جھل مگسی میں درگاہ پر خود کش حملہ، بلوچستان پھر لہو لہان!

دہشت گردی کی نئی لہر پر عوام خوف وہراس کا شکار سینیٹ انتخابات ، مسلم لیگ ن اور پی پی کامیابی کیلئے سرگرم

منگل 17 اکتوبر 2017

Jhal Magsii Me Draga pr Khud kash Hamla
عدن جی:
بلوچستان میں ایک بار پھر دہشت گردی نے 21 افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور 35 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں ایک درگاہ فتح پور میں طور پر زائرین عرس کی تقریبات میں خواہشات اور منتوں کے پورے ہونے کے لئے جمع تھے وہاں ایک خودکش بمبار نے درگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر سکیورٹی والوں نے گیٹ پر روک لیا جہاں اس نے خود کو بارود سے اڑالیا جس سے درگاہ میں ہلچل مچ گئی اور چیخ وپکار کے ساتھ ہر طرف خون اور انسانی اعضاء بکھر گئے ، شہید ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد شامل ہے، اگر سکیورٹی اہلکار اپنی ڈیوٹی انجام ے دیتے تو جانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔

19 مارچ 2005 ء کو بھی فتح پور درگاہ پر خود کش دھماکہ ہوا تھا اور 50 افراد جاں بحق ہوئے تھے، پہلے بھی یہاں طبی سہولتوں کا فقدان تھا اور زخمیوں کی بہت بری تعداد علاج معالجہ نہ ہونے سے دم توڑ گئی تھی، آج پھر وہی ہوا ۔

(جاری ہے)

سندھ تک جو پہنچ جائے وہ زخمی تر زیر علاج ہیں باقی اللہ کے حوالے ، یہ جھل مگسی کا علاقہ اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ یہاں سے ماضی میں دوسے تین بار نواب ذوالفقار مگسی ایم پی اے بلوچستان منتخب ہوئے ان کی اہلیہ شمع پروین مگی صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں، ان کا ایک بیٹا بھی اقتدار کے ایوانوں میں منتخب ہوا مگر وہاں صحت کی سہولتوں کا حال پورے صوبے جیسا ہے ، نہ صرف ایک معمولی ڈسپنسری ہے جو اتنے بڑے حادثوں میں تو ویسے بھی کارآمد نہیں ہے، عام حالات میں بھی غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔

منتخب نمائندے اور نواب لوگ تو بیرون ملک جا سکتے ہیں، لہٰذا یہ معاملہ بہت اہم ہے کہ صوبے میں علاج معالجے کی سہولتوں کی فراوانی کے ذمہ دار ہوں اور ان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں ، دوسرا پہلو اس دھماکے کے حوالے سے یہ ہے کہ خودکش دھماکہ بھارتی تحزیب قاری تو ہے یہ دراصل محرم کے دنوں میں یا عاشورہ پر کوئٹہ میں ہونا تھا مگر وہاں سکیورٹی کے زبردست انتظامات کے باعث دہشت گردوں کو موقع نہیں مل سکا لہٰذا انہوں نے ایک بار پھر فتح پور کی درگاہ پر اپنا مشن مکمل کرلیا۔

عاشورہ پر بہترین انتظامات کے لئے انتظامیہ شاباش کی مستحق ہے لیکن صدر وزیراعظم ، وزیراعلیٰ کی جانب سے صرف مذمت کے اعلانات کافی نہیں ہیں، اس امر پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کے بے گناہ لوگوں کو خون اتنا ارزاں ہے کہ دہشت گردی ایک ہی وار میں درجنوں گھروں کو اجاڑ دے۔ یہ خودکش حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت کے سارے دعوے جھوٹے ہیں کہ اب بلوچستان میں امن وامان کے حالات بہتر ہیں۔

بلکہ اتنے آپریشن چھاپوں کے بعد بھی یہ خودکش دھماکے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں ابھی تک دہشت گردوں کے ٹھکانے بھی موجود ہیں اور سہولت کار بھی ہیں اور دشمن کا نیٹ ورک بھی مضبوط ہے ۔ اب ان معاملات کو حل کرنے کے لئے صرف فوج کو ذمہ دار قرار نہیں جا سکتا صوبائی حکومت کو بھی حکمت عملی بنانا ہوگی ، تاہم صوبائی حکومت نے صوبے بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں مندروں، گھر جا گھروں، مزاروں کو محکمہ اوقاف کے سپرد کردیا ، جس نے ان کے متعلق سروے شروع کردیا ہے مگر ضرورت اس امرکی ہے کہ اس نیٹ ورک کو توڑا جائے ۔

تاکہ وقفے وقفے سے یہ کاروائیاں نہ ہوں، دوسری جانب ملک کی سیاست کے اتار چڑھاؤ کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی نظر آرہے ہیں اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے یہاں جو ایک رابطوں، مذاکرات سیاسی اتحاد کی ہوا چلی تھی وہ ”تھم“ گئی اور ساری سرگرمیاں مارچ میں سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے دھیرے دھیرے چل رہی ہیں۔ بعض صوبائی وزراء سابق وزرائے اعلی اور سپیکرز بھی اس دوڑ میں شامل ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں، دوسری جانب پی پی پی کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ سینٹ کے الیکشن میں اپنے حمایتی امیدواروں کو ہر صورت کامیاب کروائے ، اس کے لئے اس کے سیاسی رابطے مختلف قبائلی اور سیاسی شخصیات سے چل رہے ہیں اور یہ بھی کہاجارہا ہے کہ گزین مری کو سابق صدر آصف زرداری کا اہم پیغام پہنچایا گیا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق نواب خیر بخش مری کے بیٹے گزین مری کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔

جبکہ متعدد سیاسی حلقے اس بات پر اعتراض بھی کررہے ہیں کہ نوابزادہ گزین مری اتنے برس ملک سے باہر رہ کر ایک کالعدم تنظیم چلاتے رہے جو صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہی، اب ”ان“ کو مختلف کیسز میں ریلیف کیوں مل رہا ہے۔؟ کیا ماضی کے مجرم یا ملزم اب ہیروبن جائیں گے؟ مگر ابھی یہ سب اعتراضات ہیں ۔ ہوسکتا ہے ان میں سچائی نہ ہو اور وہ قانون کا سامنا کررہے ہیں، تاہم صوبائی حکومت میں شامل بعض جماعتیں جس انداز سے صوبے کی سیاست سے نکل کر سینٹ کی تیاریاں کررہی ہیں وہ اہم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی بھی پوری کوشش ہے کہ مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن میں بھرپور طور پر برتری حاصل ہو یہی خواہش پیپلز پارٹی کی ہے۔ اب اس کے لئے کیاجوڑ توڑ ہوگا یہ وقت بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jhal Magsii Me Draga pr Khud kash Hamla is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.