حکومت سندھ کے ایوانوں میں ہلچل!

عدالتی تلوار چیف سیکرٹری کی گردن پر لٹکنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ بدعنوان افسران اور ملازمین کے خلاف ہائیکورٹ کے حکم پر کارائی شروع

بدھ 1 نومبر 2017

Hakomat Sindh k Aiwano me HalChal
سالک مجید:
عدالتی حکم کی وجہ سے حکومت سندھ کو گزشتہ 10 سال کا گند صاف کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ پہلے دن سے صوبے میں گڈگورننس کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہتے تھے لیکن بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں ، اب قدرت نے ان کو نادر موقع فراہم کردیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ تمام بدعنوان افسران جو نیب کے سامنے اپنی کرپشن کا اعتراف کر چکے ہیں اور رقم واپس کرنے کے بعد سرکاری عہدون پر بیٹھے ہیں ان کو فوری طور پر فارغ کیا جائے۔

یہ افسران جتنے بدعنوان ہوتے ہیں اتنے ہی طاقتور رابطوں میں بھی ہوتے ہیں اور ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے اس لئے ان کی سفارش میں بھاری بھرکم شخصیات آگے آجاتی ہیں اور سیاسی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں لیکن جب عدالتی حکم نامہ سامنے آجائے تو پھر حکمران بھی شیر ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف سیکرٹری نے عدالت عالیہ سندھ میں بیان دیا کہ تمام ایسے افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

اس پر عدالت نے حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہا اور چیف سیکرٹری کو متنبہ بھی کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ غلط بیانی کے نتائج سنگین ہوں گے لہٰذا تمام محکموں کو چیک کرلیں اور حلف نامہ کے ساتھ رپورٹ دیں۔ عدالت کے حکم پر چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے اپنی گردن بچانے کے لئے دور لگا دی اور محکمہ سروسز نے اس روز تمام صوبائی محکموں اور ذیلی اداروں کو ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے ہدایت دیی کہ نیب کے ساتھ رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے والے تمام افسران اور ملازمین کو عہدوں سے ہٹادیا جائے اور مکمل فہرست فراہم کی جائے ، اس پر محکمہ تعلیم سب سے پہلے حرکت میں آیا اور تین سو کے لگ بھگ ٹیچرز اور دیگر عملے کو فارغ کردیا گیا ان میں ٹیچرز، ڈاکٹرز اور نچلے عملے کے لوگ بھی شامل ہیں جبکہ 26 خواتین ٹیچرز بھی شامل ہیں۔

عدالتی احکامات کی روشنی میں جیسے ہی چیف سیکرٹری آفس حرکت میں آیا صوبائی حکومت کے ایوانوں میں تو گویا زلزلہ ہی آگیا۔ تمام کرپٹ افسران کے پسینے چھوٹ گئے کیونکہ مبینہ طور پر اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لئے بھاری رشوت دے کر آئے تھے اور اب طاقتور سفارشیں حاصل کرکے ہی ان سیٹوں پر بیٹھے تھے جہان سے اب فوری طور پر ہٹانے کا آرڈر آگیا ۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اس بات پر سخت برہم تھے کہ آخر اس بات کا جواز کیا تھا جو افسر نیب کے سامنے اپنی بد عنوانی اور کرپشن کا اعتراف کر چکا اور رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرکے آیا اسے دوبارہ بحال کیسے کیا گیا۔

چیف سیکرٹری سمیت حکومت سندھ کے لاافسران کے پاس اس کا سوال کاکوئی جواب نہیں تھا اس لئے عدالت کے حکم کے سامنے سب ڈھیر ہوگئے اور اپنی حکومتی غلطیاں سدھارنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو جن افسران نے بدعنوانی اور کرپشن وغیرہ کا اعتراف کر لیا تھا اور پھر بھی ان کو بحال رکھا گیا ان کے حوالے سے چیف سیکرٹری موجود ہ ہوں یا پرانے ان کے خلاف غیر ذمہ داری ، غیر سنجیدگی اور غفلت اور لاپروائی برتنے پر ایکشن ہونا چاہئے، اگر وہ اپنی صفائی دینا چاہیں تو ان کو موقع ملنا چاہیے۔

