جمہوریت بہترین انتقام ہے

27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے جب پاکستان اور دنیائے اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظر بھٹو راولپنڈی میں اس وقت شہید کردی گئیں جس وقت وہ اس ملک کی تیسری بار وزیراعظم بننے جا رہی تھیں۔

بدھ 27 دسمبر 2017

Jamhooriat Behtareen Intaqaam Hai
سید شعیب الدین:
27 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے جب پاکستان اور دنیائے اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظر بھٹو راولپنڈی میں اس وقت شہید کردی گئیں جس وقت وہ اس ملک کی تیسری بار وزیراعظم بننے جا رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کا خاندان پاکستانی سیاست کا وہ بدقسمت سیاسی گھر انہ ہے جس کے کسی فرد کو طبعی موت نصیب نہیں ہوئی۔

بے نظیر بھٹو کے والد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی ایک جیل میں 4 اپریل 1979ء کی صبح پھانسی چڑھایا گیا تھا،اسی شہر میں 2007ء دسمبر میں بے نظیر بھٹو کو دہشت گردوں نے ایک منظم کارروائی میں شہید کر دیا۔ بے نظیر بھٹو کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو 18 جولائی 1985ء کو پیرس (فرانس) میں اپنے گھر میں پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔

(جاری ہے)

دوسرے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اپنی بہن کی وزارت عظمیٰ کے دور میں 20 ستمبر 1996ء کو کراچی میں ایک پراسرار پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے۔ مخالفین نے میر مرتضیٰ کے قتل میں بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو ملوث کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ اور بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو ، شوہرہ‘ دو بیٹوں اور بیٹی کی موت کے صدمے اٹھانے کے بعد 2011ء میں انتقال کر گئیں۔

بے نظیر کی چھوٹی بہن اگرچہ محفوظ ہیں مگر سچ یہ ہے وہ سیاست سے دور رہ کرر آج لندن میں سکون سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اپنی ماں سے مشابہت رکھنے والی صنم بھٹو کو ان کے ”دوستوں“ نے سیاست میں حصہ لینے کے لئے بہت ”اکسایا“ مگر وہ شاید اپنے ”دوستوں“ کو پہچانتی تھیں اس لئے ان کے”دھوکے“ میں نہیں آئیں اور اسی لئے 28 ستمبر 1957ء میں دنیا میں آنے والی صنم بھٹو آج 60 سال کی عمر وطن سے دور زندہ ہیں۔

بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کو جہاں پاکستانی سیاست کا بدقسمت خاندان کہا جاتا ہے۔ وہاں اس خاندان کے عروج کا مقابلہ کوئی دوسراخاندان نہیں کرسکا۔ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان 18 ویں صدی میں راجستھان سے آ کر موجودہ سندھ میں آباد ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد اور بے نظیر بھٹو کے دادا شاہ نواز بھٹو برطانوی راج میں ریاست جونا گڑھ کے دیوان (وزیراعظم) تھے۔

ریاست جونا گڑھ پر بھارتی افواج کے قبضے کے بعد شاہ نواز بھٹو اپنی زمینوں (لاڑکانہ) کی طرف آئے اور پھر بھٹو خاندان کا پاکستانی سیاست میں آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر بنے اور پھر ان سے اختلافات پیدا ہونے پر انہوں نے اپنی اسی جماعت (پیپلز پارٹی) کی بنیاد 1967ء میں رکھی جو آج 50 برس گزر جانے کے بعد اور اپنی تمام تر کسمپرسی کے باوجود پاکستان کے چاروں صوبوں میں اپنا وجود رکھتی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد پہلے صدر اور پھر وزیراعظم پاکستان بنے۔ مگر بدقسمتی سے ان کے سیاسی مخالف انہیں بھی سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ بھٹو نے اپنی صاحبزادی کو اپنا ”جانشین“ بنا یا، بھٹو کو جمہوریت کا جتنا بڑا دعویدار کہیں انہوں نے بیٹی کو ”وراثت“ سونپ کر ”وراثتی جمہوریت“ کی اپنی پارٹی میں بنیاد رکھی جو آج بھی برقرار ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران جون 77ء میں بے نظیر پاکستان آئیں اور پھر جولائی 77 میں اپنے والد کی گرفتاری اور جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت بنتے دیکھی۔ بے نظیر بھٹو نے باپ کو پھانسی چڑھائے جانے کے بعد پہلے اپنی ماں کے ساتھ مل کر اپنے باپ کو پھانسی چڑھانے والے جنرل ضیا الحق کے خلاف جدوجہد کی اور پھر انہیں ملک سے نکلنا پڑا۔

