انٹری ٹیسٹ غیر ضروری مشق بن گیا

پرچہ لیک ہونے پر لاہور ہائیکورٹ کا ایکشن

پیر 2 اکتوبر 2017

entry Test Ghair Zrori Mashq Ban Gya
محمد ریاض اختر:
ذہانت کو پذیرائی کے تاج ملتے رہیں تو دانش و بینش کا اعتراف ہر سطح اور ہر جگہ پر ہوتا رہے گا تاہم لیاقت وصلاحیت کو اطراف سے مسائل کے کوہ گراں عبور کرنا پڑیں تو راہنمائی اور لیاقت میں حد فاصل بڑھنے لگتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انٹری ٹیسٹ کی افادیت کے پیش نظر جو پالیسی متعارف ہوئی وہ قابل ستائش تھی مگر آج زمینی حقائق چیخ چیخ کر اہل اقتدار کو اس مجوزہ پالیسی میں ترمیم و تبدیلی کرنی چاہیے۔

اس سال 70 ویں یوم آزادی کے بعد مختلف جامعات نے میڈیکل کے طلباء کے لئے انٹری ٹیسٹ کامیدان سجایا۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کی انتظامیہ نے انٹری ٹیسٹ سے چند روز قبل راولپنڈی انتظامیہ‘ پولیس اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کے ساتھ باقاعدہ میٹنگ بھی کی میٹنگ کا سب سے بڑا مقصد طلباء وطالبات کو اچھا اور مثالی ماحول فراہم کرنا تھا۔

(جاری ہے)

ہمارے ہاں انٹری ٹیسٹ میں شرکت اور اس میں کامیابی کے چراغ روشن رکھنے کے لئے طلباء و طالبات کا فوکس تیاری پر رہتا ہے اور اس مقصد کے لئے آج کل اکیڈمیاں خاصیاں سرگرم ہیں انٹری ٹیسٹ تیاری کے لئے والدین 40،50 ہزار روپے کا اضافی بوجھ پڑرہا ہے۔ اب تو نامور تعلیمی گروپ بھی اکیڈمیوں کے غیر ضروری نظام کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پرچہ کی تیاری، ترسیل اور وصولی کے بعد بعض طلباء اور والدین نے انکشاف کیا کہ لاہور کی ایک معروف اکیڈمی کوبالواسطہ اور بلاواسطہ نوازنے کے لئے پیپر کا وہ پیٹرن متعارف ہوا جس سے بیشتر طلباء آگاہ نہ تھے یہی وجہ ہے کہ کئی طالبات اچھی ،بہترین اور باقاعدگی تیاری کے باوجود روتی ہوئیں امتحانی سنٹرز سے باہر آئیں ۔

طلباء کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے تیاری کے مراحل طے کررہے ہیں بھاری فیسوں کے ساتھ اچھی تیاری کے دعوے آؤٹ آف کورس پیپرز نے ہوا میں اڑادیئے۔ آخر ہم تجربات کی بھٹی سے نئی نسل کو کب تک گزارتے رہیں گے۔؟ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور طلبا وطالبات کے بہترین مفاد اور روشن مستقبل کے لئے اس سلسلے پہ نظر ثانی کریں۔ علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت ہر ڈویژن میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج قائم کردے تو ہر سال شکایات کے ازالہ کے ساتھ طلباء وطالبات کے کئی مطالبات کو بھی پذیرائی مل سکتی ہے۔

وزارت صحت،وزارت تعلیم، ایچ ای سی،پی ایم ڈی سی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو نئے میڈیکل یونٹ کے قیام کے لئے اپنے حصہ کی شمع روشن کرنا چاہیے۔لاہور ہائی کورٹ نے انٹری ٹیسٹ نتائج پر عمل درآمد روک دیا ہے اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سے جواب طلب کیا ہے جسٹس شاہد وحید نے متاثرہ طلباء کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ انٹری ٹیسٹ سے پہلے ایک اکیڈمی کی جانب سے زیر تعلیم طلباء کو انٹری ٹیسٹ کے پرچے فراہم کردیئے گئے تھے جبکہ پرچے مارکیٹ میں فروخت بھی کئے گئے جس سے طلباء کی حق تلفی ہوئی اس سے قبل وزیراعلیٰ نے ایسی ہی شکایات پرایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے شکایات کا جائزہ لے کر میاں شہباز شریف کورپورٹ پیش کی۔

