فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ!

اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم پر اقوام متحدہ کی بے بسی․․․․․․․ صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی سے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی لہر مزید پھیل رہی ہے

جمعہ 17 نومبر 2017

Flasteen me Yahoodi Bastiyoo Ki tameer Aman Ki Rahh me Barii Rkawat
محبوب احمد:
اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ گزشتہ7 دہائیوں سے چلا آرہا ہے ، اس خطے پر برطانیہ کی حکومت تھی لیکن 1948ء میں جب اس کی تقسیم ہوئی اور اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو جہاں ایک وطن ملا وہیں مشرق وسطیٰ ایک طرح کے انسانی اور سیاسی بحران کی زد میں آگیا۔ دنیا کے نقشے پر اسرائیلی ریاست کے ابھرنے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے حالات میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور یہ علاقے اب مسلسل خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔

فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور ہلاکتوں نے ہر ذی شعور شخص کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صہیونی ریاست کی مسلط کردہ اس جنگ میں ہر روز معصوم بچوں اورخوا تین سمیت نہتے فلسطینوں جکی درد بھری آہیں عالمی برادری خصوصاََ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔

(جاری ہے)

تسلط وطاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ظلم وجور اور سفاکیت وبربریت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز ہوتا جارہا ہے ۔

لیکن مقام افسوس ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے حکام کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے اعتراف کے باوجود اب تک صرف لفظی مذمت پر اکتفا کیا جارہا ہے جس سے عملی طورپر فلسطینیوں کی کوئی مدد ہوئی ہے نہ ہی اسرائیل کے حملے رکے ہیں۔ مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کی ایک بڑی بستی میں توسیع منصوبے کے تحت اسرائیلی حکومت نے مزید 2 سو کے لگ بھگ گھروں کی تعمیر کی جو منظوری دی ہے اس سے فلسطینیوں دی ہے اس سے فلسطینیوں میں سراسیمگی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی ہر قسم کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں اور ان سے دو ریاستی حل کے قابل قبول ہونے کی بھی نفی ہورہی ہے جس کے لئے خطے میں دیرپا امن کی خاطر کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسرائیل اب تک مقبوضہ فلسطینی رہائشی علاقوں سے باہر قائم ہیں ۔ یروشلم شہر کی حیثیت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس کا شمار فلسطینی اسرائیلی کا مئوقف ہے کہ یروشلم کا پور شہر اس کا ناقابل تقسیم دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینیوں کا یہ اصرار ہے کہ مستقبل میں ان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا دارالحکومت یروشلم کا یہی عرب مشرقی حصہ ہو گا۔

اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967ء کی 6 روزہ جنگ کے دوران قبضہ کرکے اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیل کے اس یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری آج تک مشرقی یروشلم کو مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہی سمجھتی ہے، جسے اسرائیل کو بہر حال کبھی نہ کبھی خالی کرنا ہی ہو گا۔ یورپی یونین کا بھی ایک عرصہ سے یہ مئوقف رہا ہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں سمیت جن علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ قطعی غیر قانونی ہے اور یہ تمام مقبوضہ علاقہ اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں سے باہر ہیں جو اسرائیلی ریاست کا کبھی حصہ ہو ہی نہیں سکتے۔

اسرائیل اب ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کیلئے جو مزید نئے گھروں کی تعمیر کے منصوبے بنارہا ہے ان کی روک تھا کیلئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیام امن کو خطرہ ہے۔ صہیونی حکومت کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق عالمی برادری خصوصاََ اقوام متحدہ کی سستی و کاہلی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی ظالمانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے سلسلے میں گستاخ بنا رکھا ہے۔

اسلامی اور فلسطینی تشخص کا خاتمہ شروع ہی سے صہیونی حکومت کے پیش نظر رہا ہے ، لہٰذا اس منصوبے کو پایہ تکیمل تک پہنچانے کیلئے یہودی بستیوں کی تعمیر بدستور جاری ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادیاں قائم نہ کرنے کے مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسرائیل نے آئے روز مظلوم فلسطینیوں کی زمینیں غصب کرکے نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور اب تک مقبوضہ مغربی کنارے میں 5 لاکھ سے زائد یہودی آبادکاروں کو بسایا جاچکا ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا 16 فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے 42 فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبوں پر مکمل عمل درآمد ہوچکا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے 150 میٹر کے فاصلے پر ” معالیہ ازیتیم“ کے نام سے قائم کالونی میں 132 رہائشی اپارٹمنٹس ہیں ، 26 بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں جبکہ رملہ اور البریح ضلع میں 24 یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔

صہیونی درندے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر جذبہ حریت کو دبانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں، یہاں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم حکمران صرف زبانی احتجاج پر ہی اکتفا کررہے ہیں ۔ او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر مسلم ممالک کا مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا افسوسناک امر ہے۔ یہ حقیقت اب سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ صہیونی ریاست کا پشتیبان کون ہے۔

دہشت گردی کے خلاف امریکہ نے جو نام نہاد جنگ شروع کی ہوئی ہے اس میں اسرائیل سب سے بڑا اتحادی ہے، حقیقت میں اس نام نہاد جنگ کا مقصد محض عالمی افق پر اقتدار کی گرفت کو مزید مضبوط کرنا ہے جس کیلئے امریکہ نے پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے، یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے فلسطین میں اسرائیل مظالم رکوانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مئوثر اقدامات کرے اور کیلئے اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو بھی اپنے کردار پر غور کرنا ہوگا۔ عالم اسلام کا دفاع اور مظلوم مسلمانوں کی مدد ہم سب پر فرض ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے کہ تمام تر صلاحیتیں دین اسلام کی ترویج اور امت مسلمہ کے تحفظ کیلئے وقف کردی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Flasteen me Yahoodi Bastiyoo Ki tameer Aman Ki Rahh me Barii Rkawat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.