اسلامی اتحاد فوج اور تحفظات

برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاست اور نیل کے ساحل سے کاشغر تک امت مسلمہ کا جو خواب حکیم الامت علامہ اقبال نے دیکھا تھا ایک خواب پاکستان کی صورت پورا ہوا دوسرا خواب ابھی تشنہ تعبیر ہے اگرچہ زبانی کلامی اسکی حمایت بہت زور و شور سے کی جاتی ہے مگر عملی صورت کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ اسلامی کانفرنس تنظیم سے امت مسلمہ کے خواب کی تعبیر کے امکانات روشن ہوئے

جمعہ 31 مارچ 2017

Islami Ittehad Fouj Or Tahafuzaat
اسرا ر بخاری:
برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاست اور نیل کے ساحل سے کاشغر تک امت مسلمہ کا جو خواب حکیم الامت علامہ اقبال نے دیکھا تھا ایک خواب پاکستان کی صورت پورا ہوا دوسرا خواب ابھی تشنہ تعبیر ہے اگرچہ زبانی کلامی اسکی حمایت بہت زور و شور سے کی جاتی ہے مگر عملی صورت کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ اسلامی کانفرنس تنظیم سے امت مسلمہ کے خواب کی تعبیر کے امکانات روشن ہوئے لیکن وہ نشتند‘ گفتند اور برخاستند کا معاملہ بن کر رہ گئی ہے اب اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام کے خدوخال تراشے جا رہے ہیں ساری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں اسے متنازعہ بنایا جا رہا ہے اس میں شامل ہونیوالے 41 اسلامی ملکوں میں سے کسی ایک سیاسی جماعت‘ دانشوروں‘ تجزیہ نگاروں یا فرد کی جانب سے اس کیخلاف منہ شگافیوں کا سلسلہ سامنے نہیں آیا جبکہ پاکستان کو اسکی سربراہی کا اعزاز جنرل راحیل شریف کی صورت حاصل ہو رہا ہے قبل ازیں جب یہ آئیڈیا ہی منظر عام پر آیا تو سب سے پہلے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں گویا صف ماتم بچھ گئی۔

(جاری ہے)

اسے امریکہ یورپ کے کسی لیڈر یا دانشور نے نہیں بعض پاکستانیوں نے اسلامی نیٹو فورس قرار دیکر اس کی شدید مخالفت کی پھر اس مخالفت کے خدوخال واضح ہوئے اسے یمن اور ایران کیخلاف سعودی عرب کی عسکری قوت قرار دیا گیا حالانکہ پاکستان کی حکومت نے خود سعودی عرب کی درخواست پر پاکستانی فوج کا دستہ وہاں بھیجنے سے معذرت کرلی تھی۔ جس سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات پر قدرے سردمہری کی گرد پڑی مگر روز اول سے دوستانہ تعلقات جن کی مستحکم بنیاد مذہب اور ثقافت ہے جلد ہی بحال ہوگئے اور پاکستان کی قومی پریڈ میں سعودی عرب کی فوج کی عملی شمولیت نے ان باہمی اخوت پر مبنی تعلقات کی توثیق کر دی۔

اب حکومت پاکستان کی جانب سے جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی اتحاد فوج کی سربراہی سنبھالنے کیلئے این او سی جاری کرنے پر بھی ان ہی حلقوں کی جانب سے مخالفانہ ردعمل سامنے آیا ہے جنہوں نے پہلے مخالفت کی تھی۔ تحریک انصاف نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو این او سی دینے کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی ترجمان فواد چودھری کے مطابق راحیل شریف کو این او سی دینے کا معاملہ انفرادی شخصی نہیں بلکہ پالیسی فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ این او سی کے معاملے پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔ پارلیمنٹ میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ مڈل ایسٹ کے کسی تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنے گا۔ اسلئے پالیسی فیصلے پر پارلیمنٹ سے اجازت لینا ضروری ہے۔
ادھر اسلامی اتحاد فوج کے حوالے سے ایران کے تحفظات کو درمیان میں لایا جا رہا ہے کہ وہ اسے اپنے خلاف عسکری اتحاد سمجھتا ہے۔

