کم عمر کی شادی اہم سماجی مسئلہ

دہشتگردی ، رشوت ، غربت ، جہالت ، بیروزگاری اور امن وامان کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بچی کی کم عمری میں شادی بھی ہے۔ ہمارے ہاں کم عمربچیوں کو بہت جلد شادی کے بندھن میں باندھ دیاجاتا ہے ۔

جمعہ 30 ستمبر 2016

Kam Umr Main Shadi Aham Samaji Masla
محمد عذیر سلیم :
دہشتگردی ، رشوت ، غربت ، جہالت ، بیروزگاری اور امن وامان کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بچی کی کم عمری میں شادی بھی ہے۔ ہمارے ہاں کم عمربچیوں کو بہت جلد شادی کے بندھن میں باندھ دیاجاتا ہے ۔ وہ بچیاں جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئے ان کے ہاتھ میں گھر کی باگ ڈور تھمادی جاتی ہے۔ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا یہ مسئلہ بہت پرانا ہے لیکن اب اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

ہمارے ہاں کم عمری کی شادی کے ذیادہ ترواقعات دیہی علاقوں میں سے ہیں البتہ شہروں میں ا سی طرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں عورت دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہے جو نہ پڑجنے کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی پسندیدگی کے اظہار کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی والدین کی محبت کا کیونکہ اس کاہر عمل مردکی انا کامسئلہ بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 100 سے زائد چائلڈمیرج کے کیس رپورٹ ہوئے اور رپورٹ نہ ہونے والے کیسوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ۔
دیہی علاقوں میں غربت، بے روزگاری کی وجہ سے بچیوں کی کم عمری میں شادی کا رحجان عام ہے ۔ یہ علاقے تعلیم جیسی بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے ونی ، وٹہ سٹہ ، غربت ، فرسودہ رسم وررواج میں گھرے ہوئے ہیں۔

ایسے علاقوں میں تو لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ والدین ان کو پرایا دھن سمجھ کر ان کی تعلیم وتربیت پر بھی توجہ نہیں دیتے اور بچپن میں ہی ان کی شادی کردیتے ہیں کیونکہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ ایک عورت کی تعلیم ایک پورے خاندان کی تعلیم ہے ۔ کم عمری کی شادی کا ایکٹ 1929 ء میں بنا 2013ء میں صوبہ سندھ اور 2015ء میں صوبہ پنجاب میں اس میں ترمیم کرکے نافذ عمل کیا گیا۔


جس کے مطابق شادی کے وقت لڑکے کی عمر 18سال اور لڑکی کی عمر 16 سال لازمی ہے۔ سیکشن 4کے مطابق اگرکوئی لڑکا جس کی عمر18سال سے یا اس سے زیادہ ہے کم سن لڑکی کی شادی کرتا ہو پکڑا گیا تو اس کی سزاچھ ماہ قیدا ور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہوگی۔ سیکشن 5کے مطابق بچوں کی شادی کروانے والے کی سزا کو بھی بڑھا دیاگیا۔ جس میں قصوردار کو 6ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانہ ہوگا۔

اسی طرح سیکشن 6میں بچہ یابچی کی شادی کروانے والے والدین یاسرپرست کی سزایک ماہ قید یاایک ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں سے بڑھا کر چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ کردی گئی ہے۔ سیکشن 9میں بھی ترمیم کرکے فیملی کورٹ کو بطور جوڈیشنل مجسٹریٹ کو کم عمری کی شادی کی کمپلینٹ کا ٹرائل کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے اور یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ کم عمری کی شادی کی کمپلینٹ علاقہ کی یونین کونسل کی طرف سے بھجوائی جائے گی۔


حکومت پنجاب کا اولین فرض ہے کہ کم عمری کی شادی کے حوالے سے مئوثر قانون سازی کریں اور جو کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ اس ایکٹ کا اطلاق ہر صورت یقینی بنایاجائے اور ذمہ داروں کو سزادی جائے ۔ جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی کا رجحان عام ہے۔ پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے ، این جی اوز اور دیگر ادارے اپنے دائرہ کاروسیع کریں۔ لوگوں کوشعور دیں تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kam Umr Main Shadi Aham Samaji Masla is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 September 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.