ہندو دشمنی اور سندھ طاس معاہدہ

بھارت کا پاکستان پر ایٹمی حملہ کرنے کا خواب ، دنیا بھر میں تنہا کرنے کا خواب ، پھر علاقائی جنگوں کا آغاز اور پھر پاکستان کے عوام کو پیاسا مارنے کا خواب، شاید خواب ہی رہے کیونکہ مودی سرکار کی دھمکیاں محض چیخنے چلانے تک محدود رہتی ہیں۔ اسکی گواہی دنیا بھر کا میڈیا دے رہا ہے کہ بھارت جنگ کیلئے تیار نہیں ہے یہ محض پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے کا ڈرامہ رچا رہا ہے

بدھ 5 اکتوبر 2016

Hindu Dushmani or Sindh Tass Muahida
محمد اکرم چوہدری:
بھارت کا پاکستان پر ایٹمی حملہ کرنے کا خواب ، دنیا بھر میں تنہا کرنے کا خواب ، پھر علاقائی جنگوں کا آغاز اور پھر پاکستان کے عوام کو پیاسا مارنے کا خواب، شاید خواب ہی رہے کیونکہ مودی سرکار کی دھمکیاں محض چیخنے چلانے تک محدود رہتی ہیں۔ اسکی گواہی دنیا بھر کا میڈیا دے رہا ہے کہ بھارت جنگ کیلئے تیار نہیں ہے یہ محض پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔

بھارت کا اپنا میڈیا بھی جنگ کی تیاری کے حوالے سے اپنی فوج کے بارے میں حقائق پر مبنی پروگرام پیش کر رہا ہے۔ اسی لیے اب بھارت جنگی جنون سے ہٹ کر پاکستان کو Slow Pisoningکے ذریعے ختم کرنا چاہ رہا ہے۔ مثلاََ دشمن کی پہلی چال کے مطابق پاکستان کا پانی بند کردیگا اور بھارت کے راستے پاکستان میں داخل ہونیوالے دریاؤں کا رخ موڑ کر اسے اپنے علاقوں سے سمندر میں داخل کریگا تاکہ پاکستان زرعی طور پر بھی خود کفیل نہ رہے۔

(جاری ہے)

بہرکیف بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی اور موت اسکے ہاتھ میں ہے یعنی اگر وہ پاکستان کا پانی بند کردیگا تو پاکستان خود گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بھارت کی منتیں کریگا تو یہ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم گھاس کھا کر ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو اسے چلانااس کیلئے مشکل کام نہیں ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہندوستان نے پانی کے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیئے اور اپریل 1948ء میں تو پانی مکمل طو ر پر بند کر دیا۔

کچھ عرصہ پاکستان کو ہندوستان سے پانی خریدنا پڑا لیکن ظاہر ہے یہ معاملہ زیادہ عرصہ نہ چل سکتا تھا۔ ہندوستان کسی طرح بھی دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے عالمی قوانین کو ماننے پر راضی نہ تھا۔ پاکستان نے ہیگ میں قائم عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کی بھی کوشش کی لیکن ہندوستان اپنا کیس کمزور سمجھتے ہوئے وہاں جانے کیلئے راضی نہ ہوا۔ 1951ء میں امریکہ کے ایٹمی توانائی کمیشن کے سابق سربراہ ڈیوڈ لیلی ایتھال نے پاک و ہند کے دورہ کے بعد ایک میگزین میں مضمون لکھا اور اس میں مشورہ دیا کہ نئے ڈیم اور نہری نظام کو اس طرح بنایا جائے کہ دونوں ممالک مناسب پانی حاصل کر سکیں اور اس کیلئے ورلڈ بینک معاونت کرے۔

دونوں ممالک نے اس تجویز کے تحت بات چیت کا آغاز کیا لیکن دونوں کے نقطہ نظر میں اتنا اختلاف تھا کہ کوئی سمجھوتہ ہوتا نظر نہ آتا تھا بلکہ 1955ء میں وزیراعظم سہروردی کے دور میں نوبت جنگ کی دھمکیوں تک آپہنچی۔ آخر کار ورلڈ بینک نے خود ایک پلان بنا کر دیا جس پر کئی سال کی گفت و شنید کے بعد مارچ 1960ء میں کراچی میں دستخط کر دیئے گئے۔ اسکے تحت تین مشرقی دریاؤں، راوی، بیاس اور ستلج پر ہندوستان کا مکمل حق ہے جبکہ تین مغربی دریاؤں، سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق ہے۔

پاکستان کے وہ علاقے جو مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوا کرتے تھے ان میں پانی کی کمی پوری کرنے کیلئے مغربی دریاؤں کے پانی کو مشرقی دریاؤں کی طرف موڑا گیا۔ اس کیلئے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا، پانچ بیراج اور سات لنک کنال بنائی گئیں۔ انکے اخراجات کیلئے انڈین بیسن ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کر دیا گیا جس میں امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا نے حصہ ڈالا۔

