اداروں پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کا الزام سوالیہ نشان!

ڈاکٹر فاروق ستار کو ڈاکٹر عاصم نے زرداری کا کیا پیغام پہنچایا؟․․․․․․․․․․․․کراچی میں غیر جمہوری اقدام قبول نہیں کریں گے: بلاول بھٹو کا اعلان

منگل 5 دسمبر 2017

Idaroo pr Siyasi wafdariya Tabdeel krany Ka Ilzaam Swaliya Nishan
سالک مجید:
حیران کن بات یہ ہے کہ اسی دوران سندھ رینجرز کے ڈائر یکٹر جنرل میجر جنرل محمد سعید میڈیا میں بول پڑے اور انہوں نے کراچی میں پولیٹیکل انجینئرنگ یا انجینئرڈ سیاست کا الزام مسترد کردیا اور اس تاثر کو بھی غلط اور بے بنیاد قرار دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان رینجرز کے ہاتھوں ایک کٹھ پتلی ہے یا رینجرز کسی سیاسی جماعت کو گائیڈ لائنز دیتی ہے ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈرز پر کئی مقدمات ہیں اور رینجرز ان مقدمات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔

کراچی کی سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے انٹیلی جنس اداروں کے رابطے ہیں اور یہ رابطے ستمبر 2013ء میں شروع کئے جانے والے کراچی آپریشن کے بعد سے ایک معمول کی بات ہے پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان گزشتہ 8 مہینوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے اب یہ ان دونوں پارٹیوں پر منحصر ہے کہ مل کر سیاست کرتے ہیں یا الگ الگ لیکن شہر میں کوئی تشدد اور تصادم نہیں ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

کراچی آپریشن کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی مدد اور قربانیوں سے امن قائم کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہم کسی قیمت پر نہیں چاہتے کہ حالات دوبارہ ستمبر 2013ء سے پہلے جیسی ہوجائے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ڈی جی رینجرز محمد سعید کو اس ماحول میں یہ وضاحت پیش کرنے کی ضرورت تھی یا نہیں۔ اس حوالے سے متضاد آراء سامنے آرہی ہیں اور ڈی جی رینجرز کے موقف کے حق او ر مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈی جی رینجرز کو اس حوالے سے میڈیا میں آکر بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن ان کے موقف کی حمایت کرنے والوں کا اصرار ہے کہ ڈی جی رینجرز نے ٹھیک کیااور غلط تاثر کوزائل کردیا، اس سے قبل پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے فاروق ستار پر الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے مذاکرات اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کئے گئے اور فاروق ستار نے ایسا کرایا۔

درجنوں ملاقاتیں آٹھ مہینیں میں ہوئیں جن میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار تھا ان ملاقاتوں میں میئر کراچی وسیم اختر،کامران ٹیسوری، خواجہ اظہارالحسن، کنور نوید، عمار خان، فیصل سبزواری اور بعض دیگر رہنا بھی موجود ہوتے تھے۔ فاروق ستار نے آدھا جھوٹ بولاتھا میں پور سچ بتارہا ہوں۔ ہم نے فاروق ستار کو ملاقات کے لئے بلایا تھا بلکہ فاروق ستار پہلے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میٹنگ میں موجود تھے ہم لوگ بعد میں وہاں پہنچے تھے گویا ہمیں تو بلایاگیا تھا اور میٹنگ”سیف ہاؤس میں ہوئی تھی اس کے علاوہ بھی فاروق ستار ذرا ذرا سے بات پر شکایت کرتے رہے۔

اور اسٹیبلشمنٹ سے فون آتے رہے ہیں کہ وہ یہ شکایت کر رہے ہیں آپ نے ایسے کہہ دیا۔ ویسے کہہ دیا وغیرہ وغیرہ ۔ مصطفی کمال نے یہاں تک کہہ دیا کہ الطاف حسین کی 22اگست کی تقریر کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کا قیام اس وقت کے ڈی جی رینجرز بلال اکبر کے آفس میں عمل میں لایا گیا تھا اور فاروق ستار نامی وہ شخص جو مختلف درج ایف آئی آرز میں ملزم نامزد ہوچکا تھا اسے ایک رات میں نئی پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔

