فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور اسرائیل کا جنگی جنون!

نام نہاد مذہبی رسومات کی آڑ میں مقدس مقامات کی بے حرمتی․․․․ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں عالمی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی روز کا معمول بن گئی

بدھ 11 اکتوبر 2017

Flasteen Me Yahodi bastio Ki tameer Or Israil Ka Jangi  Janoon
محبوب احمد:
صہیونی حکومت کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق اقوام متحدہ کی سستی وکاہلی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کواپنی توسیع پسندانہ پالیسیاں جاری رکھنے کے سلسلے میں گستاخ بنارکھا ہے۔ مغرب اور خاص طور پر امریکہ کا دوہرا رویہ خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے جس سے انصاف پسند ممالک بے چینی کا شکار ہیں۔

فلسطین ، عراق،افغانستان،کشمیر، برما اور دیگر اسلامی ممالک میں مسلمانوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کی داستانیں ہولو کاسٹ کی یاد تازہ کررہی ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر صہیونیوں نے فلسطین کو اپنے قبضہ میں کرنے کا پروگرام ترتیب دیا، عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کرگئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15مئی 1948ء کو ہوا، بعض مئورخین کے نزدیک یہودیوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنانے کا منصوبہ 1896ء میں آسڑیا ہنگری سلطنت کے ایک یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے اپنے ایک پمفلٹ”یہودی ریاست“ میں پیش کیا تھا، ”سیاسی صیہونیت“ کا یہ سلسلہ ہرآنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتا گیا۔

(جاری ہے)

اسرائیل جب ایک الگ ریاست کے طورپر دنیا کے نقشے پرابھرا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا لیکن آج اس کا رقبہ ایک اندازے کے مطابق 34 ہزار مربع میل اور آبادی 57 لاکھ سے زائد ہے۔ سامراجی پشت پناہی میں فلسطین پر صہیونی قبضے اور اس تسلط کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کا آغاز 1948ء میں ہوا، گزشتہ 66 برس میں یہ تنازع تین عرب اسرائیل جنگوں کی وجہ بنا ہے ۔

،مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں فلسطینیوں کی ہتھیائی گئی اراضی پر 26 یہودی بستیوں میں لاکھوں صہیونی رہائش پذیر ہیں۔، یہ تعداد غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کا 54.6 فیصد بنتی ہے، البریح اور رملہ کے علاقے میں 24 یہودی رہائشی اپارٹمنٹس ہیں۔ اسرائیلی حکومت فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبے بنا چکی ہے اوراس سلسلے میں امریکہ میں قائم ایک ہزار تنظیمیں بھی فلسطین میں یہودی آباد کاری کے لئے مالی معاونت کررہی ہیں۔

امریکی ارب پتی تنظیم ”سی اینڈ ایم “ یہودیوں کو آباد کاری کے لئے مدد فراہم کرنے والی سب سے بری تنظیم ہے جو فلسطین میں آباد کئے گئے یہودیوں کو بھاری قیمتوں کے عوض زمینیں اور جائیدادیں خریدنے کے لئے رقوم فراہم کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متعدد بار مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے باوجود اسرائیل مقبوضہ زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

مقبوضہ علاقوں پر تعمیر ہونے والی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر غیر قانونی اور ناجائز ہیں، ان یہودی بستیوں کی تعمیر کا مقصد شہر الخلیل پر اسرائیلی پالیسیوں کو مسلط کرنا اور اس شہر کے قدیمی حصے کو یہودی رنگ دینا ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر ملت فلسطین کے حقوق کی کھلی پامالی اور بین الاقوامی قراردادوں کو خاطر میں نہ لانے کے ساتھ ہی خود مختار فلسطینی مملکت کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات ساری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ توسیع پسند وتسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل کی جارحیت کے باعث فلسطینی سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل آج جدید اسلحہ بنانے والا ایک ایسا بڑا ملک بن چکا ہے جس کا وجود دراصل انگریزوں کے مرہون منت ہے اور اس کی معیشت کا پہیہ امریکی امداد سے ہی رواں دواں ہے۔

آج امریکہ کے تمام فیصلہ ساز ادارے یہودی لابی ہی کے ماتحت ہیں اور پینٹا گان پر بھی یہی یہودی قابض ہیں، درحقیقت اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی بربریت پر صرف لفظی مذمت کی جارہی ہے جس سے عملی طور پر فلسطینیوں کی کوئی مدد ہوئی اور نہ ہی کبھی اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں سخت اذیت کے شکار بچوں ، خواتین سمیت ہزاروں قید فلسطینی خطرناک ادویات کے استعمال سے مختلف عارضوں میں مبتلا ہورہے ہیں، سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے اس ظلم وستم پر چپ سادھ رکھی ہے ۔

او آئی سی اور عرب دنیا کا وہ ردعمل اسرائیل کی حرکات پر نظر نہیں آتا جس کی توقع ساری مسلم امہ رکھتی ہے ۔ اسرائیلی بربریت اور جارحیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نیکو لائے ملاد ینوف نے فلسطین میں ا سرائیل کی طرف سے جاری غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر پر شدید تنقید کرتے ہوئے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو عالمی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

فلسطین میں یہودی آباد کاری کا جنون انتہائی خطرناک ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یا ہو فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کے لئے یہودیوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسرائیلی حکومت نے یہودی آباد کاری کے لئے 23 سو کے لگ بھگ نئے مکانوں کی تعمیر کی منطوری دی تھی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔

مقام افسوس تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی اس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ اقوام متحدہ کے حالیہ بیان نے اسرائیل کے خطرناک منصوبے کو بے نقاب کردیا ہے اور اب اس بات میں کوئی شک وشبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ صہیونی حکومت اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے فلسطینوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کی توسیع غیر آئینی اور خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی مساعی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

عالمی قوتیں اس وقت اسرئیل کی پشت پر ہیں اور یہی طاغوتی قوتیں”عظیم تر اسرائیل“ کے قیام میں اس کی ہمہ وقت ہر قسم کی مدد میں مصروف ہیں، یہی طاغوتی قوتیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے تقسیم در تقسیم ، شورشیں اور یورشیں بپا کرنے کیلئے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خرید کران میں نفرت کے بیج بورہی ہیں۔ عراق، افغانستان،لبنان،شام،صومالیہ، سوڈان، ایران ، پاکستان اور اب یمن پر شب خون مارنے اور برہنہ دھمکیاں دینے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، لہٰذا ضرورت اب اس امرکی ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی برادری ، انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اور او آئی سی صرف لفظی مذمت کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ غاصب صہیونی حکومت کے خلاف ٹھوس فیصلے کرکے فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی ظلم وستم اور فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو رکوانے کیلئے کردار ادا کیا جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Flasteen Me Yahodi bastio Ki tameer Or Israil Ka Jangi Janoon is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.