کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل․․․․؟

کشمیری کسی طور بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے بھارت مکارانہ سفارتکاری کے تحت عالمی برادری کو گمراہ کررہا ہے!

ہفتہ 9 ستمبر 2017

Kashmir k Bgair Pakistan Na Mukamal
ابوبکر محی الدین:
مسئلہ جموں وکشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان نزع کی سی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 7 دہائیوں میں 3 جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور اب بھی جنگی حالات ہیں، اس مسئلے کے لئے اقوام متحدہ میں خود بھارت کی قرارداد موجود ہے جس پر اقوام متحدہ کوششوں کے باوجود مکمل طور پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے، جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہوتے ہیں یا کشمیر کے اندر نہتے شہریوں پر بھارتی مظالم انتہا کو پہنچتے ہیں تو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں ثالثی کا نعرہ لگا دیتی ہیں جس کے باعث کچھ دنوں کیلئے حالات معمول پر آتے ہیں اور پھر بھارت کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد ہونے کے بعد وہی کوہاڑی اور بنجا (حالات پہلے جیسی پوزیشن پر)ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

آخرکیا وجہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کو آزادی نہیں دینا چاہتا اور کیوں کہا جاتا ہے کہ جموں وکشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ایک بہت ہی دلچسپ کہانی سامنے آئی ۔ یہ امر تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان صرف بشری جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ اس میں ربی رضا بھی شامل حال ہے۔

جب میں لفظ ”پاکستان“ پر غور کرتا ہوں تو مجھے اذان کی ابتدا کا واقعہ یا د آجاتا ہے کہ نمازیں فرض ہونے سے پہلے حضوراکرمﷺ کی ہدایت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت بجالاتے تھے اور جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو زمانہ ہجرت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مشرکین کی شرارتوں سے بچنے کے لئے دارارقم میں چھپ کر نمازیں ادا کرتے رہے۔

ہجرت کے بعد آپﷺ نے مدینہ شریف سے باہر قبا کے مقام پر مسجد قبا کی بنیاد رکھی اس وقت مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی اور دور دور تک نماز کے لئے پکارنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی پھر جیسے جیسے اسلام قبا شریف سے باہر تک پھیلنے لگا اور گلی کوچوں اور بازاروں تک نماز کی پکار کی ضرورت محسوس ہوئی تو خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے پیارے صحابہ رضی اللہ عنہ کو جمع کیا اور ان سے اس بابت دریافت کیا کہ کس طرح مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دی جائے اس موقع پر مختلف آراء سامنے آئیں۔

کسی نے عرض کیا لوگوں کی اطلاع کیلئے آگ روشن کردی جائے لیکن اس میں مجوسی یعنی آتش پرستوں کی مشابہت تھی۔ ایک رائے یہ تھی کہ ناقوس بجایا جائے جس پر آپ ﷺ نے فرمایا اس میں نصاریٰ کی مشابہت ہے۔ تیسری رائے یوق بجانے کی آئی مگر یہودیوں کی مشابہت تھی لہٰذا اس کو بھی آپﷺ نے رد کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تینوں صورتوں کو غیر مسلموں سے مشابہت ہونے کی وجہ سے مسترد فرمایا جو ہم مسلمانوں کے لئے موجودہ دور میں یاد کرنے کا سبق ہے۔

اس موقع پر حضرت عمر فاروق اعظم نے عرض کیا کہ ایک آدمی کی ذمہ داری ہو کہ وہ ہر نماز کے وقت اطلاع کردیا کرے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے حکم سے حضرت بلال یہ کہتے ” الصلوٰة جامعتہ“ اسی اثناء میں حضرت عبداللہ بن زید انصاری نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اذان کے الفاظ کا خواب عرض کی اور سرور کائناتﷺ نے فرمایا یہ خواب سچا ہے اور پھر یوں ” اللہ اکبر“ کی صدا بلند ہونے لگی۔

لفظ ”پاکستان“ بھی ایسا ہی ایک خواب ہے جو چودھری رحمت علی مرحوم نے تخلیق کیا۔ اگرچہ تاریخ میں آپ کا بہت زیادہ ذکر نہیں لیکن ہرسال اس درویش صفت مجاہد کی برسی پر تقریبات منا کر اپنے اپنے اندازمیں انہیں جراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسی ہی ایک برسی پر معروف صحافی اور دانشور ساجد میر بڑے خوبصورت انداز میں چودھری رحمت علی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرحوم کے تحریک میں کیا کارہائے نمایاں تھے اور کیوں مورخ نے ان کو نظر انداز کیا قطع نظر اس کے ہمارے نزدیک بلکہ پوری ملت پاکستان کے نزدیک لفظ ”پاکستان“ رہتی دنیا تک ان کا عظیم ترین کارنامہ ہے۔

