قصور کے مزید12بچے بھی انصاف کے منتظر!

صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ کی نگری میں کمسن بچی زینب کے قاتل گرفتار نہ ہوسکے‘قصور میں 12بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

منگل 16 جنوری 2018

Kasur K Mazeed 12 Bachay Bhi Insaaf Ki Muntazir
محمد مہر شریف:
صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ کی نگری میں کمسن بچی زینب کے قاتل گرفتار نہ ہوسکے‘قصور میں 12بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔قصور میں سانحہ زینب واحدواقع نہیں ہے اس سے پہلے 2سال قبل درجن سے زائد بچوں اور بچیوں کو درندہ صفت ملزمان نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایاتھا، ملزمان کو سزا نہ ملنا واقعات میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

اگر 2015میں رونما ہونے والے میگا جنسی سکینڈل پر ذمہ داروں نے کارکردگی دیکھائی ہوتی تو آج یہ قیامت خیز دن نہ دیکھنا پڑتے۔7سالہ بچی زینب کا واقع کچھ یوں پیش آیا کہ چار جنوری کی شام بچی زینب گھر سے سپارہ پڑھنے کیلئے اپنی خالہ کے گھر جانے کیلئے نکلی مگر راستے سے ہی نامعلوم درندہ صفت ملزم نے بچی کو اغواء کر لیا ۔

(جاری ہے)

بچی زینب کے ہمراہ اس کا کزن بھی سپارہ پڑھنے جارہا تھا مگر کھیلتے ہو ئے زینب پیچھے رہ گئی اس کا کزن اپنی خالہ کے گھر سپارہ پڑھنے کیلئے پہنچ گیا جس پر بچی کی خالہ نے اس کے کزن سے پوچھا کہ زینب نہیں آئی تو بچے کا کہناتھا کہ زینب پیچھے آرہی ہے مگر زینب کا خالہ کے گھر نہ پہنچے پر تشویش شروع ہو گئی اور بچی کے عزیزواقارب نے تلاش شروع کردی بچی کے والدین عمرہ کیلئے ملک سے باہر تھے۔

بچی زینب کا والد محمد امین انصاری سرکاری ملازم ہے عزیزواقارب کے ڈھونڈنے پر بچی نہ ملی تو پولیس کو اطلا ع دی گئی جس پر پولیس نے بھی بچی کی تلاش شروع کردی مگر چار روز بعد زینب کی نعش کشمیر چوک شہباز روڈ کے قریب موجود کچرا کنڈی سے ملی اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر عزیزواقارب سے شناخت کروائی ۔تو وہ نعش بچی زینب کی تھی جس پر عزیز واقارب نے چیخ وپکار اور رونا شروع کردیا بچی کی نعش کو PFSA ایمبولینس لاہور نے آکر شواہد اکٹھے کرکے ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور میں پوسٹمارٹم کیلئے منتقل کر دیا۔

معصوم زینب کے پوسٹمارٹم کی رپورٹ ڈاکٹروں نے دو دن کی تاخیر کے بعد جاری کی، پوسٹمارٹم سے معلوم ہوا کہ بچی کی نعش 9جنوری کو ملی مگر اس کو اغواء کے دو دن بعد ہی قتل کردیا گیا تھا ۔میڈیکل میں بچی کے ساتھ ریپ کی بھی تصدیق ہوئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زینب کی گردی کی ہڈی ٹوٹی ہو ئی تھی اور اس کو گلہ دبا کر قتل کیا گیا تھا اور معصوم زینب کے چہرے پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے تھے۔

شہر میں پہلے ہی ایسے واقعا ت کی وجہ سے شہریوں میں بہت زیادہ غم وغصہ پایا جارہا تھا بچی زینب کی نعش کی خبر سن کر عزیزواقارب سمیت تمام قسم کی تنظیمیں احتجاجاً سڑکوں پر آگئی اور احتجاجاً قصور کی تمام مارکیٹیں بند کر دی گئیں۔ لوگوں نے سڑکو ں پر آکر جگہ جگہ ٹائر جلاکر تمام مین شاہراہوں اور چوکوں کو بند کردیا تمام شاہراہیں ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دی اور قصور کا تمام شہریوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا، قصور کے حالات مزید بگڑتے چلے گئے اور قصور کی فضاء سوگوار ہونے کے ساتھ ساتھ کشیدگی کی فضاء بھی برقرار رہی ۔

حکومت اور پولیس کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی، پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی، مظاہرین جب کچہری روڈ پر پہنچے تو ڈپٹی کمشنر قصور کے آفس میں جاکر احتجاج ریکارڈ کروانے کی کوشش کی اور ڈپٹی کمشنر قصو ر آفس کے دروازے توڑ دئیے ، اہلکاروں نے سیدھی فائرنگ شروع کر دی جس کی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی ہے۔ پولیس کی فائرنگ سے 2افراد ہلاک اور 7سات زخمی ہوگئے، شناخت 45سالہ محمد علی اور 22 شعیب سے ہوئی ہے، جو قصور کے ہی رہائشی تھے دو افراد کی ہلاکت سے حالت مزید کشیدگی کی طرف چلے گئے ۔

