حادثات کی وجہ گڈ گورنینس کا فقدان

ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ روز سے مسلسل ایسے حادثے رونما ہو رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے کئی معصوم جانیں تلف ہو چکی ہیں کبھی کوئی ٹرین کا حادثہ ہوجاتا ہے اور سیکڑوں سوئے ہوئے لوگوں کی آنکھ اس دنیا میں کھل ہی نہیں پاتی اور ان کے گھر والے سوائے ماتم کے کچھ نہیں کرپاتے۔کبھی کراچی کے معروف ہوٹل میں آدھی رات کو آگ لگ جاتی ہے اور ایک درجن سے زیادہ افراد جھلس کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں

ہفتہ 10 دسمبر 2016

Hadsat Ki Wajah
ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ روز سے مسلسل ایسے حادثے رونما ہو رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے کئی معصوم جانیں تلف ہو چکی ہیں کبھی کوئی ٹرین کا حادثہ ہوجاتا ہے اور سیکڑوں سوئے ہوئے لوگوں کی آنکھ اس دنیا میں کھل ہی نہیں پاتی اور ان کے گھر والے سوائے ماتم کے کچھ نہیں کرپاتے۔کبھی کراچی کے معروف ہوٹل میں آدھی رات کو آگ لگ جاتی ہے اور ایک درجن سے زیادہ افراد جھلس کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور ساتھ ساتھ درجنوں افراد آگ اور دھویں سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔

بلکہ کرکٹ کے کھلاڑی دوسری منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی ٹانگ بھی تڑوا بیٹھے اور اب گزشتہ روز چترال سے اسلام آباد آنے والا جہاز فضائی حادثے کا شکار ہوگیا ۔جس میں مشہور نعت خواں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ سمیت اڑتالیس افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے موت برحق ہے ۔

(جاری ہے)

اس سے کسی کو انکار نہیں مگر ہمارے ملک میں جس طرح یہ حادثات تواتر سے ہورہے ہیں ۔

ان کی بنیادی وجہ اگر دیکھی جائے تو ہر حادثے کے پیچھے انتظامی غفلت پائی جارہی ہے ۔کراچی میں ایک ٹرین ایک ٹریک پر کھڑی دوسری ٹرین سے جا ٹکراتی ہے اور سیکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں حیرت کی بات ہے ٹرین کا سسٹم کوئی نیا نہیں لیکن لاپروائی کی انتہا ہے کہ اگر ٹرین کھڑی تھی تو سگنل کیسے گرین ہوا اور اگر سگنل لال تھا تو ڈرائیور حضرات سوئے ہوئے تھے۔

وجہ کچھ بھی ہو انتظامی غفلت کے نتیجے میں بے گناہ لوگ تو مارے گئے اس سے قبل بھی کبھی پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے میاں چنوں کراسنگ پر اسکول وین ٹرین سے جا ٹکراتی ہے اور کئی معصوم پھول بن کھلے ہی مرجھا جاتے ہیں اور کبھی کسی اور وجہ سے ٹرین پٹری سے اتر جاتی ہے۔ دو دن تک شور ہوتا ہے اور پھر بات آئی گئی ہو کر انکوائری کمیٹی تک محدود کردی جاتی ہے اسی طرح کراچی ہوٹل کے حادثے کو لے لیں علاقے کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کا افسر اس بات کی نشاندہی ہوٹل انتظامیہ کو ایک برس قبل کرچکا ہے کہ ہوٹل کے الارم اور دیگر آلا ت ٹھیک کام نہیں کر رہے اور ایگزٹ راستوں پر بھی کام کی ضرورت ہے۔

مگر مجال ہے جو کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو اور اتنا بڑا سانحہ پیش آگیا اور ستم بالائے ستم تازہ ترین اطلاع کے مطابق انکوائری رپورٹ تک انتظامیہ نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے تبدیل کروادی ہے ۔جوکہ ہمار ا بہت بڑا المیہ ہے سب سے آخری اور تازہ ترین فضائی حادثے میں اس طیارے کو بھی ایک پائلٹ نے کچھ عرصہ قبل نا قابل اڑان قرار دیا تھا اور پرواز سے قبل بھی انجینئرز نے اس کے ایک انجن کے کام نہ کرنے کی رپورٹ بھی آپریشن کے متعلقہ افسران کو دی تھی۔

