جہیز معاشرتی ناسُور

لڑکیاں روپڑیں آئینہ دیکھ کر مال و زر کے حریص بڑی ستم ظریفی سے اسکا مطالبہ کرتے ہیں

پیر 12 فروری 2018

jahez muasharti nasoor
محمد فیصل افضل:
قومیں سب ہی زندہ ہوتی ہے لیکن دیکھا یہ جاتا ہے زندہ رہنے والی قومیں کون سی ہیں؟قوموں کو بقا ءاور زندگی کے لیے اپنی اجتماعی اصلاح کرنی پڑتی ہے حکومت ہو یا عوام فرد ہو یا قوم بھیک یا محتاجی زندہ قوموں کو زیب نہیں دیتی،ہمارے ملک میں مسلمان تو بہت ہیں لیکن اسلام بہت کم نظر آتا ہے اکثر لوگ شارٹ کٹ مار کر راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کبھی ڈبل شاہ کے ہاتھوں لٹتے ہیں تو کچھ کسی بھی حد کو پار کرنے پر تل جاتے ہیں اور اپنی عزت تک بھی داﺅ پرلگادیتے ہیں ہماری معاشرتی خرابیوں میں بیٹی والو ں سے جہیز کامطالبہ کرنے جیسی روایت بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جس میں مال و زر کے حریص بڑی ستم ظریفی سے جہیز کی بھیک مانگتے ہیں اور رشتہ منہ مانگے جہیز کی شرط پر طے کرتے ہیں بعض اوقات سب کچھ طے ہوجانے کے بعد جب شادی کے کارڈ چھپ جاتے ہیں تو اپنے مطالبات سامنے رکھ دیے جاتے ہیں ایسے لوگوں کے معیادر دوہرے ہوتے ہیں اگر ان کی اپنی بیٹی کی شادی ہو تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ان سے کم سے کم جہیز کا مطالبہ کیا جائے اور وہ جہیزکو کھلے عام لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں مگر بات جب آپنے بیٹے کی ہو تو دوسروں کی بیٹی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتے اور جہیز کے حوالے سے پینالٹی سٹروک لگانے کے چکر میں رہتے ہیں اور بڑئے خوبصورت منجھے ہوئے انداز میں اپنے مطالبات کمال ڈھٹائی سے گنوادیتے ہیں۔

(جاری ہے)

