جمہوریت کو ملک اور پاکستانی عوام کےلئے لازم و ملزوم سمجھتی تھیں

محترمہ فاطمہ جناح جمہوریت پسند لیڈر تھیں وہ پاکستان میں جمہوریت کی بقاءاور جلا کے لئے 2 جنوری 1965کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں متحدہ حزب اختلاف کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتریں اور صدر محمد ایوب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ جمہوریت کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے لازم و ملزوم سمجھتی تھیں۔

منگل 1 اگست 2017

Jamhoriyat Ko Mul Our Pakistani Awam Ke Liye Lazim-O-Mulzim Samajhti Thian
عنبرین فاطمہ:
محترمہ فاطمہ جناح جمہوریت پسند لیڈر تھیں وہ پاکستان میں جمہوریت کی بقاءاور جلا کے لئے 2 جنوری 1965کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں متحدہ حزب اختلاف کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتریں اور صدر محمد ایوب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ جمہوریت کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے لازم و ملزوم سمجھتی تھیں۔

ایوب خان نے اپنی کتاب میں ”جس روز سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی “ میں محترمہ فاطمہ جناح کی اس خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے (فاطمہ) حیرت انگیز توانائی کا ثبوت دیا تھا اور بڑی کٹھن لڑائی لڑی تھی ایک ہفتاد سالہ خاتون کا یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے میں ان کی اس جرات کو و ہمت پر آفرین کہتا ہوں۔

(جاری ہے)

محترمہ فاطمہ جناح31جولائی 1893ءکو کراچی شہر کے علاقہ کھارادر میں پیدا ہوئیں۔

جب فاطمہ جناح پیدا ہوئیں تو اس وقت محمد علی جناح اپنی تعلیم کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے تھے۔ انہیں وہاں اطلاع ملی تو انہوں نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا اور لکھا کہ وہ بہت جلد تعلیم مکمل کرکے وطن واپس آرہے ہیں۔ والد جناح پونجا کے انتقال کے بعد گھر کی قیادت کی ذمہ داری محمد علی جناح کے کندھوں پر براہ راست آگئی۔ انہیں ننھی فاطمہ جناح سے بہت پیار تھا جسے وہ پیار سے ”فاطی“ کہہ کر بلاتے تھے۔

وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بہن کو کانونٹ سکول میں پڑھائیں گے۔ ان کے خاندان میں لڑکی کے لیے اعلیٰ تعلیم خاص طور پر انگریزی تعلیمی اداروں میں جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس فیصلے پر نکتہ چینی شروع ہوگئی تو ننھی فاطمہ بھی بددل ہوگئی۔ یہ صورت حال محمد علی جناح کے لیے خوشگوار نہیں تھی۔ انہوں نے آنے بہانے باندرہ کانونٹ سکول کے علاقے میں سیر کے لیے جانا شروع کردیا۔

وہاں صاف ستھرے ملبوسات میں لڑکیوں کو پڑھتا اور کھیلتا دیکھ کر فاطمہ جناح کے دل میں بھی ایسے ہی تعلیمی ادارے میں جانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ انہیں نو سال کی عمر میں 1902ءمیں باندرہ کانوونٹ سکول بمبئی میں داخل کرادیا گیا۔ اتنی تاخیر سے داخلے کی وجہ ظاہر ہے کہ رشتہ داروں کی نکتہ چینی اور فاطمہ جناح کی دل برداشتگی تھی۔ رشتے داروں کی نظروں اور تنقید سے دور رکھنے کے لیے فاطمہ جناح کو وہیں بورڈنگ ہاو¿س میں داخل کرادیا گیا جہاں ان کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رہتا۔

1906ءمیں انہیںسینٹ پیٹرک سکول کھنڈالہ میں داخلہ دلوایا گیا۔ وہاں بھی وہ بورڈنگ ہاو¿س میں رہیں۔1910ءمیں انہوں نے میٹرک پاس کرلیا۔اس کے بعد وہ بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ محمد علی جناح صبح ہائی کورٹ جاتے وقت فاطمہ جناح کو ساتھ لیتے اور راستے میں اپنی بہن مریم عابدین پیر بھائی کے گھر چھوڑ دیتے اور واپسی پر ساتھ لے لیتے۔ اس دوران بھائی کی شفقت اور رہنمائی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ فاطمہ جناح نے مطالعہ جاری رکھا اور 1913ءمیں بطور پرائیویٹ امیدوار سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرلیا۔