اس سلسلے میں مختلف ماہر تعلیم اور پرنسپلز سے بات کی گئی جو نذر قارئین ہے۔ مسعود سلطان چودھری ، پرنسپل جناح انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ کامر س نے کہا” میں انٹری ٹیسٹ کے نظام کے خلاف نہیں ، یہ اچھی اور بہترین سرگرمی ہے تاہم اختلاف اسکے طریقہ کار میں موجود خامیوں سے ہے جن کا اظہار طلباء وطالبات کی طرف سے مسلسل اور ہر بار ہوتا ہے۔

ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت میٹرک اورانٹر رزلٹ کی بنیاد پر نئے داخلوں کا نظام وضع کرے۔ ماضی قریب میں میٹرک اور انٹر رزلٹ پر داخلہ ملا کرتے تھے آخر اس نے سسٹم کا دوبارہ احیاء کیوں نہیں کیا جاتا نئی صورتحال میں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے اکیڈمیوں پر انحصار کیا جارہا ہے یوں ایک ایک طالب علم کو تیاری کیلئے 35,30 ہزار روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ، خوشی ہے کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ کے تحت انٹری ٹیسٹ کے دوران ہماری درسگاہ کو انتظامی لحاظ سے اول درجے پر فائز کیا گیا ہم نے طلباء کو مثالی ماحول دیا اور والدین کی بھی رہنمائی اور خدمت بھی کی۔

پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد چودھری ، سی ای او کر لوٹ کالج اسلام آباد نے کہا” انٹری ٹیسٹ کا نظام بہت موثر اور جاندار ہے یہ تمام بورڈ اور مختلف میں کامیاب ہونے والے طلباء وطالبات کو ایک ہی درجے سے نئے امتحانی مرحلے سے گزارتا ہے اور یہ طریقہ بہترین ہے تاکہ ذہانت اور دانش کا اصل روپ سامنے آسکے۔ اس سسٹم میں 55 ہزار امیدواروں میں سے پانچ ہزار کامیاب ہوئے ہیں، ناکام ہونے والے کسی دوسرے شعبہ کا انتخاب کر لیتے ہیں۔

وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ میڈیکل کالج اور نئی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم کرے اس سے طلباء کی ڈیمانڈ اور ملک کا فائدہ ہوگا ابھی حکومت نے راولپنڈی میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دینے سے قبل اس کے لئے بجٹ، سٹاف، کیمپس اور دیگر لوازمات کا بھی اہتمام کرے۔اگر ہم یوں ہی کالجوں کو جامعات بناتے رہے تو س سے اچھا تاثر نہیں ابھرے گا۔

گورنمنٹ میڈیکل کالج کا ایک سالہ سمسٹر دو لاکھ جبکہ پرائیوٹ 10 ہزار سے متجاوز ہے۔ بیرون ملک خرچہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان سب باتوں کا حل مناسب اور جامع حکمت عملی میں مضمر ہے۔ ڈاکٹر جنید اسماعیل، ماہر سپائن امور پولی کلینک اسلام آباد نے کہا”انٹری ٹیسٹ کے فوائد بہت زیادہ ہیں ۔ مختلف تعلیمی بورڈز سے میٹرک اولیول کے طلباء جب کامیابی کے بعد آگے آتے ہیں تو انٹری ٹیسٹ میدان میں سارے یکساں حیثیت کے حامل ہوجاتے ہیں اسی لئے انٹری ٹیسٹ کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جارہا ہے اور اگر اس سسٹم میں کوئی انتظامی نقص ہے تو اسے دور کرلینا ضروری ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلم شاہ،پرنسپل راول میڈیکل کالج لبترار روڈ نے کہا کہ ” انٹری ٹیسٹ کا نظام برسوں سے چل رہا ہے، لوگ اسے پسند بھی کرتے ہیں دنیا بھر میں یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ اللہ کرے یہ پرائیوٹ اور پبلک سیکٹر میں اشتراک کو یقینی بنائے، اگر ایسا ہوجائے تو حکومتی سرپرستی میں پرائیوٹ سیکٹر کے ہیلتھ یونٹس زیادہ خدمت کا مقصد پورا کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

entry Test Ghair Zrori Mashq Ban Gya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.