آج کسی بھی پاکستانی کی فیس بک پوسٹس اور سٹیٹس دیکھ لیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ اخلاقی لحاظ سے دنیا کی کسی بہترین شخصیت کو ملاحظہ فرمار ہے ہیں لیکن عملی طور پر اکثریت کا کردار اس کے برعکس ہوتا ہے شخصیت کی یہ خوبصورتی کسی دکھلاوے اور دھوکے سے کم نہیں ہوتی یہ سب جانتے ہیں کہ غیر اسلامی اور غیر انسانی رسم و رواج کی وجہ سے غریب غرباءکی نیک پاک پارسا بیٹیاں بے بسی اور بے چارگی کی چادر اوڑھے حجاب و حیاءکی چار دیواری میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہے والدین اپنی غربت افلاس اور غیر اسلامی رسم و رواج کی وجہ سے ان کی شادی خانہ آبادی کا اہتمام نہیں کرسکتے اور اگر کوئی بغیر جہیز کے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر بھی دے تو خانہ آبادی نہیں بلکہ خانہ بربادی بن جاتی ہے اپنے بیگانے اور بیگانے دیوانے ہوجاتے ہیں بہو کے گھر آتے ہی سسرال والے طرح طرح کے طعنے دینے لگتے ہیں زمانہ جاہلیت والا ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیںجو والدین اپنی نازوں میں پلی لاڈلی بیٹی جوان کی غم گسارتھی کو غیر کے سپرد کردیا جس کے بغیر وہ پل بھر بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کردیا جو کچھ بن پڑا بطور جہیز دیدیا اپنی مفلسی اور غربت کے باعث نمودو نمائش اور فرسود رسومات سے پرہیز کیا مگر سسرال تو درکنار اپنے پرائے سب باتیں بناتے ہیں غریب کی غربت اور مفلسی کا مزاق اڑاتے اور طعنے دے دے کر والدین کا جگر چھلنی کرکے خوب ستاتے ہیں ان ضمیز فروش اور بے غیرت لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نادار و مفلس والدین تو بڑی مشکل سے گزرا اوقات کرتے ہیں حرام کھاتے نہیں اور حلال میسر نہیں آتا ادھر انہیں جوان بیٹی کی ڈھلتی ہوئی جوانی پر ترس آتا تھا ایسے حالات میں مرتے کیا نہ کرتے خیر یہ پیشہ وروں کی بات ہے جو ہر اچھی بات کو برا سمجھتے ہیں ان کی سنی ان سنی کردینا تو ممکن ہے مگر بیٹی کے سسرال والے پہلے بیٹی بیٹی کہتے نہیں تھکتے تھے اور اب بہو بیٹی اور معمولی جہیز دیکھ کر نہ بہو نہ بیٹی دیکھتے دیکھتے ہی لوگ بدل جاتے ہیں اور ایک ہی چہرے پر کئی چہرے سجالیتے ہیں ہمارے بڑے بڑے مذہبی رہنما اور افسران بالا غریب پرور غریبوں کے غمگسار گمراہ ہوگئے ہیں ماحولیاتی فضائی و خلائی آلودگی اور جہالت تو انہیں پریشان کرتی ہے مگر دکھی دلوں کی آہ سنائی نہیں دیتے اس سے بڑی جہالت اور غفلت اور کیا ہوگی کہ ہماری معصوم اور بے زبان بیٹیاں اپنے ارمانوں سمیت بوڑھی ہورہی ہیں مگر کرتا دھرتا لوگ اس معاملے میں اندھے بہرے گونگے اور پتھردل بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

ہم عرب اور یورپ ممالک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے حالانکہ وہاں تو جہیز کا کوئی تصور ہی نہیں مگر ہم نے Jahez is a trade کو اپنا سلوگن بنالیا ہے جہیز کی بھیک مانگ کر غریب کی جمع پونجی اجاڑ کر ہمیں شرم تو نہیں آتی کہ ماں باپ نے اپنی جوانی کی توانائیاں اپنی بیٹی پر صرف کرکے اسے پال پوس کر جوان کیا تعلیم و تربیت دی اور اس کے بدلے خود بڑھاپا کمایا والدی کی اس عظیم پرورش کا صلہ دینے کی بجائے مال و زر کی بھیک مانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے اگر بیٹی کے والدین صاحب استطاعت ہیں تو پھر بھی ان کی مرضی منشاءپر چھوڑ دینا چاہیے کشکول لے کر سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس ذلیل روایت کو ختم کرنے میں اپنے حصے کا دیا جلانا چاہیے ہمارے سرور کائنات فخر موجوداتﷺ کی عملی مثال موجود ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کتنی سادگی سے سرانجام دی اور پھر جہیزمیں کیا دیا ساری دنیا جانتی ہیں آپﷺ نے جہیز جمع کرنے کی بجائے وقت پر اپنی بیٹی کی شادی کردی عرب کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی دلہے کو چاہیے کہ محنت کرکے شریک حیات اور اپنی ضروریات زندگی کا انتظام خود کرے اور سسرال والے اپنی حیثیت کے مطابق اگر کچھ دے سکیں تو ٹھیک وگرنہ جہیز کو بھیک جان کر اس کا بائیکاٹ کریں بیٹی والوں کی بھی جہیز کی بجائے اسلام کے مطابق جائیداد میں اس کہا پورا حق اسے دینا چاہیے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

jahez muasharti nasoor is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 February 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.