اسی طرح بہن بھائی کا وقت گزرتا گیا۔1919ءمیں فاطمہ جناح نے محمد علی جناح سے مشورے کے بعد کلکتہ کے احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بھی ان کا قیام ہاسٹل میں رہا حالانکہ ان کی بڑی بہن وہاں مقیم تھیں۔ تین سال بعد سند لے کر واپس بمبئی آئیں ،ان میں زندگی میں کچھ اور کرنے کا جذبہ بھی تھا۔ گھر میں بیکار بیٹھنا آپ کو پسند نہ تھا۔ آپ نے بھائی سے کہا کہ انہیں ڈینٹل کلینک کھول دیں۔

قائد اعظم نے اپنی بہن کی یہ خواہش بھی پوری کرتے ہوئے انہیں1923ءمیں عبدالرحمن سٹریٹ بمبئی میں ایک ڈینٹل کلینک کھول دیا۔ اس طرح محترمہ فاطمہ جناح نے 1923ءمیں اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔ آپ اپنے ڈینٹل کلینک کو عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کافی عرصہ تک چلاتی رہیں۔ اپنے نجی کلینک کے علاوہ آپ روزانہ دھوبی تلاروڈ پر واقع میونسپل کلینک بمبئی میں بھی خدمات سر انجام دیتی تھیں۔

آپ غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح بڑے ذوق و شوق سے پریکٹس کر رہی تھیں۔ آپ کی زندگی کا یہ دور بڑا مصروف ار بھرپور تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی پریکٹس بڑی اچھی جا رہی تھی۔قائد اعظم کی پہلی شادی جنوری1892ءمیں لندن جانے سے قبل ہوئی تھی۔ آپ لندن ہی میں تھے کہ آپ کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ محمد علی جناح نے انگلستان سے واپس آ کر بمبئی میں وکالت شروع کر دی۔

آپ کا شمار بمبئی کے چوٹی کے وکیلوں میں ہونے لگا وکالت سے آپ نے دولت بھی کمائی اور شہرت بھی۔ آپ بڑی خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ اب آپ کو ایک شریک حیات کی ضرورت تھی۔ چنانچہ آپ نے 19اپریل1918ءکو بمبئی میں رتن بائی کو مسلمان کر کے اس سے شادی کر لی جن کا اسلامی نام مریم تھا۔15اگست1919ءکو رتی جناح کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام دینا جناح (صفیہ) رکھا گیا۔

قائد اعظم کی شادی تک محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کے گھر میں ان کے پاس رہی تھیں۔ جب قائد اعظم کی شادی ہو گئی تو محترمہ فاطمہ جناح اپنی بڑی بہن کے گھر شفٹ ہو گئیں جو بمبئی میں ہی رہتی تھیں۔قائد اعظم اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ بڑے خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ آپ بڑی خوشحال اور امیر انہ زندگی بسر کر رہے تھے آ پ کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی آپ نے اپنی وکالت سے بہت زیادہ کمائی تھی۔

1928ءمیں یکایک آپ کی زندگی بے سکون ہو گئی۔ جب آپ کی بیگم رتی جناح نے آپ کا گھر چھوڑ کر تاج محل ہوٹل میں دو کمرے کرائے پر لے کر الگ قائد اعظم ان حالات میں بڑے پریشان تھے ان کی زندگی کا سکون برباد ہو گیا تھا۔ رتی ہوٹل میں الگ رہتی تھیں اور بیمار بھی رہنے لگی تھیں روز بروز ان کی صحت گرتی جا رہی تھی۔ جس وقت رتی جناح اپنا علاج کروانے فرانس گئیں۔

تو قائد اعظم جوان دنوں میں تھے ان کی عیادت کے لئے فرانس پیرس گئے تھے۔ رتی بیگم پیرس سے واپس بمبئی آ گئیں لیکن پھر بھی وہ جناح سے الگ ہی رہتی تھیں۔ 20فروری 1929ءکو رتی جناح بمبئی میں انتقال کر گئیں۔ رتی جناح کی وفات سے قائد اعظم بڑے افسردہ اور غمگین تھے۔ دینا کی تعلیم و تربیت کا بھی مسئلہ تھا۔ قائد اعظم بڑی مصروف زندگی گزار رہے تھے۔

