اخلاقی قدروں کو پامال کرنے والا آئینی اقدام!

صادق وامین لوگوں پر جھوٹے اور بددیانت شخص کی سربراہی کی راہ ہموار سینٹ میں انتخابات 2017ء کا بل ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور

جمعرات 5 اکتوبر 2017

Ikhlaqi Qdroo Ko pamaaal Krny wala Aaini Iqdam
اسرار بخاری:
مرشد اقبال کی نظر میں تویہ وہ دیواستبداد ہے جس نے عام لوگوں کو آزادی کے مبالغے میں مبتلا رکھنے کے لئے جمہوری قبازیب تن کر رکھی ہے جس سے جمہور کو اس پر آزادی کی نیلم پری کا گمان ہورہا ہے اور اس کے بطن سے جو طرز حکومت جنم لیتا ہے اس میں بندوں کو تولا نہیں جاتا یعنی ان کی رائے کے معاشرہ پر اخلاقی اثرات کا جائزہ نہیں لیا جاتا بلکہ گنا جاتا ہے یعنی کثرت رائے فیصلہ کن ہے خواہ وہ 51 اور 49 کے تناسب سے ہی ایک رائے کی اکثریت پارلیمنٹ کا معاملہ ہوتو کسی بھی قانون کی منظوری اور نفاذ کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔

انتخابی اصلاحات کو جو بل منظور کیا ہے قومی اسمبلی کی توفیق اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد وہ نافذ العمل ہوجائے گا اس کا ایک پہلو جو اخلاقی قدروں پر یقین رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہورہا وہ یہ ہے کہ کسی بھی نااہل یعنی پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے سے محروم کردیا گیا شخص یا کسی بھی کیس میں سزا یافتہ شخص اگر کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے تو وہ بدستور اس کا سربراہ رہے گا دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ ایک شخص پارلیمنٹ کا ممبر تو نہیں بن سکتا لیکن اس کی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اس فیصلوں کے پابند ہوں گے یہ قانون سینٹ میں 38 اور37ووٹوں کے مقابلے میں 38 ووٹوں سے منظور ہوا۔

(جاری ہے)

جس میں پیپلز پارٹی یونین اور ایم کیو ایم کے ایک رکن میاں عتیق نے بل کی حمایت کی کچھ پارٹیوں نے شرکت اجلاس اور کچھ نے بائیکاٹ کرکے اس بل کی بالواسطہ اور بلاواسطہ حمایت کی۔ تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ اس قانون سے فوری طور پر میاں نواز شریف کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی کٹر مخالف پارٹیوں تحریک انصاف اور (ق)لیگ کے سینٹروں نے اس کے بل میں ووٹ دیا اگرچہ تحریک انصاف کے ایک سینٹر اور (ق) لیگ کے بھی ایک ہی سنیٹر مشاہد حسین ان میں شامل ہیں توہین عدالت کے کیس کے بعد نہال ہاشمی کو (ن)لیگ سے نکالا جا چکا ہے۔

مگر انہوں نے نہ صرف اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا بلکہ دوسرے سنیٹرز کو بھی ترغیب دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو ایوان میں موجود ہونے کے باوجود رائے شماری کے وقت اپنی نشست پر موجود نہیں رہیں جس سے انہیں رائے شماری میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ شیری رحمان کے اس ٹویٹ کے باوجود کہ پارٹی کے سنیٹر ایوان میں موجود رہ کر اس بل کی مخالفت کریں۔

رحمان ملک،عثمان سیف اللہ اور دیگر نے بائیکاٹ کردیا اور اعتزاز احسن نے اس ترمیم کی ترمیم کے لئے جو ترمیمی بل پیش کیا پیپلز پارٹی کے موجود ارکان کی حمایت حاصل نہ کرسکے خبر ہے عمران خان نے اپنے رکن نعمان فیروز پر برہمی کا اظہار کیا اور سینٹ میں پارلیمانی لیڈر اعظم سواتی کو انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے کے لئے کہا ہے جو پارلیمنٹ کی عمارت میں گھومتے رہے مگر اس بل کے خلاف ووٹ دینے میں نہیں آئے جبکہ ایم کیو ایم فاروق ستار سے بات ہوگئی ہے جس پر میں نے بل کے حق میں ووٹ دے دیا ۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے انہیں جواب دہی کے لئے طلب کرلیا ہے جبکہ اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے پیپلز پارٹی کے تینوں سنیٹر ز سے کوئی باز پرس کئے بغیر بلکہ پارٹی کے اہم رہنماؤں کو بتائی بغیر آصف زرداری ملک سے ہی باہر چلے گئے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اپنے ان ”مجرموں“ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں جس سے سوچنے سمجھنے کی اہلیت رکھنے والوں کے لئے بہت کچھ بے نقاب ہوجائے گا۔

چوتھی قابل غور بات یہ ہے کہ بادی النظر میں یہ قانون حکمران جماعت کے حق میں ہے لیکن اس سے فائدہ تو سب جماعتوں کو پہنچے گا۔ یعنی ڈاکٹر فاروق کو کوئی مقدمات میں سزا ہوا جائے اور اس بنیاد پر نااہل ہوجائیں عمرا ن خان اگر زیر سماعت نااہلی کیس میں نااہل ہوجاتے ہیں ” نیب“ سے آصف زرداری کے خلاف جو مقدمات ری اوپن کرنے کی بات کی اس میں نااہلی مقدر بنتی ہے تب بھی وہ تینوں اس قانون کے تحت اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ رہیں گے اور یہ بالکل آئین کے عین مطابق اور جمہوری روایت کے پاسداری میں ہوگا وطن عزیز کی روایتی سیاست ایسے ہی چمتکاروں بھری پڑی ہے یہ اس روایتی سیاست کا شاخسانہ ہی ہے کہ ملک میں کرپشن اور جرائم سے پاک نظام قائم کرنے کی دعویدار تحریک انصاف نے اپنے سیاسی مقصد کے لئے ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