یوں رینجرز کے افسر ٹھاکر جس ملزم فاروق ستار کوپریس کلب کے باہر سے گرفتار کرکے ساتھ لے گئے تھے وہ رینجرز ہیڈکواٹرز سے ڈرائی کلین ہوکر نکل آیا۔سندھ میں حکمران جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال میں جو بیان دیا وہ بھی معنی خیز ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے۔وہ پریشان کن ہے اور ہم غیر جمہوری اقدام قبول نہیں کریں گے۔

کراچی میں انجینئر ز سیاست یا اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست مداخلت کا الزام کسی طور پر بھی نہیں ہے۔ 1992ء کے آپریشن میں بھی جب الطاف حسین سے بغاوت کرنے والے آفاق احمد اور عامر خان وغیرہ نے شہر میں اینٹری لی تھی تو ان پر فوجی ٹرکوں کے ذریعے شہرمیں داخل ہو کر مختلف علاقوں اور دفاتر پر قبضے کرنے کا الزام لگایا گیا تھا ہر چند کہ آفاق احمد اور عامر خان کی سربراہی میں بننے والی ایم کیو ایم حقیقی ہمیشہ اس الزام کو مسترد کرتی رہی، یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ملک میں جب جب مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تب تب کراچی میں دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن پوری شدت سے کرنے کی اجازت ضرور دی گئی اور وہ آپریشن ہر مرتبہ شروع کسی اور ہدف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیو ایم اور اس کے لوگوں کو بنایا۔

1992ء کے آپریشن کے دوران”جناح پور“ کے نقشے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ الزام لگا کر الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کراچی کو علیحدہ کرکے”جناح پور“ بنانے کی سازش کررہی تھی۔ 1998ء میں حکیم محمد سعید کے قتل کا الزام بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایم کیو ایم پر لگایا اور اس کے نتیجے میں وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں سندھ میں لیاقت علی جتوی کی صوبائی حکومت ختم کرادی گئی جس کا ایم کیو ایم اہم حصہ تھی۔

کراچی اور سندھ بھر کے شہری علاقوں کے عوام نے 1988ء-2013 2008-2002-1997-1993-1990, کے الیکشن میں بار بار اس ایم کیوایم کو ووٹ دیئے جس پر کبھی پاکستان کو توڑنے اور جناح پور بنانے کی سازش کا الزام لگا اور کبھی بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ سے فنڈنگ لینے اور اس کے ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ بات بھی تاریخی حیثیت ہے کہ اسٹیبلمشمنٹ کو جب جب ضرورت پڑی اسی ایم کیو ایم کو سینے سے لگایا۔

جنرل مشرف کے دور میں یہی ایم کیوایم تھی جسے وفاقی اور صوبائی حکومت میں شامل کیا گیا۔ سندھ کا گورنر دیا گیا۔بندر گاہوں کا وفاقی وزیر دیا گیا۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جاتاہے کہ ایک بار عوام کو یہ تو بتادیا جائے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ کی حمایت اور فنڈنگ کس سال سے شروع ہوئی تھی اگر 1992 ء کے آپریشن میں جب جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے تھے تب سے ”را“فنڈنگ اور اسلحہ اور فوجی تربیت ایم کیو ایم کے لوگوں کے دے رہی تھی تو پھر 1994ء 2002-1997 ء کی حکومتوں میں ایم کیو ایم کو شامل کیو ں ہونے دیا گیا تھا اور خو د فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اس ایم کیو یم پر اتنے مہربان کیوں تھے؟ اگر را کی فنڈنگ ، اسلحہ فراہمی اور فوجی تربیت ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لوگوں کو 2013ء کے بعد شروع ہوئی ہے تو پہلے یہ بتادیا جائے کہ کیا”جناح پور“ کے نقشے اور کراچی کو الگ کرنے کی سازش کے وہ الزامات جو 1992ء سے 2013ء تک لگائے جاتے رہے تھے کیا وہ سب کے سب غلط اور بے بنیاد تھے اور اگر غلط اور بے بنیاد تھے تو پھر جھوٹے الزامات لگانے والوں کو کوئی سزادی گئی یا ترقیاں دیدی گئیں۔