جو خالصتاََ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوا۔ اب اگر جموں و کشمیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تقسیم ہند کے دوران جموں وکشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا جو 95 فیصد مسلمان آبادی پر مشتمل تھا لیکن یہاں کا حکمران ہری سنگھ سکھ تھا جو بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا تھا لیکن مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ تحریک پاکستان میں صرف ہندوستان کے مسلمان ہی شامل نہیں تھے بلکہ اس خطے کے مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

اس محبت اور تعلق کی وجہ ” پاکستان کا مطلب کیا ‘ لاالہ الااللہ“ کا آفاقی نعرہ تھا جس نے اہل کشمیر کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا۔ چنانچہ 17 جولائی کو جب برطانوی ہاؤس آف لارڈز نے آزادی ہند کا قانون منظور کیا تو بغیر کسی پس وپیش کے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 2 دن بعد 19 جولائی کوسری نگر میں آزاد کشمیر کے ہانی صدر سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کے گھر پر متفقہ طور پر ”الحاق پاکستان“ کی قرارداد منظور کرلی تھی یہ منظور کرنے والوں میں سید حسن شاہ گردیزی مرحوم بھی شامل تھے جن کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے تھا جہاں تحریک آزادی کشمیر کے پہلے شہید سید خادم حسین شہید کوڈوگروں نے گولی مار کر کشمیری مسلمانوں کو بغاوت پر مجبور کردیا تھا۔

اس تحریک کا آغاز قیام پاکستان کے 9 دن بعد 23 اگست 1947ء کو نیلہ بٹ سے ہوا اور ڈیڑھ سال کی جدوجہد کے بعد آباد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل 32 ہزار مربع میل علاقہ کے عوام پاکستان میں شامل ہوگئے۔ جب یہ تحریک سری نگر تک پہنچ گئی تو بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اقوام متحدہ چلے گئے اور اقوام متحدہ نے یونائیٹد نیشن کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان بنایا جس نے قرارداد پاس کی کہ ہندوستان اور پاکستان رائے شماری کا اہتمام کریں جس میں کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے یا ہندوستان کے ساتھ۔

اسی شش پنج میں یکم جنوری 1949ء کو ہندوستان اور پاکستان میں سیز فائر ہوگیا اور کنٹرول لائن وجود میں آگئی مگر آج تک بھارت اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ یوں 70 سال گزرنے کے باوجود نہ صرف پاکستان کی تکمیل مکمل ہوئی بلکہ اقوام متحدہ کا ایجنڈہ ابھی نامکمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چیز بھی سامنے آتی ہے کہ برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کا جو فارمولا وضع کیا اور جو ایجنڈا طے کیا تھا اس کی رو سے جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہی ہونا چاہئے تھا مگر ہندوؤں اور انگریز کی پس پردہ سازشوں کے باعث ایسا نہ ہوسکا۔

لہٰذا جس کا صاف مطلب ہے کہ برصغیر کی تقسیم کا برطانوی ایجنڈا بھی نامکمل ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی چشم پوشی کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں اٹھنے والی تحریک آزادی نے جب زور پکڑا تو بھارت نے اس کا دبانے کے لئے 1988 ء میں 8 لاکھ فوجی اتار دیئے (جو اس وقت 11 لاکھ ہوچکے ہیں)اور اس وقت سے اب تک لاکھوں کشمیری آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، لاکھوں زخمی اور اسی تعداد میں لاپتہ ہیں جبکہ خواتین کی عصمت دری کے بیسیوں واقعات عالمی سطح پر رجسٹرڑ ہیں۔

پاکستان شروع دن سے کشمیری عوام کی مرضی ومنشا کے مطابق حق خودارادیت کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد پر وعملدرآمد کا حامی ہے اور چاہتا ہے کہ پرامن طریقے سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ لیکن بھارت اپنی مکارانہ سفارت کاری اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بدولت عالمی برادری کو گمراہ کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اب تک دونوں ممالک کے درمیان 3 جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔

اسی تنازعے پر خطے میں اسلحے کی دوڑ شروع ہوئی، پہلے بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی تجربے کئے ۔ آج یہ مسئلہ صرف پاک بھارت نزع کی گھڑی نہیں بلکہ اسی مسئلے سے عالمی امن بھی وابستہ ہے۔ خدا نخواستہ (جس کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے)اگر دونوں ممالک کے درمیان چوتھی جنگ چھڑ گئی تو اس کے اثرات سے عرب، مغرب اور یورپ سمیت کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

