جامعہ اسلامیہ پر شب خون مارنے کی تیاریاں

سنگھ پریوار اعلیٰ مسلم تعلیمی اداروں کا تشخص مٹانے کے درپے مودی حکومت یونیورسٹی کی مسلم حیثیت ختم کرکے اس پر قبضہ کرنے کیلئے سرگرم

بدھ 30 اگست 2017

Jamia Islamia Pr Shabe Khoon Marny Ki Tyari
رابعہ عظمت:
مودی حکومت نے نصابی کتابوں سے مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو خارج کردیا ہے ۔ مغلیہ دور کی تاریخی عمارات بالخصوص تاج محل،لال قلعہ ان کا اگلا ہدف ہیں۔ بابری مسجد ان کی سازشوں کا شکار ہوچکی ہے۔ تاریخی مسجد کے حوالے سے کبھی شیعہ وقف بورڈ کا نرم بیان آجاتا ہے کبھیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے نائب صدر سمیت مسلمانوں کے نام نہاد لیڈروں کی رام جنم بھومی کے حق میں بیانات منظر عام پر آرہے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مودی سرکار میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔

ان کا ہندوستان سے نام ونشان مٹانے کیلئے منظم منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ قبل ازیں مسلم علمی ادارہ علی گڑھ یونیورسٹی کا قلیتی کردار خطرے میں ڈال دیا گیا تھا اور اب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علیحدہ تشخص پر بھی ہندو تو اکی تلوار لٹک رہی ہے۔

(جاری ہے)

افسوس یہ ہے کہ ”سب کاوکاس“کا نعرہ لگانے والے مودی جب سے دہلی میں برسراقتدار آئے ہیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تاریخی و علمی اداروں کا نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ بھارتی سرزمین سے مسلم شناخت کے حامل علی گڑھ اور جامعہ اسلامیہ کا اصل کردار ان سے چھین لیا جائے اور اس کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کی خدمات لی گئی ہیں۔

بھارتی مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل نے اس سلسلے میں کورٹ میں نیا حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ جامعہ کو اقلیتی درجہ دینا ایک غلطی تھی۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق”مرکزی وزارت سپریم کورٹ کویہ بھی بتائے گی کہ جامعہ اسلامیہ کبھی اقلیتی ادارہ نہیں رہا کیونکہ پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت اس کا قیام عمل میں آیا تھا اور مرکزی حکومت اسے مالی مدد دیتی ہے ۔

واضح ہوا کہ 2011ء میں قومی کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات نے یہ حقیقت تسلیم کی تھی کہ مسلمانوں میں تعلیمی فروغ کے مقصد سے ہندوستان کے مسلمانوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی تھی اور ایک مسلم تعلیمی ادارے کی حیثیت سے اس کی شناخت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ بھارتی سیکولر دستور کی دفعہ (1)30 کے تحت ہندوستان کی تمام مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے اپنے ادارے قائم کرنے اور اپنے طور سے چلانے کااختیار حاصل ہے۔

قومی کمیشن کے اسی حکم نامے کے تحت جامعہ ملیہ اسلامیہ نے دلتوں،قبائلی اور پسماندہ طبقہ کے طلبا کے ریزرویشن ختم کرتے ہوئے ہر شعبے میں مسلم طلبا وطالبات کیلئے نصف نشستیں مختص کردی تھی۔ تاہم موجودہ ہندو تو ا حکومت جامعہ ملیہ اسلامیہ پر شب خون مارنے کی تیاری میں ہے۔ 1988 ء میں ایک مرکزی قانون کے تحت اسے باضابطہ مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا تھا اور اب مودی حکومت نے مسلم تعلیمی اداروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے مذموم سلسلے کا آغاز کررکھا ہے۔

راجیو گاندھی کے دور حکومت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ 1988ء لاگو کیا گیا تھا تاہم اس ایکٹ کی اپنی شرائط کے ساتھ شروع میں ہی دھوکہ دہی آشکار ہوگئی تھی۔  سیکشن (0)2 کے مطابق ایکٹ میں یونیورسٹی کا مطلب تعلیمی ادارہ المعروف”جامعہ اسلامیہ“ ہے جسے 1920ء میں قائم کیا گیا جسے بعد میں جامعہ اسلامیہ کی سوسائٹی کی حیثیت سے 1939 ء میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا اور 1962 ء میں ایسا ادارہ قرار دیا گیا جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ 1956کے سیکشن کے 3 کے تحت یونیورسٹی ہونے کا استحقاق حاصل ہے اور جسے ایک یونیورسٹی کے طور پر اس ایکٹ کے تحت شامل کیا گیا ہے۔