دراصل یہ سب ”ہیں‘ کو ایک کچھ نظر آتا ہے کچھ “ بغور جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے اس مرتبہ فوج نے نہیں بلکہ جمہوریت نے شب خون مارا ہے اور اس طرح ووٹ کے تقدس کے تحفظ کیلئے ایک نئی روایت متعارف ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق متذکرہ بل کی منظوری کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت (ن)لیگ سے رابطے میں ہے۔

پی پی کے تین سینٹروں نے ترمیم پر حکومت کو ووٹ دیئے جبکہ ایم کیو ایم کے ایک سینئر میاں عتیق نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا جس پر ایم کیو ایم پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں کہ اس نے بل کے حق میں ووٹ دیکر ایک ایسے شخص کو پارٹی قیادت کرنے کا راستہ ہموار کیاجسے سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے جبکہ ایم کیو ایم کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے نیٹ پر منظور ہونے والے بل پر تنقید کی ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پولیٹیکل پارٹنر آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کریں گے۔ اس تبدیلی کا مقصد نواز شریف کو پارٹی سربراہ رکھنا ہے وہ آدمی جوصادق اور امین نہ رہے وہ کس طرح صادق اور ایماندار لوگوں کا سربراہ رہ سکتا ہے جبکہ یہ ترمیم عدالتی فیصلے کے بھی خلاف ہے اگر یہ ترمیم پارلیمنٹ کے پاس ہو بھی جائے تو بھی نواز شریف کا اس کا فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اگر آئندہ کوئی عدالت سے نااہل ہوتا ہے تو اس پر یہ قانون لاگو ہوگا اس قسم کی ترمیم قانون سے فراڈ کہلاتا ہے۔

اس کے خلاف مشاورت کے بعد سپریم کورٹ میں پٹیشن درج کرائیں گے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ حکمران پارٹی نے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کے لئے انتخابی قوانین پر شب خون مارا ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے وقار کو دھچکالگا ہے وزیراعظم سمیت پوری کابینہ اعلیٰ ترین عدالتوں کی طرف سے نااہل قرار دیئے گئے شخص کے طلب کرنے پر لندن بیٹھی ہوتی ہے جس سے قوم کا سرشرم سے جھک گیا۔

الیکشن کمیشن حکومتی پارٹی کی طرف سے نا اہل قرار دیئے گئے شخص کا پارٹی صدر بنانے کا قومی نوٹس لے اگریہ روایت چل پڑی تو کوئی بھی طاقتور شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن کر آئینی اداروں کا مذاق اڑانا شروع کردے گا اور جرائم پیشہ لوگ سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوجائیں گے۔ ملک میں ایسے بڑے بڑے چور ہیں جن کے معدے جہازوں ، ریلوے انجنوں، جنگلات اور معدنیات کو ہضم کرلیتے ہیں جہاں تک جناب سراج الحق کے اس بل پر شدید مخالفانہ ردعمل کا تعلق ہے معاملات کو اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھنے والے ضرور اس کی تائید کریں گے لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ اگر سراج الحق اور تحریک انصاف کے نعمان فیروز ایوان میں موجود ہوتے تو یہ بل منظور نہیں ہوسکتا تھا ان کی عدم موجودگی نے اس بل کی منظوری کی راہ ہموار کی ہے۔

ورنہ یہ 37 کا مقابلے میں 38 ووٹوں سے کامیابی کی بجائے 38 ووٹوں کے مقابلے میں 39 ووٹوں سے مسترد ہوجاتا دیکھا جائے تو سراج الحق بھی غیراراوی طور پر سہی اس بل کی منظوری میں بالواسطہ طور پر حصہ دار بن گئے ہیں ۔ ملک کے مروجہ نظام میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے جن انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ عمران خان نے اس کا ذکر بہت کیا مگر اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا کرپشن کے خاتمہ کی مہم اپنی جگہ اگر عمران خان ایک ایسے نظام کے لئے تحریک چلاتے،دھرنے دیتے، جس میں کرپٹ افراد پارلیمنٹ میں قدم ہی نہ رکھ سکیں تو انہیں کرپشن مخالف مہم میں سارا وقت صرف نہ کرنا پڑتا اور عوام کی نظروں میں ان کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا مگر کیا کیا جائے کہ پارلیمنٹ سے دلچسپی کا یہ عالم کہ عمران خان سوا چار سال کی مدت میں صرف چھ بار اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے حتی کہ انتخابات بل 2017ء کا تعلق ہے یہ لاکھ تحفظات اور اعتراضات کے باوجود پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق منظور ہوا ہے اس لئے یہ معاملہ عدالتوں میں لے جانے کی بجائے پارلیمنٹ میں ہی نمٹایا جائے اس سے تمام سیاستدانوں کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعروں کو بھی اعتبار ملے گا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ikhlaqi Qdroo Ko pamaaal Krny wala Aaini Iqdam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.