سرکاری ٹرانسفرز پوسٹنگ سیاسی دباؤ پر کی گئی تھیں اور میرٹ نہیں بنتا تھا تو جس نے دباؤ قبول کرکے قواعد وضوابط کر پس پشت ڈالا اس کے خلا ف بھی قانون کے مطابق کارائی کا آغاز ہونا چاہیے۔ اگر ملک کا وزیر اعظم نکالا جا سکتا ہے تو پھر سرکاری عہدوں پر فائز ایسے لوگوں کو کیوں نہیں نکالا جاسکتا جو ریاست کے ساتھ وفاداری نہیں نبھاتے اور اپنے مفادات کی خاطر مختلف طاقتور شخصیات کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور ان کے غلط اور غیر قانونی فیصلوں کی سزا عوام کو مل رہی ہے کیو کہ راشی اور بدعنوان افسران سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر مزید کرپشن اور لوٹ مار کرتے ہیں اور جنہوں نے ان کو روکنا اور چیک رکھنا ہوتا ہے وہ ملی بھگت سے اپنے نذرانے اور حصے وصول کرکے خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں۔

ایسے لوگوں کو وقت پر آواز اٹھانی چاہیے اگر کوئی آواز نہیں سنتا یادباؤ بڑھ جاتا ہے تو ان لوگوں کو خود دباؤ مسترد کرکے مذکورہ عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ ایک طرف محکمہ تعلیم نے کرپٹ اور بدعنوان افسران کو فارغ کرنے میں پہل کی ہے اور جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے دوسری طرف 4 ہزار سکولوں کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرکے وہاں زیر تعلیم 69 فیصد بچوں کوڈراپ آؤٹ سے بچانے کا چیلنج قبول کرلیا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس مقصد کے لئے 6 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔

یہ سارا آئیڈیا اور ریسرچ نئے سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر اقبال درانی کی ہے جن کو اس لئے لایا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم (سکول سائیڈ) کی تباہ شدہ صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔ ڈاکٹر اقبال درانی ایک تجربہ کار، ذہین، قابل اور مخلص افسر ہیں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے داماد ہیں اور ماضی میں بھی محکمہ تعلیم میں فرائض انجام دے چکے ہیں اب دوبارہ آتے ہی انہوں نے محکمہ تعلیم میں اصلاحات کا عمل شروع کردیا ہے ان کی آمد پر سرکاری ملازمین بہت خوش ہیں کیو نکہ وہ اچھا کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کام نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق وہ راستہ دکھاتے ہیں جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں یعنی محکمے میں جزا اور سزا کا ماحول ہوتا ہے اور جو اچھا کام کرتے ہیں ان کو مزید آگے بڑھنے کے مواقع اور ماحول فراہم ہوتا ہے۔

پچھلے دس سال میں محکمہ تعلیم سندھ نے اربوں روپے کے فنڈز پتہ نہیں کہا خرچ کئے ہیں کیونکہ صوبے میں سرکاری سکولوں میں بچوں کا انرولمنٹ بڑھ نہیں سکا۔ جبکہ تعلیمی بجٹ 14 ارب سے بڑھتے بڑھتے اب 162 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے آخر اتنے ارب روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں اس بارے میں عام آدمی سے لیکر پالیسی ساز تک سبھی حیران نظر آتے ہیں عالمی بینک کے ماہرین بھی حیرت زدہ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ سندھ کا کوئی بچہ بھی سکول سے باہر نہیں رہنا چاہیے ان کی خواہش ہے کہ سکول جانے کی عمر کے تمام بچوں کو سکولوں میں بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں اور سرکاری سکولوں کا ماحول اور معیار تعلیم بہتر کیا جائے ۔ محکمہ تعلیم کی پہلی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد کیسے بڑھائی جائے اور جو بچے داخلہ لے چکے ہیں ان کو سکول اور تعلیم چھوڑنے سے کیسے روکا جائے۔

ڈراپ آؤٹ بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں لیکن صوبائی حکومت اب پوری سنجیدگی کے ساتھ اس اہم مسئلے پر توجہ دے رہی ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سیاسی طورپر متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے پر بھی کافی توجہ دے رہے ہیں جس کے خوشگوار اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں اور مختلف محکموں میں ورکنگ میں بہتری نظر آرہی ہے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ نے صوبے بھر میں جاری اور نئی سکیموں کے بارے میں اجلاس میں کام کی رفتار سے آگاہی حاصل کی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی 233 سکیموں پر کام کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

وزیراعلیٰ ہر ہفتے مختلف محکموں کی کارکردگی اور سکیموں کے حوالے سے پیش رفت معلوم کرتے رہتے ہیں اور کئی منصوبوں پر دورے کرنا بڑھا کردیا ہے اس کے مثبت نتائج آرہے ہیں۔ اور ملازمین زیادہ محنت اور لگن سے کام کررہے ہیں لیکن پچھلے کئی برس میں سست روی سے ہونے والے کام کی وجہ سے اب صوبائی حکومت کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑرہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hakomat Sindh k Aiwano me HalChal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.