسی کو ذمہ داری قبول کرنا چاہیے یا اس کی ذمہ داری کا تعین کرنا چاہیے۔

جب تک سسٹم کی کمزوریوں اور غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا جائے گا بہتری کیسے آئے گی۔ کراچی کا علاقہ گلستان جوہر اچانک عالمی خبروں کا محور بن گیا کیونکہ مسلسل کئی روز تک خواتین پر چاقو یا چھری سے ایک شخص حملے کرتا رہا کبھی موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے راہ گزرتی خواتین کو حملے کرکے زخمی کرتا کبھی گاڑی کے پیچھے چھپ کر آنے والی خواتین کا اچانک نشانہ بناتا۔

پولیس نے ابتدا میں اس قسم کی شکایات پر کان نہیں دھرا لیکن جیسے ہی معاملہ میڈیا میں رپورٹ ہوا اور شکایات میں تیزی آئی تو پولیس حکام بھی جاگ اٹھے اور حکومت سندھ کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے براہ راست معاملے کا نوٹس لیا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ حملہ آور کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا حکم دیا اور مسلسل واقعات رونما ہونے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔

ایک موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اتنے غصے میںآ ئے کہ آئی جی سندھ سے پوچھا کہ حملہ آور نے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے جو وہ پولیس کو دکھائی نہیں دے رہا۔ ایک شخص نے اتنے حملے کردیئے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی پکڑا کیوں نہیں۔ آخر پولیس کیا رہی ہے۔ صوبے میں ہو کیا رہا ہے، اس قسم کے واقعات سے لوگوں میں خوف پھیلتا ہے اور حکومت کی بدنامی ہوتی ہے لہٰذا اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کر کے رپورٹ دی جائے۔

پولیس نے واقعات رپورٹ ہونے اور میڈیا میں شور مچنے کی وجہ سے روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے اپنا کام آگے بڑھانا شروع کیا۔ موٹر سائیکل پر حملے کرنے والے حملہ آور شخص کے بارے میں متاثرہ اور زخمی خواتین کے بیانات کی مدد سے حلیہ سمجھنے کی کوشش کی پھر کچھ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد حاصل کی گئی۔ ان ویڈیوز اور تصاویر میں حملہ آور نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا اور اس کی موٹر سائیکل پر نمبر پلیٹ نہیں تھی۔