اگرچہ یہ محض مبالغہ آرائی ہے اور بالفرض اگر ایسا ہے تو ایران کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ 41 اسلامی ممالک اس کیخلاف کیوں ہو گئے ہیں۔ ویسے ان تحفظات کے غبارے سے اس لئے ہوا نکل جانی چاہئے کہ ایرانی سفیر ہنر دوست کو باقاعدہ جی ایچ کیو بلا کر آرمی چیف کی سطح پر تحفظات دور کئے گئے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد جناب ہنر دوست نے آرمی چیف جاوید قمر باجوہ کا شکریہ ادا کیا اور اظہار اطمینان کے حوالے سے باقاعدہ بیان جاری کیا۔

اسکے بعد ایران کے نام پر سپایا گری کا کیا جواز ہے۔ یہ بات کوئی عقل و خرد سے بیگانہ ہی سوچ سکتا ہے کہ سعودی عرب چالیس اسلامی ملکوں کو ایران کیخلاف جنگ میں جھونک سکتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں تحفظات کا ایران کو پورا حق حاصل ہے‘ لیکن کیا یہ حق صرف ایران کو ہے پاکستان اس سے محروم کیوں ہے۔ کیا ایران اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ پوری دنیا میں بھارت ہی پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔

اسکے باوجود 2002ء میں ایران نے بھارت سے دفاعی معاہدہ کیا۔ پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن بھارت کی سرمایہ کاری سے اپنی بندرگاہ چاہ بہار کو گوادر کے مقابلے میں ترقی دینے کی کوشش کی۔ کہا جا سکتا ہے ہر ملک اپنے مفاد میں فیصلے کرتا ہے تو پاکستان اپنے مفاد میں فیصلے کیوں نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ایک خاص پس منظر میں یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لا کر سبوتاڑ کرنا چاہتی ہیں۔

بالفرض اگر پاکستان اس میں شامل نہ ہو یا جنرل راحیل شریف کی سربراہی پر آمادگی ظاہر نہ کرے تو کیا دیگر 41 ممالک بھی اس سے علیحدہ ہو جائینگے۔ ایسا نہیں ہوگا مگر یہ ضرور ہوگا کہ پاکستان یہ قدم اٹھانے کے بعد سعودی عرب اور دیگر 41 ممالک سے دور ہو جائیگا جو ہر آزمائش کے وقت کام آتے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس فوج کے ایران کیخلاف استعمال ہونے کے جس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے وہ بغض کے سوا کچھ نہیں کیونکہ نہ تو یہ فوج سعودی عرب کے کمان میں ہے نہ ہی سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں پہلے جیسا کھچاوٴ رہا ہے۔

اس سال تو ایرانی حج کیلئے بھی جارہے ہیں دوسرے کیا اسلامی ممالک بھی ایران کیخلاف ہیں تیسرے اس میں ایران کی شمولیت کا دروازہ بھی بند نہیں ہے دراصل یہ وہ منفی پروپیگنڈہ ہے جو امت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی کا ذریعہ بننے والے ہر عمل کیخلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔مگر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس فورس کی مخالفت کرکے ایران 41 اسلامی ممالک سے دوری کا متحمل ہو سکے گا۔

سیاپا گری کرنیوالوں کو یہ نقطہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ دوسرے یہ اگر ایران خود بھی اس میں شامل ہو تو یہ ایران کیخلاف کیسے استعمال ہو سکے گی۔ جہاں تک اسلامی اتحاد فوج کا تعلق ہے اس کا بنیادی مقصد دہشتگردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی بنانا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ داعش، القاعدہ جیسی تنظیموں اور ٹی ٹی پی‘ لشکر جھنگوی وغیرہ نے اسلامی دنیا اور پاکستان میں دہشتگردی کی جو فضاء پیدا کر رکھی ہے وہ سب کیلئے پریشان کن ہے اور اس سے اجتماعی قوت سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

جائزہ لیا جائے تو یہ فوج مسلم ممالک کا طاقتور بلاک بنانے کی مضبوط بنیاد بھی بنے گی۔ اسے حقیقی فورس کی شکل دینے کیلئے مئی یا جون میں 39 ممالک کے فوجی وفود سعودی عرب پہنچیں گے اس کا مرکزی سیکرٹریٹ ریاض میں ہوگا۔ اس مشترکہ فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کے باعث دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کا ذریعہ بنے گی سعودی عرب میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے ایک خصوصی ڈیسک بنایا جائیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Islami Ittehad Fouj Or Tahafuzaat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 March 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.