مغربی دریا جو پاکستان کے حصے میں آتے ہیں جب تک وہ ہندوستان سے بہہ رہے ہیں ہندوستان کو گھریلو استعمال زراعت اور ہائیڈرو الیکٹرک جنریشن کیلئے انکے استعمال کی اجازت ہے۔
مندرجہ بالا معاملات میں پانی کو کس طرح اور کس حد تک ہندوستان استعمال کر سکتا ہے۔ اسکی مکمل تفصیل معاہدہ میں موجود ہے۔ خاص طور پر ہائیڈرو الیکٹرک جنریشن پلانٹ لگانے کی تمام تفصیلات موجود ہیں اور اس بات پر زور ہے کہ پلانٹ لگانے کیلئے پانی کو روکنا نہ پڑے اور اگر روکنا پڑے تو چند روز کے اندر اتنا ہی پانی واپس دریا میں چھوڑ دیا جائے۔

معاہدہ کرتے وقت ان دریاؤں پر چھ ڈیم موجود تھے اور ہندوستان آٹھ ڈیم مزید بنا رہا تھا۔معاہدہ کے مطابق جو ڈیم موجود تھے ویسے ہی رہیں گے، جو بن رہے ہیں انکے ڈیزائن میں پاکستان کی اجازت کے بغیر کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور مزید بجلی بنانے کے منصوبے بنانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اس کا ڈیزائن معاہدہ میں بیان کی گئی تفصیل کیمطابق ہونا چاہیے جس سے پاکستان میں آنیوالے پانی میں کمی نہ ہو۔

یہ معاہدہ تقریباً 30 سال تک بغیر کسی بڑے تنازعہ کے کامیابی کے ساتھ چلتا رہا لیکن پھر ہندوستان نے اس شق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ وہ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ لگا سکتا ہے۔ مزید ڈیم بنانے شروع کیے اور ان کے ڈیزائن معاہدہ کیمطابق نہ ہیں اور وہ پاکستان کا پانی روک سکتا ہے۔ وولر بیراج، سلال ڈیم، بگلیہار ڈیم مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کشن گنگا ڈیم پر کام جاری ہے اور تین نئے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا جاچکا ہے۔

اسکے علاوہ متعدد چھوٹے منصوبے بھی ہیں۔سندھ طاس معاہدہ میں، معاہدے پر عمل درآمد کیلئے اور کسی فریق کے انحراف کی صورت میں اس اختلاف کو دور کرنے کا بڑا تفصیلی طریقہ کار موجود ہے۔ ایک مستقل انڈس واٹر کمیشن بنایا گیا ہے جسکے تحت پاکستان اور ہندوستان میں دریائی معاملات میں مہارت رکھنے والے انجینئر کو کمشنر مقرر کیا جاتا ہے۔ ان کا کام معاہدہ پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہتے ہیں۔

پانچ سال میں سارے سسٹم کا دورہ اور اسکے علاوہ جب ضرورت پڑے دوسرے کمشنر سے رابطہ کرکے دورہ کر سکتا ہے۔اس معاہدے میں کسی اختلاف کی صورت میں بڑے واضح طریقہ کار مرتب کیے گئے ہیں جن سے کوئی ملک بھاگ نہیں سکتامثلاََ اگر کوئی ایسا سوال پیدا ہو جائے جہاں ایک پارٹی سمجھے کے معاہدہ پر عمل درآمد صحیح نہیں ہو رہا تو دونوں کمشنر باہمی رضا مندی سے اس کو حل کرینگے اور اگر دونوں کمشنر اس کو حل نہیں کر سکتے تو ایک کمشنر دوسرے سے کہہ دیگا کہ اب یہ معاملہ نیوٹرل ایکسپرٹس کے سامنے جانا چاہیے۔

جس کا تقرر دونوں حکومتیں باہمی رضا مندی سے کر سکتی ہیں۔ اگر وہ نہ کرسکیں تو ورلڈ بینک اس کا تقرر کریگا۔ میرے خیال میں جب یہ ساری شقیں موجود ہیں تو پاکستان کواس ہندودشمنی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اکثر یت کی بھی یہی رائے ہے کہ بھارت سے کسی بھی معاملے پر ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا، کیونکہ اب بھی دنیامیں طاقت کی زبان سمجھتی ہے کمزور کی کوئی جگہ نہیں۔

جب تک ہم ڈرتے رہیں گے وہ ہمیں ڈراتا رہے گا جس دن ایٹمی اسلحہ سے لیس دنیا کی مانی ہوئی پیشہ ور پاکستانی مسلح افواج نے قوم کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ بھارت کو للکارا اس دن ہماری فتح یقینی ہے۔ کشمیر کی آزادی، پانی اور بجلی کے بحران سے نجات کا باعث بنے گی، تاریخ شاہد ہے کہ جنگوں کا سامنا کرنیوالی قومیں جب دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی ہیں تو پھر انہیں کوئی بڑی سے بڑی آزمائش بھی متزلزل نہیں کرسکتی، جرمنی، جاپان اور فرانس کی مثال سامنے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hindu Dushmani or Sindh Tass Muahida is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 October 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.