دو افراد کی ہلاکت لگی آگ پر تیل چھڑکنا ثابت ہو ئی جب ریسکیو 1122کی طرف سے لاشوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور میں منتقل کیا گیا تو ورثاء اور مظاہرین نے ہسپتال پر دھاوا بولتے ہوئے ہسپتال کے مردہ خانے کے دروازے توڑ کرنعشوں کو باہر نکال لیا اور فیروز پور روڈ پر رکھ کر احتجاج شروع کردیا ۔اسی دوران بچی زینب کی نمازجنازہ کا وقت دوپہر 2بچے کالج گروانڈ میں رکھا گیا تھا اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے نمازجناز پڑھائی۔

جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی مگر نمازجنازہ کے بعد بچی کی تدفین نہ کی گئی اور والدین کا پاکستان آنے کا انتظا رکیا گیا، جب بچی کے والدین غم سے نڈھال گھر پہنچے تو دوبارہ بچی کی نمازجنازہ پڑھائی گئی۔شام کے وقت تدفین کی گئی نمازجنازہ کے بعد قصور کے حالات کشید ہ ہی رہے اور لوگ سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آئے اس طرح بچی کی تدفین کے اگلے روز پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دو افراد کی نمازجنازہ کا وقت بھی یہی رکھا گیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے اغواء اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کے گھرصبح سویرے پہنچ کر بچی کے والدین سے ملاقات کے دوران اظہار تعزیت کیا۔پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد کیلئے مالی امداد کے چیک دئیے گئے اور ایک ایک سرکاری نوکری بچی زینب کے قاتلوں کی اطلاع اور گرفتاری کروانے والے کیلئے 1کروڑ روپے کا بھی وعدہ کیا گیا۔جبکہ کشید ہ حالات کوپیش نظر رکھتے ہو ئے200رینجراہلکار تعینات کرنا پڑی،اور رینجر نے پولیس کے ساتھ ملکر شہر کا کنٹرول سنبھالیا اور سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جس کے بعد شہر کا امن ومان بحال ہوگیا۔

زینب کے والد محمد امین انصاری کا کہنا تھا کہ مجھے میری زینب کا حساب چاہیے اس کے علاوہ میں کچھ نہیں مانگتا جن ملزمان نے میری بچی کے ساتھ ظلم کیا اسے عبرتناک سزا دی جائے تاکہ زینب کے علاوہ اور بھی واقعات نہ دیکھنے کو ملیں زینب معصوم تھی۔جب تک میری بچی کو انصاف نہیں ملے گا میں چین سے نہیں بیٹھو ں گا جبکہ زینب کی والدہ کا کہنا تھا کہ مجھے صرف زینب کا انصاف چاہیے، حکمرانوں سے مجھے انصاف ملتا نظر نہیں آرہا اگر لوگوں کے جان ومال کے تحفظ میں سنجیدہ ہو تے تو آج زینب کے ساتھ یہ واقع نہ ہوتا، ہم لوگ خانہ کعبہ تھے جب زینب کی خبر سنی تو ہماری نیند یں اڑ گئیں اورہم نے کئی دن تک کچھ نہیں کھایا پیا۔

اس کے علاوہ درندہ صفت ملزمان کی حوس کانشانہ بننے والی 12بچے اور بچیاں بھی انصاف کی منتظر ہیں ، ان کے والدین بھی انصاف کیلئے سراپا احتجا ج ہیں جبکہ کوٹ اعظم خان کی متاثرہ بچی کائنات ابھی کومے میں زندگی موت کی کشمکش میں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر درندہ صفت ملزمان کو گرفت میں نہ لایا گیا تو اسی طرح کے قیامت خیز واقعات مستقبل میں پیش آسکتے ہیں ،جس پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہوش کے ناخن لیتے ہو ئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملزمان کو جلدگرفت میں لانا چاہیے۔

اس کے علاوہ وفاقی وزیر عثمان ابراہیم انتظامیہ اور متاثرہ خاندان کے درمیان صلح کیلئے اپنا رول ادا کریں گے،موجودہ کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ضلع قصور کی امن کمیٹی کے ممبران اور تاجر تنظیموں کیساتھ اجلاس منعقد ہوا۔ امن و امان کی صوتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، شہریوں میں یہ بحث جاری ہے کہ تین ماہ پہلے تعینات ہونیوالے ڈی پی او کو تو غفلت برتنے پر او ایس ڈی بنا دیا گیا مگر دیگرذمہ داران جوعرصہ دراز سے شہرمیں تعینات ہیں، ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں عمل میں لا ئی گئی؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kasur K Mazeed 12 Bachay Bhi Insaaf Ki Muntazir is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.