مگر پھر ان کی واپسی کا منظر لاہور کے عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ وہ جب 10 اپریل کو وطن واپس پہنچیں تو لاہور کے عوام نے ان کا جو استقبال کیا۔ وہ آج بھی ہر سیاستدان کا خواب ہے۔ بے نظیر بھٹو اپنے باپ کے ”قاتل جنرل“ سے بدلہ نہ لے سکیں۔ مگر انہوں نے جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد پاکستان میں اپنی حکومت کی بنیاد رکھ کر سیاسی بدلہ لے لیا۔اور یہ دلیل ثابت کر دی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

بے نظیر بھٹو اور بھٹو "DYNASTY" کے مقابلے کے لئے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے ”آئی جے آئی“ اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا‘ جس کی کمان میاں نواز شریف کو دلوائی گئی۔ میاں نواز شریف کی ”مخالفانہ سیاست“ نے بینظیر کی دونوں حکومتیں نہیں چلنے دیں لیکن وہ خود بھی اپنے تینوں ادوارِ حکومت مکمل نہ کرسکے ،نواز شریف کی جانب سے سیف الرحمان کے ذریعے قائم ہونے والے مقدمات کے باعث شوہر آصف زرداری کے جیل تھے،اور بینظیر بچوں کے لئے ملک سے باہر چلی گئیں اور پھر 2007ء میں جب وطن لوٹیں تو پاکستان اور دنیائے اسلام کو ان سے محروم کرنے کے لئے سانحہ کارساز ہوا۔

قبل ازیں بے نظیر بھٹو کی پارٹی 1997ء کے عام انتخابات میں بری طرح ہار گئی اور لاہور ہائیکورٹ کے جج ملک قیوم سے انہیں سزا دلوانے کے لئے میاں نواز شریف کے قریب ترین ساتھی نے رابطہ کیا اور سزا کی سفارش کی۔ کے عام 2007 کے انتخابات میں”ضدی“ بے نظیر بھٹو نے دھمکیوں کے باوجود اپنی انتخابی مہم جاری رکھی اور پھر وہ اسی لیاقت باغ پارک پنڈی میں شہید کر دی گئیں جہاں ان سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے بعد ان کے شوہر آصف زرداری 5 سالہ دور صدارت مکمل کیا،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنائے گئے۔ آج بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری‘ بیٹیاں آصفہ اور بختاور اپنی ماں کی جگہ لینے کے لئے تیار ہیں۔ مگر کیا یہ تینوں بچے اپنی ماں کا ”جانشین“ بن سکیں گے۔ بھٹو DYNASTY جاری رہے گی مگر سچ یہ ہے کہ بھٹو خاندان کو سیاست میں جس طرح ”اموات کے سلسلے“ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس پرآج آصف زرداری بے حد محتاط ہیں مگر وہ یاد رکھیں ، سیاست عوام کے درمیان رہ کر ان کو ان کے نام لے کرپکار نے سے ہوتی ہے جیسے ذوالفقار علی بھٹو کرتے تھے اگر ایسا نہ ہوا تو اگلی DYNASTY بھٹو نہیں زرداری کی ہو گی۔ بیظیر کے تینوں بچوں کو اپنے باپ کے بجائے نانا اور ماں کی راہ پر چلنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhooriat Behtareen Intaqaam Hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.