کم اجرت ، بوسیدہ مشینری ، بڑھتی لاگت

شعبہ ٹیکسٹائل کے بحران کے اصل محرکات کیا ہیں؟ اس کا احاطہ کرنا اب بہرحال ضروری ہے کہ اس شعبہ کے ذمہ داران اور تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے گاہے بگاہے متواتر احتجاج سامنے آ رہا ہے۔

بدھ 24 جنوری 2018

Kam Ujrat Boseeda Machinary Barhti Lagat
احمدجمال نظامی:
شعبہ ٹیکسٹائل کے بحران کے اصل محرکات کیا ہیں؟ اس کا احاطہ کرنا اب بہرحال ضروری ہے کہ اس شعبہ کے ذمہ داران اور تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے گاہے بگاہے متواتر احتجاج سامنے آ رہا ہے۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر شعبہ ٹیکسٹائل میں سپننگ کے بعد بنیادی صنعت کی حیثیت رکھنے والے شعبہ پاور لوم کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آنے لگا ہے۔

پاور لوم مالکان اور مزدور دونوں حلقوں کی طرف سے پاور لوم انڈسٹری کے بحران پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس حقیقت میں شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں کہ ہمارے ہاں ٹیکس کلچر کے بے ڈھنگے نظام، توانائی بحران اور متعلقہ اداروں کی غفلت کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری بحران کی زد میں دکھائی دیتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن دوسری طرف اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری پاور لوم انڈسٹری میں آج بھی 90ء کی دہائی سے پہلے کی پرانی مشینری استعمال ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں پیداواری عمل انتہائی سست ہے۔

پیداواری لاگت اور ڈبلیو ٹی او کے 2005ء سے نافذالعمل معاہدے کے بعد کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی صورت میں عالمی منڈیوں میں مسابقت کے مسائل بہرطور ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن صنعتی انفراسٹرکچر کی بہتری پر توجہ نہ دینا بھی کسی المیہ سے کم نہیں جس کی وجہ سے بحران در بحران سامنے آ رہے ہیں اور احتجاج کا سلسلہ کا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ گزشتہ دنوں پاور لوم انڈسٹری کے گڑھ فیصل آباد میں کونسل آف پاور لوم اونرز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام انڈسٹری کے بحران پر ایک مرتبہ پھر شدید احتجاج کیا گیا۔

اس دوران پاور لوم مالکان کا کہنا تھا کہ ناقص حکومتی پالیسیوں اور سوترمنڈی میں سٹہ بازی کے باعث پاور لوم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے لیکن حکومت ریلیف فراہم کرنے کی بجائے ایف بی آر کے آڈٹ نوٹسز جاری کر رہی ہے۔دوسری جانب کونسل آف پاور لوم اونرز ایسوسی ایشن کے احتجاج پر پاور لوم مزدور بھی سراپا احتجاج بنے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

پاور لوم مزدوروں کی تنظیم لیبر قومی موومنٹ کے ذمہ داران نے احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ پاور لوم مزدور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ہماری اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو ہم دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے۔ پاور لوم مزدوروں کے ساتھ پاور لوم مالکان کا ہمیشہ ہی تنازعہ رہتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ قوانین کے مطابق پاور لوم مزدوروں کو ہفتہ وار تعطیل، سوشل سیکورٹی رجسٹریشن، اجرتوں میں اضافہ اور اس طرح کے بنیادی مطالبات کے مطابق سہولیات فراہم نہ کرنا ہے۔

پاور لوم مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے کے لئے حکومت کی جانب سے بھی اس کی انتظامیہ کوبار بار سے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جار ہا ہے۔ پاور لوم مزدوروں اور پاور لوم مالکان کے مابین کپڑے کی پیداوار کے حساب سے اجرت میں اضافے اور ایڈجسٹمنٹ کے مسائل بھی اس بناء پر جنم لے رہے ہیں کہ پرانی پاور لوم مشینری زیادہ لاگت کا باوجود پیداوار نہیں دے پارہی اور اس طرح سے آٹھ یا دس گھنٹوں کے لئے پاور لوم مشین پر کام کرنے والے مزدور اور مالک کے درمیان اجرت کے ایشو پر تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