یہ پچیدہ جملے جو کسی تاریخی حوالہ سے کم نہیں غلط ذہنیت کو عیاں کرتے ہیں۔ جبکہ نریندر مودی حکومت نے نجمہ ہیبت اللہ کو اس کی چانسلر مقرر کردیا ہے جس نے یہ کہہ رکھا ہے کہ مسلمان کمیونٹی اقلیت نہیں ہے۔ اب ان سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ حکومتی موقف نہ صرف جامعہ کی تاریخ کو جھٹلاتا ہے بلکہ اس تنگ ذہنیت کو واضح کردیتا ہے جو ہندوستان میں مخصوص ثقافتی کلچرکو مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے ۔

حال ہی میں مختلف ریاستوں کے تعلیمی نصاب میں جن تبدیلیوں کی خبریں آرہی ہیں کہ مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکمرانی کو ہٹایا جارہا ہے یہ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے پر ہندو توا لیڈر شوک سنگھل نے کہا تھا کہ پرتھوی راج چوہان کے ہزار سالہ دور کے بعد دہلی میں ہندو حکومت قائم ہوئی ہے اور دوسری جانب تاریخ کی کتابوں سے مغلوں کے دور حکومت کو مسخ کیا جارہا ہے اور تاریخ کو غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔

2004ء میں جامعہ کو اقلیتی درجہ ملا تھا لیکن اس کے خلاف بھارتی عدالتوں میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اس وقت کی مرکزی حکومت نے اقلیتی حیثیت کی تائید میں بیان حلفی داخل کیا تھا۔ اب مودی کی مرکزی سرکار اپنے موقف سے پھر گئی ہے اور اس نے اپنا حلف نامہ واپس لے لیا ہے کیونکہ دو سال بعد انتخابات آرہے ہیں اورہندوؤں کو ورغلانے کیلئے کوئی ایشو تو چاہیے ۔

سنگھ پریوار علی گڑھ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تشخص مٹانے کے درپے ہے اور مسلم حیثیت ختم کرکے ان دونوں تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ نجمہ بیبت اللہ کو وائس چانسلر مقررر کرنے کا اصل مقصد ہی مسلمانوں کا کنٹرول ختم کرکے مسلم طلبا کو ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت سے محروم کرنا ہے۔ آرایس ایس کے تعلیمی ونگ بھارتیہ ستیشن منڈل (بی ایس ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقلیتی اداروں کے خلاف ایک قانونی مہم کا آغاز کرنے والے ہیں۔

ان کے مطابق اقلیتی درجہ کی تعریف پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ آر ایس ایس آج اپنے اسی اعلان کو عملی جامہ پہنا رہی ہے اور مسلسل ہندوستانی مسلمانوں کو ہر میدان میں پیچھے دھکیلنے کیلئے کوشاں ہے۔ اٹارنی جنرل روہتگی نے وزارت برائے ترقی انسانی وسائل کو دی گئی اپنی قانونی رائے میں 1967ء کے سپریم کورٹ کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تکنیکی طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوئی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور یہی اصول جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھی لاگوہوتا ہے۔

بھارتی مرکزی وزارت برائے ترقی انسانی وسائل نے اس معاملے پر قانونی رائے کیلئے وزارت قانون سے رابطہ کیا تھا۔ اس کے بعد وزارت قانون نے روہتگی سے قانونی رائے مانگی تھی۔ وزارت قانون کے ذرائع نے جامعہ اسلامیہ ایکٹ1988 ء کے آرٹیکل 7 کا حوالہ بھی دیا جس میں کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی ہرجنس،نسل اور ذات کے لئے کھلی رہے گی اور کسی استاد یا طالب کے طور پر داخلے کی اہلیت کیلئے کسی شخص پر مذہب، عقیدہ یا پیشے کے معیار کو لاگو کرنا یونیورسٹی کے لئے درست نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ جامعہ کا اقلیتی کردار 22 فروری2011ء میں قوی کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات کی طرف سے تفویض کیا گیا تھا۔ جوکہ بالکل آئینی اور دستوری ہے۔ گزشتہ کانگریسی حکومت نے اپنے منشور کے تحت قومی کمیشن برائے اقلیتی اداروں کی نگہبانی اور حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا جو بھارتی سیکولر آئین کی دفعہ 30 میں بھی درج ہے۔ جس کے تحت تمام اقلیتوں کو چاہے وہ لسانی ہوں یا مذہبی یہ حق حاصل ہے کہ اپنے پسند کے ادارے قائم کرسکتی ہیں، اس کا نظم ونسق چلا سکتی ہیں۔