مگر نہ جانے کیوں متعلقہ افسران اس پروا ز کو اڑانے کے در پے تھے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔جان سے ہاتھ
دھونے والے جنید جمشید ہوں یا چترال کے قابل ڈپٹی کمشنر یا دیگر مسافر ہر کوئی اپنے خاندان کے لئے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک کا شہری بھی تھا اور اس کی جان کے تحفظ کی ذمہ داری متعلقہ قومی ادارے پی آئی اے کی بنتی ہے جس کے بے حس چیئرمین نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑوادی کے صاحب یہ طیارے میں فنی خرابی کی وجہ سے ہوا ہے اور حادثے کی تحقیقات کروائی جائیں گی ۔

جانے والے اپنی جان سے چلے گئے اور ایک بار پھر انتظامیہ ایک بار پھر گا،گے اور گی کا راگ ہمیشہ کی طرح الاپ رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت وقت نے مرنے والوں کے لئے کچھ رقم کا اعلان کرکے اپنے کاندھوں پر سے حادثے کی گرد جھاڑنے کی کوشش کی ہے مگر کوئی بھی کسی بھی واقعہ کی تہہ تک جا کر اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی کوشش نہیں کرتا۔ بالکل ایسے جیسے کراچی کی بلدیہ فیکٹری کو آگ لگانے والے مرکزی ملزم بھولا کو آج بھی لانے میں حکومت مشکل کا شکار ہے اور اسے بھی کسی جماعت کو بلیک میل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے ۔

جیسے کہ عزیر بلوچ جیسے خطرناک مجرم کو جیل میں ڈال کر بھول گئے ہیں کہ اسے کوئی سزا بھی دینی ہے یا صرف کسی سیاسی جماعت کو بلیک میل کرنے کے لئے اسے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ہاں گڈ گورنینس کو عملی طور پر نافذ کر کے اس کی راہ میں آنے والے کسی بھی شخص کو پکڑا جائے سر عام لٹکایا جائے۔ مگر افسوس نہ ہی ہمارے وزیر ریلوے بڑے بڑے حادثوں کے بعد استعفے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی اور ادارے کے ذمے داران کو سزا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہے اگر گڈ گورنینس ہو گی اور کسی بھی واقعے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملے گی تو ہی ایسے حادثات پر قابو پایا جاسکے گا ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1989میں گلگت میں فوکر طیارہ غائب ہوا تھا تو فوکر طیاروں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

مگر وقت کی دھول میں سب دب کر رہ گیا فوکراڑ رہے ہیں اور گر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نیچے سے اوپر تک آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے مگر ہمارے انتہائی معتبر چیف جسٹس صاحب کا بھی کہنا ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت کو جیسے تیسے چلنے دیا جائے۔ اب اس کے بعد اور کہنے کو کیا رہ جاتا ہے جہاں چوروں کو چوکیداری دے دی جائے وہاں ایسے واقعات کا ہونا عام بات ہے۔

کوئی سسٹم اور گڈ گورنینس کی جانب توجہ نہیں دے رہا بس لوٹو اور پھوٹو کی پالیسی پر کامیابی سے عمل جاری ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انتظامی غفلت سے لوگ مر رہے ہیں تو جناب کل آپکی بھی باری آئے گی قبر سب کو ایک جیسی ملے گی اور بہت کچھ بنانے والے سب مٹی میں مل جائیں گے ۔کیونکہ یہی قانون قدرت ہے جو سب کے لئے ایک ہے یہاں تین فیصد دے کر کالے دھن کو سفید کرنے کا اپنا قانون بنا کر کالر کھڑے کر سکتے ہیں مگر آنکھ بند ہوتے ہی سو فیصد دے کر بھی جان نہ چھوٹے گی۔ کیونکہ وہاں ہماری مرضی کی پارلیمنٹ نہیں ہوگی صرف اور صرف انصاف کی عدالت لگے گی او ر قانون سب کے لئے ایک ہوگا ۔کیونکہ قدرت کی گورنینس میں کوئی خامی نہیں وہ زبردست ہے اور زبردست ہی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Hadsat Ki Wajah is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 December 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.