آج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح پامالیاں ہو رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارت بار بار پاکستان پر دراندازی اور مداخلت کا الزام لگاتا ہے لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ دو،تین دہائی پہلے تک ممکن ہے (جس کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں)پاکستان مجاہدین کو شیلٹر دیتا ہو لیکن اب ایسا نہیں ہے جس کا بین ثبوت برہان مظفر وانی ، مقبول بٹ شہید، افضل گورو شہید اور ابوقاسم شہید جیسے درجنوں کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد ہے۔

بھارت اب یہ بھانپ چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اندریں حالات بڑی تیزی کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں، اب سبز ہلالی پرچم میں لپٹے کشمیریوں کے اٹھنے والے ہر جنازے میں ” کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے اور ہر جنازہ آزادی کا ریفرنڈم ثابت ہو رہا ہے ۔ ان حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے بھارت طاقت کے بے دریغ استعمال کے ساتھ ساتھ وادی کے اندر آبادی میں تبدیلی جیسے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کررہا ہے اور یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں جن سے اقوام متحدہ بھی آگاہ ہے اور عالمی برادری بھی آگاہ ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنی رپورٹس میں اس کا ذکر کرتی ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔

اب یہ بات تو طے ہوئی کہ کشمیری کسی بھی طور پر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور پاکستان زمین کے ٹکڑے کے لئے نہیں بلکہ مذہب اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے اپنے بھائیوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ بھارت کو بنیادی انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں اس کا مطمع نظراور خواہش صرف زمین کے ٹکڑے کی ہے جس سے نکلنے والے دریاؤں پر اس کا قبضہ ہے۔

1960ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدہ (سندھ طاس معاہدہ)کی رو سے دریائے راوی ستلج اور بیاس بھارت کے حصے میں آئے تھے اور دریائے سندھ جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کرلیا گیا تھا، مزے کی بات کہ یہ سارے دریا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں ۔ بھارت اب تک ان دریاؤں کے چھوٹے بڑے 65 کے قریب ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی پر ڈاکہ ڈال چکاہے اور جب چاہتا ہے ان دریاؤں کو ڈبو دیتا ہے۔

لہٰذا بھارت کویہ بھی خوف کھائے جارہا ہے کہ اگر مقبوضہ جموں وکشمیر کو آزاد کردیا تو وہ بنجر ہوجائے گا۔ ماہرین ارضیات وآب کے مطابق اگر ”بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں سندھ،چناب،اور جہلم پر ڈیموں کی تعمیر جاری رکھی تو پاکستان 2020ء تک ریگستان بن جائے گا۔ (یعنی آج سے 3 سال بعد)اب اگر بھارت کا رویہ اسی طرح ہٹ دھرمی کا رہتا ہے اور وہ کسی بھی طور مذاکرات کی ٹیبل پر نہیں آتا، کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق دینے کا حق نہیں دیتا اور نہتے شہریوں پر مظالم جاری رکھتا ہے تو پھر پاکستان کو اپنا وجود مکمل کرنے کے لئے تمام آپشن کھلے رکھنے چاہئیں۔

کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح فرماگئے ہیں کہ ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے“ یعنی یہ رگ کٹی(میرے منہ میں خاک)پاکستان کی سانسیں بندہوجائیں گی، اس لئے بھی کہ پاکستان کے قیام میں کشمیریوں کا بھی لہو شامل ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اور حقیقت ہے کہ پاکستان میں لفظ ”ک“کشمیر کی ہی نمائندگی کرتا ہے، اس لئے بھی کہ کشمیری مسلمانوں اور پاکستانی مسلمانوں کا رہن سہن اور تہذیب وتمدن ایک ہے، اس لئے بھی کہ آج ان کشمیری شہدا کا جسد خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹا اور پاکستان زندہ باد کے ذکر میں اٹھنے والا پر جنازہ ریفرنڈم ثابت ہورہا ہے۔

ان حالات کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کی وفا اور جفا کی مکمل کر حمایت کی جائے‘تمام پاکستانی عوام اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایکا کرکے کشمیر کی آزادی کے لئے نکلنا ہوگا۔ پالیسی بیانات اور ہر سال یوم الحاق منانے یا یوم اظہار یکجہتی کشمیر منانے سے پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہوگا۔ حکومت پاکستان کو اب دو ٹوک الفاظ میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر زور ڈالنا چاہیے اور اپنی سفارت کاری کو موثر انداز میں سرگرم کرنا چاہیے کہ کشمیریوں کو عالمی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kashmir k Bgair Pakistan Na Mukamal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.