ٹیکسٹائل سیکٹر میں پاور لوم انڈسٹری میں جدید مشینری کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی ساٹھ سال پرانی الیکٹرک کھڈی پاور لوم استعمال کی جا رہی ہے، جبکہ آج دنیا بھر میں جدید پاور لومز سیفی، سولجر، وائرویٹ، ایئرجیٹ جیسی پاور لوم مشینری لگائی جا رہی ہے جو پرانی الیکٹرک کھڈی سے سوگنا زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔بلا شبہ اس جدید مشینری سے پیداواری لاگت بھی کم ہو جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں حکومتی عدم توجہی اور مالکان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لیبر کو اس جدت سے روشناس نہ کروانے سے ٹیکسٹائل کا شعبہ پاور لوم مسلسل بحران کی ز دمیں ہے۔

پاور لوم انڈسٹری کے بحران کی دوسری بڑی وجہ فیصل آباد میں ایشیاء کی سب سے بڑی سوترمنڈی ہے جہاں چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ پاور لوم انڈسٹری کا سب سے بنیادی خام مال سوتر دھاگہ ہے مگر اجارہ دار ہی سوترمنڈی میں من مانے نرخ لگاتے ہیں۔ سوترمنڈی میں سٹہ بازی جیسی سرگرمیوں نے پاور لوم انڈسٹری کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیاہے۔موجودہ صورتحال میں حکومت گبے حسی کا مظاہرہ کر رہی جس میں ٹیکسٹائل منسٹری تو موجود ہے لیکن یہ ٹیکسٹائل پالیسی تشکیل نہیں دے سکی۔

ٹیکسٹائل سیکٹر جو معیشت میں ٹیکس کی صورت میں 70فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے اس شعبہ صرف چند بااثر لوگوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے مہنگی بجلی، ٹیکسز کی بھرمار نے شعبہ ٹیکسٹائل کو عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم کر دیا۔ حکومت درحقیقت شعبہ ٹیکسٹائل کی پاور لوم جیسی چھوٹی انڈسٹری کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر سکی جبکہ افغانستان بارڈر سے تیارکردہ کپڑا ہماری ناقص خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے سمگل ہو کر آنے سے پاور لوم سیکٹر سال بھر بحران کی زد میں رہا۔

اس سیکٹر سے وابستہ لاکھوں مزدور بالخصوص فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ، گوجرہ، ملتان، کوٹ رادھا کشن، قصور، حافظ آباد اور جلالپور جٹاں میں برسرروزگار ہیں یا تھے انہیں انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزارنا پڑ رہی ہے۔ لہٰذا حکومت بہتری کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے۔شعبہ ٹیکسٹائل کیونکہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے قرض کے حجم کی وجہ سے بھی سے معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اس بناء پر ٹیکسٹائل انڈسٹری بد حال ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ ہماری کرنسی بار بار ڈی ویلیو ہو رہی ہے جس سے ٹیکسٹائل برآمدات اور معیشت کے مسائل کا جن جو بند کیا گیا تھا وہ بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ شعبہ ٹیکسٹائل کا بنیادی خام مال بجلی، گیس ہے لیکن جی آئی ڈی سی پی کے 300 اور ٹی آر کے ساڑھے 3روپے کا اضافی بوجھ سال 2017ء سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دیوالیہ کررہا ہے۔

بھارت کی مودی سرکار ہمارے ساتھ معیشت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ انڈیا کی مصنوعات کی ڈمپنگ کی وجہ سے بھی شعبہ ٹیکسٹائل کا بحران 2017ء سے حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ صرف ڈیڑھ سالوں میں مودی سرکار کی معیشت کی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں ہماری 60سپننگ ملیں بند ہوئیں، اب ان کا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ بھارتی اور چائینز یارن کی ڈمپنگ مزید مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

بھارت کی یارن ، کاٹن یارن، فیبرکس، سیکنڈ ہینڈ گارمنٹس اور اب تو لان کے سوٹ بھی بھارت سے پرنٹ ہو کر آ رہے ہیں جس سے مسائل اور بحران بڑھ رہے ہیں۔ ان حالات میں شعبہ ٹیکسٹائل کے ذمہ داران کو اپنے طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جیساکہ پاور لوم انڈسٹری کو جدید تقاضوں کے مطابق نئی مشینری سے ہم آہنگ کیا جائے جبکہ دوسری طرف حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کے پیش نظر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے، وزیراعظم ٹیکسٹائل پیکج پر عملدرآمد کیا جائے اور ایف بی آر پہلے سے موجود ٹیکس دہندگان پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ ورک میں وسعت لائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kam Ujrat Boseeda Machinary Barhti Lagat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.