غربِ اردن میں مزید 1300 نئے مکانات کی تعمیر کا اسرائیلی منصوبہ

اسرائیلی قبضے میں فلسطین میں معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ عالمی بینک․․․․․ پولیس کی موجود گی میں 60 یہودیوں کی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی

جمعرات 23 نومبر 2017

Gharbe Urdan Me Mazeed 1300 Naye Makanatt Ki Tameer Ka Israile Mansoba
رمضان اصغر:
جرمنی اور فرانس نے فلسطین میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں میں اسرائیل کی نئی یہودی آبادکاری شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ دہرادیاہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور خطے میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

جرمنی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایک پریس بیان میں کہا کہ رواں ہفتے اسرائیلی حکومت نے غرب اردن کے علاقوں میں تین ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے۔ غرب اردن میں یہودی آباد کاری عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، جرمنی اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

فلسطین مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آبادکاری کی توسیع مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے جاری راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ چار جون 1967ء کے بعد قبضے میں لئے گئے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی ریاست کی سرگرمیوں کو کسی صورت میں قابل قبول نہیں کی جاسکتا۔ صہیونی ریاست کو فلسطین میں یہودی آباد کاری کا عمل بند کرنا ہوگا۔ ادھر فرانسیسی حکومت نے بھی غرب اردن کے علاقوں میں غیر قانونی یہودی آبادی کے نئے مصوبوں کی منظوری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسرائیل سے یہودی توسیع پسندی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

فرانسیسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہروں میں یہودی آباد کاری کے اسرائیلی منصوبے سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ یورپی یونین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لئے نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبوں کوبند کرتے ہوئے حالیہ منصوبوں کے بارے میں وضاحت کرے کہ اس نے کیوں کر آباد کاری غیرقانونی عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

تنظیم کی خارجہ سروس نے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ یہودی آبادکاری کے منصوبوں سے فلسطین کے ساتھ مستقبل میں کسی امن معاہدے کے امکانات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”یورپی یونین نے اسرائیلی حکام سے اس معاملے کی وضاحت کے لیے کہا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان منصوبوں پر نظر ثانی کریں گے کیونکہ یہ بامقصد امن بات چیت کی بحالی کے لئے کوششوں کے ضمن میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں“ بیان میں یورپی یونین کے اس موقف کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ”یہودی آباد کاروں کے لیے مکانوں کی تعمیر سے متعلق سرگرمی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے ۔

اس سے تنازع کا دور ریاستی حل معدوم ہوکر رہ جائے گا اور پائیدار امن کے قیام کے لیے کوششوں کوبھی نقصان پہنچے گا۔ تنظیم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی مشرق وسطیٰ جنگ میں غرب اردن ، مشرقی یروشیلم اور گولان کی چوٹیوں سمیت جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا، وہ اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کا حصہ نہیں ہیں۔ صہیونی ریاست جہاں ایک طرف دنیا کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے انبار لگارہی ہے تو دوسری طرف اس کے خوف کا عالم یہ ہے کہ یہ اپنے خلاف ایک لفظ سے بھی خوف زدہ ہے۔

صہیونی ریاست کے دروبام میں چھپے اس خوف کا اظہار مختلف مواقع پرہوتا ہے۔ حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں قابض فوج نے مقامی میڈیا پروڈکشن ہاؤس کے خلاف ایک نئی مہم شروع کی اور ابلاغی اداروں پر ڈاکہ زنی کرتے ہوئے نصف درجن سے زائد ابلاغی اور اشاعتی ادارے سیل کردیے۔ مقامی فلسطینی میڈیا ہاؤسز کی بندش کی ایک زمانی اہمیت ہے۔

وہ یہ کہ فلسطین میں حال ہی میں اسلامی تحریک صلح کا تاریخی معاہدہ طے پایا ہے۔ بند کیے گئے تمام فلسطینی ادارے فلسطینیوں میں مصالحت کی ترویج میں سرگرم تھے۔ ان اداروں کی جانب سے فلسطینی مفاہمت اور فلسطین میں قومی حکومت کے قیام کی بھر پور حمایت کی گئی تھی۔ یہ یلغار ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسرائیلی کا بینہ نے اپنے ایک حالیہ اجلاس میں روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک غزہ کی پٹی کی مزاحمتی تنظیمیں ہتھیار نہیں پھینکیں گی فلسطین اتھارٹی سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

غرب اردن میں جتنے ابلاغی ادارے بند کیے گئے ہیں ان میں سے بیشتر کسی نا کسی طرح حماس یا اسلامی جہاد کے ساتھ قربت رکھتے ہیں ۔ بعض ایران اور کچھ آزاد ٹی وی چینل ہیں ۔ ان تمام میڈیا اداروں کی جانب سے فلسطینیوں میں مصالحت کو ایک جشن کے طور پر منایا مگر صہیونیوں کو فلسطینی قوم کی خوشیاں کیسے گوارا ہوسکتی ہیں۔القدس ٹی وی چینل کے نامہ نگار اکرم النتشہ نے میڈیا کو بتایا کہ غرب اردن میں میڈیا ہاؤسز کے خلاف صہیونی ریاست کی یلغار باعث حیرت نہیں۔

اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے جس نے اپنا مکروہ اور تاریک چہرہ دنیا سے چھپانے کے لیے نام نہاد جمہوریت کا لبادہ اوڑر رکھا ہے ۔ ایک نسل پرست ریاست کو سب سے بڑا خطرہ کسی فوج سے نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ سے ہوتا ہے جو قدم قدم پر اس کی نسل پرستی کے پردے چاک کرتا اور اسے دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے۔ 1967ء کے بعد صہیونی ریاست کی نسل پرستی کی شدت میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ اس نام نہاد ریاست نے قبضے میں لئے گئے فلسطینی علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھی۔

یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست فلسطین میں پیشہ وارانہ طریقے سے ابلاغ کی خدمات انجام دینے والے اداروں کو اپنے لیے پیغام موت سمجھتی ہے۔ صہیونی ریاست اندر سے مکمل طور پر کھوکھلی ہے جب کہ فلسطین کے ابلاغی اداروں کا ایک ایک اقدام فلسطینی قوم کو مضبوط اور صہیونی ریاست کی گرتی دیواروں کے لئے دھکا ثابت ہورہا ہے۔ غرب اردن میں آٹھ میڈیا اداروں کی بندش سے اسرائیل نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ غرب اردن میں عملا فوجی عمل داری فلسطینی اتھارٹی کی نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی ہے۔

چاہے حماس اور فتح کے درمیان ایک معاہد ہ طے پایا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں غرب اردن میں سکیورٹی کا انتظام وانصرام سے محروم ہیں۔ فلسطینی قوم کی آزادی کے حق کو سلب کرنے والی صہیونی ریاست نے نام نہاد الزامات کے تحت فلسطین کے ابلاغی اداروں پر ایک نئی یلغار مسلط کی ہے۔مقامی فلسطینی شہریوں کی جانب سے فلسطینی میڈیا کو بتایا گیا ہے کہ قابض فوج نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں 30 فوجی گاڑیوں کے ساتھ میڈیا پروڈکشن کمپنیوں کے دفاتر پر دھاوے بولے۔

دفاتر میں گھس کر عملے کو زدوکوب کیا ، توڑپھوڑ کی اور بعد ازاں گن پوائنٹ پر ان اداروں کو چھ ماہ کے لیے سیل کرنے کے نوٹس چسپاں کردیے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائے ادرعے نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ” اسرائیلی فوج اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کاروائی میں میڈیا اور پروڈکشن سے تعلق رکھنے والی 8 فلسطینی کمپنیوں پر چھاپہ مارا گیا جن پر شبہ تھا کہ وہ دہشت گردی پر اکسانے اور اس کو سراہنے کے حوالے سے مواد نشر اور ارسال کررہی ہیں“۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق قابض فوج نے الخلیل ، رام اللہ ، بیت لحم اور نابلس میں ٹرانسمیڈیا، پال میڈیا، رامساٹ، فلسطین الیوم ٹی وی چینل ، الاقصیٰ چینل ، المنار شیاٹوڈے، القدس ، المیاد ین اور کئی دوسرے اداروں کے مراکز بھی سیل کردیے۔ دوسری جانب فلسطینی حکومت کے سرکاری نے فلسطینی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے بیان میں کہا کہ قابض افواج نے فلسطینی شہروں میں ان میڈیا دفاتر کے پردھاوے بول کر تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں“۔

مذکورہ کمپنیاں کئی غیر ملکی ، عربی اور فلسطینی سیٹلائٹ چینلوں کو میڈیا سروسزفراہم کرتی ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے الخلیل بیت لحم ، رام اللہ اور نابلس میں ان کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپوں کے وڈیو کلپ بھی پوسٹ کیے ہیں۔ کمپنیوں کی بندش کے دوران متعدد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا ۔ فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی حکومت اور یہودیوں کی جانب سے آبی وسائل میں گندگی پھینکے جانے کے نتیجے میں زہر آلود پانی پینے سے 400 فلسطینی شہری بیمار پڑگئے ہیں۔

ان کے پانی کے ذخائر میں یہودی آباد کاروں کی طرف سے گندگی پھینکی گئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ الخلیل شہر میں قائم الفوار پناہ گزین کیمپ میں دست اور قے کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 16 اکتوبر سے اب تک 400 افراد مقامی مرکزی کنوئیں سے زہریلا پانی پینے کے نتیجے میں بیمار ہوچکے ہیں۔فلسطینی وزیر صحت ڈاکٹر جواد نے اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم امدادی ادارے ’ اونروا‘ سے رابطہ کرنے اور بیماری پھیلنے کو روکنے کے لئے اقدامات کے احکامات دیے ہیں۔

پانی میں زہر یلے اثرات کی شمولیت کے بعد وزارت صحت نے فوری حفاظتی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ۔ شہریوں کو کلورین مواد کے استعمال کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ مواد پانی کو مضر صحت اثرات سے صاف کرنے میں مدد دیتا ہے اور ’اونروا‘ کے پاس اس کی وافر مقدارموجود ہے ۔ اسکولوں ، مساجد اور اسپتالوں کے پانی کو بھی زہریلیاثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Gharbe Urdan Me Mazeed 1300 Naye Makanatt Ki Tameer Ka Israile Mansoba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.