بچے کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے علاوہ گھر کا انتظام آپ اکیلے نہیں کر سکتے تھے۔ قائد اعظم کے تمام گھر والے آپ کے گھریلو حالات کی وجہ سے پریشان تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ قائد اعظم کی تمام بہنیں شادی شدہ اور اپنے گھر بار والی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی اپنی بڑی بہن کے گھر رہتی تھی۔ فاطمہ بمبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک بڑی کامیابی سے چلا رہی تھیں۔

صرف اکیلی محترمہ فاطمہ جناح ہی تھی جس کو بھائی کے لئے قربانی دینا تھی۔ چناچہ محترمہ فاطمہ جناح ہمیشہ کے لئے اپنا کلینک بند کر کے بھائی کے گھر آ گئیں۔فاطمہ جناح کی آمد نے بعد قائداعظم کو گھریلو ذمہ داریوں سے بے فکر اور آزاد کر دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے گھریلو انتظام کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو ملازمین کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔

محترمہ فاطمہ جناح نکمے اور ہڈ حرام اور بد نیت ملازمین کو برداشت نہیں کرتی تھیں۔ جب بازار سے ملازمین کے ہاتھوں سے سودا سلف منگواتیں تو ان سے پائی پائی کا حساب لیتی تھیں۔ جبکہ قائد اعظم جب ملازمین سے کوئی چیز منگواتے تو بقائے کا مطالبہ نہیں کرتے تھے۔ جبکہ محترمہ فاطمہ جناح اس معاملے میں بڑی سخت گیر تھیں۔محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم کے رہنے سہنے ، کھانے پینے ، لکھنے پڑھنے ، کپڑوں اور آرام کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔

آپ نے تمام کاموں کے اوقات مقرر کر رکھے تھے۔ آپ بھائی کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ غرضیکہ محترمہ فاطمہ جناح نے محمد علی جناح کو تمام گھریلو پریشانیوں اور تفکرات سے آزاد کر دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اتنی بڑی وسیع کوٹھی کا بہت اچھا انتظام کر رکھا تھا۔ آپ کوٹھی کی خوبصورتی اور زیبائش کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ کیونکہ قائد اعظم بڑے صفائی پسند اور تفیس انسان تھے۔

بہن نے بھائی کے ذوق کے عین مطابق گھر کو پر سکون اور مثالی بنا دیا تھا۔ کیونکہ قائد اعظم کے گھر بہت سے سیاسی رہنما اور انگریز حکومت کے آفیسر ز اور ذمہ دار لوگ قائد اعظم سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔ آپ قائد اعظم کے لباس کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ قائد اعظم خود بھی بڑے خوش پوش اور نفاست پسند تھے۔ آپ بھائی کی خوراک کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں اور باورچی خانے کی صفائی اور بہت زیادہ توجہ دیتی تھیں۔

اگر ملازمین باورچی خانے کی صفائی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے تو محترمہ فاطمہ جناح انہیں سختی سے ڈانٹ دیتی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے گھر کا ماحول مثالی بنا دیا جو قائد اعظم کے اعلیٰ ذوق کے عین مطابق تھا۔قائد اعظم کی بہن شیریں بائی اپنے ایک اخباری انٹرویو میں بیان کرتی ہیں کہ ” رتن بائی کے انتقال کے بعد ہمیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ ان کا گھر کس طرح چلے گا۔

مگر فاطمہ نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تو خاندان والوں کو اطمینان ہوا۔ یقیناً محترمہ فاطمہ جناح کی یہ قربانی جہاں انسانی ہمدردی کی ایک عظیم مثال ہے وہاں اس کی تاریخی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے یہ قربانی صرف بھائی جناح کے لئے نہیں دی تھی بلکہ قدرت ان سے اس قربانی کی شکل میں پوری مسلمان قوم کی ایک عظیم ضرورت پوری کروا رہی تھی۔ اگر قائد اعظم کی شریک حیات کے انتقال کے بعد فاطمہ نے یہ ذمہ داری اپنے شانوں پر نہ لی ہوتی تو قائد اعظم کے لئے مسلمان قوم کی اس طرح رہنمائی کرنا بڑا دشوار ہوتا جس کے نتیجے میں انہوں نے اس قوم کو منزل مقصود پر پہنچا دیا۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhoriyat Ko Mul Our Pakistani Awam Ke Liye Lazim-O-Mulzim Samajhti Thian is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.