یہ کمیشن جوڈیشنل باڈی کے مساوی ہے۔ جسے سول کورٹ کے اختیارات دیئے گئے تھے۔ اس کمیشن کا سربراہ دہلی ہائی کورٹ کا جج ہوتا ہے اس کے دو اور رکن بھی ہوتے ہیں جنھیں مرکزی حکومت نامزد کرتی ہے۔ اس ایکٹ میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ اقلیتی تعلمی ادارہ جات سے لے کر یونیورسٹی تک کی توثیق کا معاملہ ہے اس کمیشن کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
مسلم اقلیتی کردار کی حامل دیگر یونیورسٹیوں بی جی ایس عبدالرحمن یونیورسٹی، مولانا محمد علی یونیورسٹی وامپور،جامعہ ہمدرد دہلی، الفلاح یونیورسٹی ہریانہ اہم ہیں۔

اقلیتی کردار پر سوالیہ نشان لگانے کا سلسلہ صرف ان دونوں اعلیٰ تعلیمی اداروں تک محدود رہے گا یا پھر دیگر اقلیتی ادارے بھی اس کی زد میں آئیں گے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جہاں تک جامعہ اسلامیہ کی بات ہے تو یہ شروع سے ہی سنگھ پریوار کے نشانے پر ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی 2008ء میں گجرات کی ایک عوامی اجلاس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کر برا بھلا کہہ چکے ہیں۔

بھارتی اٹارنی جنرل کے مطابق سیکولر ملک میں اقلیتی ادارے قائم نہیں ہوسکتے۔ وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ اسی سیکولر ملک میں سینٹ اسٹیفن جیسے کئی اقلیتی ادارے موجود ہیں جنہیں حکومت امداد دیتی ہے۔ حالانکہ رنگ ناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی رپورٹ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرح بھارت میں منتخب اداروں کو قانون طریقے سے خصوصی ذمہ داری دی جائے کہ وہ ہر سطح پر مسلم ملیہ کے درمیان تعلیم کو فروغ دین اور اس مقصد کے لئے وہ ہر ممکنہ قدم اٹھائیں اور ہر ریاست میں کم از کم ایک ایسا ادارہ ضرور ہونا چاہیے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہو۔

ان سفارشات پر عمل کرنے کے بجائے مودی حکومت شرانگیزیوں میں مصروف ہے اور مسلمانوں کی پسماندگی کی گہرائیوں میں دھکیلنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ساری تعلیمی سرگرمیاں اقلیتی کردار کی روشنی میں پرامن طریقے سے چل رہی ہیں اب انہیں بگاڑنے کی سرکاری سطح پر کاروائیاں ہورہی ہیں۔ اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے سابق سربراہ جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کہتے ہیں کہ جس وقت کمیشن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور معاملہ دہلی ہائیکورٹ میں چلا گیا تھا تو جس طرح مودی سرکار فروغ انسانی وسائل کے کمیشن کے فیصلہ سے ناراض ہیں اسی طرح اس وقت کانگریس سرکار کے وزیر کپل سبل بھی ناراض تھے۔

مسلمانوں اور کمیشن کی کافی جدوجہد کے بعد ہی سبل کی وزارت نے عدالت میں کہاتھا کہ ہم کمیشن کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ اگر کانگریسی حکومت عدالت میں صاف صاف کہہ دیتی کہ ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی ادارہ تسلیم کرتے ہیں اور وہ ایک اقلیتی ادارہ ہے تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ لیکن ایسا نہیں کہا اور موجودہ حکومت کویہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہم کمیشن کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے۔

دراصل جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کے خلاف سرگرمیاں سرکاری سطح پر کافی عرصے سے چل رہی تھیں جب سمراتی ایرانی وزیر تھیں اور اٹارنی جنرل نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ حکومت کویہ حق حاصل ہے وہ کہ جامعہ کے بارے میں اپنا نظریہ بدل دے اور اس کے اقلیتی کردار کے خلاف عدالت جائے۔ دوسری جانب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس کے خلاف بھی سازش کی جارہی ہے۔

ابتدائی طور پر بھارتی ریاست اتر پردیش میں اسلامی درس گاہوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس نے مسلمانوں کو مصنظرب کردیا ہے۔ آسام کے مدارس میں جمعہ کی تعطیل جو برسوں سے ہورہی تھی اسے بھی منصوبہ بندی کے تحت بند کردیا گیا ہے۔ حالانکہ جب 2010ء میں مذکورہ ایکٹ نافذ العمل ہوا تھا تو اس وقت کی کانگریسی حکومت کے وزیر کپل سبل نے مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ باضابطہ ترمیم کرکے مدارس اور مذہبی تعلیمی اداروں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے مگر مودی حکومت میں مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور تمام قوانین وترامیم بالائے طاق رکھ دیئے گئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jamia Islamia Pr Shabe Khoon Marny Ki Tyari is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.