اگر ایم کیو ایم کے لوگ سانحہ12 مئی اور سانحہ14 اپریل میں ملوث تھے تو ان کو سزائیں کیوں نہیں دی گئی۔ اگر ایم کیوایم کے لوگ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں غریب شہریوں کو زندہ جلانے کے وحشیانہ عمل کا حصہ تھے تو ان کو عبرتناک سزائیں دینے کی بجائے پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فارم پر ڈرائی کلین کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے کیا ایسا کرنے والے ملک وقوم کی کوئی خدمت کررہے ہیں یا فوجی مجرموں کا تحفظ کررہے ہیں، یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس ماحول میں کیا کراچی کی سیاست کا آزاد اور خود مختار سیاست کہا جاسکتا ہے کیا یہ رہنما واقعی عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے کے لئے آزادہیں کیا ان کی اپنی سوچ ختم ہوگئی ہے اور سب کچھ ڈکٹیشن پر چل رہا ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ لوگ مجبور ہیں ان کو جہاں بھیجا جائے گا وہاں چلے جائیں گے، دوسری طرف خورشید شاہ کے اس بیان کے بعد یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایم کیوایم کے ارکان پارلیمنٹ ان دنوں آصف زرداری سے کیوں ملاقاتیں کررہے ہیں کیا یہ مجبور لوگ آصف زرداری کے پاس بھی کوئی بھیج رہا ہے اگر ایسا ہے تو کیا خود پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے۔

آصف زرداری نے شریف خاندان کی جیل میں ڈالنے کے حوالے سے جو بیان دیا تھا، اس پر مریم نواز شریف پہلے پہ کہہ چکی ہیں کہ”یہ آصف زرداری کا اپنا بیان نہیں لگتا“گویا آصف زرداری بھی اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے ہیں، ویسے بھی وہ کچھ عرصے سے بول چینل پر حقوق پروگرام بھی کررہے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ این آر اوہوچکا ہے جس کی بدولت ہی خود آصف زرداری جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے آزادانہ طور پر پاکستان میں گھوم پھر رہے ہیں ، ورنہ وہ تو ”ہوشیار ہوشیار ہوشیار“ اور اینٹ سے اینٹ بجادیں گے “ جیسی بدنام زمانہ تقریر کے بعد راحیل شریف کے دور تک ملک سے باہر ہی جا بیٹھے تھے۔

لیکن کمان کی تبدیلی کے بعد آصف زرداری کے حالات بھی بدل گئے وہ خود بھی پاکستان آگئے۔ڈاکٹر عاصم کو بھی ضمانت مل گئی اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ ایان علی بھی بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم بھی اسٹیبلشمنٹ سے تعاون کررہے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار سے اہم ملاقات میں انہوں نے آصف زرداری کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا ہے جس میں بظاہر سیاسی مفاہمت کو فروغ دینے اور عوام کی بہتری کے لئے مل کر کام کرنے پر زور دیاگیا لیکن اندرون خانہ قبل از وقت الیکشن سے لیکرسینٹ الیکشن تک مختلف آپشنز پر بات چیت کی گئی ہے اور ایم کیوایم کے ارکان کی پیپلز پارٹی میں متوقع شمولیت بھی زیر بحث آئی ہے ۔

اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ وفاداریاں تبدیل کراکے بعض سیاستدانوں کو مصنوعی سانس دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آصف زرداری سے ملاقاتیں کرنے والوں میں خوش بخت شجاعت اور سلمان مجاہد بلوچ کے نام نمایاں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Idaroo pr Siyasi wafdariya Tabdeel krany Ka Ilzaam Swaliya Nishan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.