گلستانِ جوہر کے گنجان آباد علاقے میں پولیس نے تلاش شروع کی اور مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا اور گرفتاری میں مدد کرنے والے کے لئے پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان بھی کردیا جس کی منظوری وزیراعلیٰ سند ھ سے بھی حاصل کرلی گئی۔ خواتین پر حملوں کے ان تازہ واقعات نے انٹیلی جنس اور کیمروں سے مانیٹرنگ سسٹم کی بہت سی کمزوریوں ، خامیوں اور نقائص کو مزید اجاگر کردیا ہے جس کی وجہ سے ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ ہوتا گیا اور انٹیلی جنس نیٹ ورک اور سی سی ٹی وی کیمرے فوری طور پر کوئی مفید معلومات فراہم نہ کرسکے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ واقعات میں اضافہ ہوتا گیااور حملہ آور کا حوصلہ بھی غالباََ بڑھ گیا۔ ابتدائی واقعات میں خواتین کو پیچھے سے نشانہ بنانے والے حملہ آور نے بعد میں پیش آنے والے واقعات میں سامنے سے نشانہ بنایا جو اس کی دیدہ دلیری کہا گیا۔ شہر میں ہونے والے دیگر سنگین جرائم بالخصوص ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی وغیرہ کے موقع پر بھی سی سی ٹی وی کے سسٹم کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی مدد سے مجرموں کے چہرے یا جسامت اور قدومات کا اندازہ لگالیا جاتا ہے اور ان کی آمدورفت کو بھی مانیٹرنگ کرنے میں مدد مل جاتی ہے جبکہ بعض کیسز میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں شاہراہوں، چورنگیوں ، سگنلز وغیرہ پر لگائے جانے والے سی سی ٹی وی کیمرے بہت کمزور ہیں وہ واضح شکل نہیں دکھا پاتے اور چہرے کی شناخت میں مشکل پیش آتی ہے لہٰذا اچھی کوالٹی کے لینس اور کیمروں کی ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے، ہمارے یہاں یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے زیادہ تر جرم یا واقعہ رونما ہونے کے بعد صرف ریکارڈنگ دیکھنے کا کام دے رہے ہیں حالانکہ کنٹرول روم میں بیٹھ کر سکیورٹی نظام کوان کیمروں میں نظر آنے والے مناظر اور موقع پر ہونے والی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور کچھ غلط محسوس ہو یا ہوتا ہوا نظر آئے تو فوری طور پر اس پر ایکشن لینا چاہیے، ہمارے یہاں عملی طورپرایسا کچھ نہیں ہورہا اگر ہو بھی رہا ہے تو آٹے میں نمک کے برابر بہت سال پہلے کراچی میں ایک ہتھوڑا مار گروپ نے بھی اسی طرح خوف وہراس پیدا کردیا تھا جس طرح آجکل چاقو بردار حملہ آور کا چرچا ہورہا ہے تب لوگوں کے صحن اور چھت پر یا گلی میں کھلی ہوا میں سویا کرتے تھے تو ہتھوڑا گروپ ایسے لوگوں کو نشانہ بنانے لگاتھا، اس طرح ایک اور واقعہ پنجاب میں پیش آیا تھا جب ایک شخص نے 100 بچوں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈالنے اور قتل کر دینے کا لرزہ خیز انکشاف کیا تھا وہ آدمی تو بعد ازاں خود ہی مرگیا تھا لیکن اس کی کہانی بھی بہت خوفزدہ کردینے والی تھی، اب چاقو بردار حملہ آور نے بھی سنسنی پیدا کردی لیکن ان حملوں سے حکومت انتظامیہ اور پولیس کو یہ سبق تو مل گیا ہے کہ انہیں سکیورٹی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اگر جگہ جگہ اچھی کوالٹی والے کیمرے لگادیئے جائیں تو کسی بھی علاقے میں کوئی شخص یوں دیدہ دلیری سے جرائم نہیں کرسکے گا کیونکہ حملے کے مقام سے لے کر اس کے آنے جانے کے تمام راستوں پر لگے کیمرے ساری کہانی خود بخود کھال کر رکھ دیں گے اور وہ زیادہ دور بھاگ نہیں سکے گا اور جلد پکڑا جائے گا۔

سندھ کابینہ اجلاس میں بھی خواتین پر حملوں کا چرچا رہا ۔ وہاں بھی حکومتی شخصیات فکر مند نظر آئیں اور ایسے واقعات پر گہری تشویس کا اظہار کیا گیا جس کے جواب میں حکومت نے پولیس کی حکمت عملی کے حوالے سے تسلی دلائی لیکن صوبائی وزیروں نے بھی اس قسم کی صورتحال سے مستقبل میں بچنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے پر زور دیا ، ان واقعات نے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت پر خوب تنقید کرنے کا موقع بھی فراہم کردیا اور یہ تنقید غلط بھی نہیں ہے کیونکہ شہری خوف میں مبتلا ہو گئے جب تک خواتین گھر خیریت سے واپس نہیں پہنچ جاتیں ان کی سلامتی کے حوالے سے پورا گھر انہ فکر مندہی رہتا ہے۔

کراچی جیسے شہر میں یہ تو ممکن نہیں کہ تمام خواتین گھر پر بیٹھ جائے اور کسی کام سے بھی باہر نہ جائیں ایسا تو کسی ندامت پسند تہذیب اور معاشرے میں ہوسکتا ہے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شہر میں امن وامان کی صورتحال کو اس قدر اچھا بنائے کہ ہر شہری بلا خوف وخطر کہیں بھی آجاسکے اور اسے نقل وحرکت میں کسی قسم کا خوف اور ڈر محسوس نہ ہو۔ اگر اس شہر میں لیاری گینگ وار ختم کی جاسکتی، اگر شہر میں کٹی پہاڑی کے علاقے کو پُر امن اور پُرسکون بنایا جاسکتا ہے تو پھر گلستان جوہر جیسے گنجان آباد علاقے کو بھی محفوظ کیوں نہیں جاسکتا۔

شہریوں کا تعاون بھی اہمیت کا حامل ہے لیکن اداروں کو اپنا اعتماد بحال کرنا ہوگا اپنی ساکھ بہتر بنانی ہوگی تاکہ شہری ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کر لے اور جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی میں کردار اداکریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Khawteen pr Chaqoo k Hamly Police be Bas Tamashai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.