”احتساب سب کا“ کے نعرے پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے!

متحدہ کی ”ڈوریاں“ لندن سے ہلتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ملزم حماد صدیقی کی گرفتاری سے ایم کیو ایم کے رہنما بوکھلاہٹ کا شکار ہیں

پیر 27 نومبر 2017

Ehtsab Sub ka K Nary pr Aml Dramd Huna chahiye
امیر محمد خان:
سابق صدر پرویز نے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت کی مشورے سے اپنے دور میں ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم مقرر کیا جو سابق وزیراعظم مقرر کیا جو اپنے تمام تر دور میں موجود وزیراعظم خاقان عباسی کی طرح جو سابق وزیراعظم کو اپنا ” Boss“ کہاکرتے تھے، چوہدری شجاعت کو انہی دنوں جدہ میں کمیونٹی کی جانب سے ظہرانہ دیا گیا جس میں چوہدری شجاعت نے پاکستان کے سیاسی حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری پارٹی میں جمہوریت ہے، کرتا دھرتا لوگوں نے ہم سے کہا کہ آپ وزیراعظم بن جائیں مگر ہم نے خود وزیراعظم بننے کے بجائے اپنی جماعت کا ایک نامور شخص ، وزیراعظم کیلئے دے دیا“ ان کی بات چیت میں لفظ ”کرتا دھرتا“ توجہ کا مرکز تھا، ظہرانے کی نظامت میرے ذمہ تھی کھانا شروع ہونے سے قبل چوہدری شجاعت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا گیا کہ لفظ”کرتا دھرتا “ پر روشنی ڈالیں کہ وہ وہ کون لوگ ہیں ؟ کیا آپ اپنی مجلس عاملہ کا ذکر کررہے ہیں؟ ۔

(جاری ہے)

چوہدری شجاعت نے دوبارہ مائیک ہاتھ میں لیا، دومنٹ تک سوچ کر کہا کہ ”تسی مینوں مروانا چاہندے او، چلو اٹھو کھانا کھایئے“ لہٰذا وہ سوال کا جواب گول کرگئے۔ کراچی میں حال ہی میں ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کا تماشہ شروع ہوا، 24 گھنٹے میں کئی پریس کانفرنسز منعقد ہوئیں جو را ت گئے تک جاری رہیں ، یہ پریس کانفرنسز کم کارکنوں کی میٹنگز زیادہ تھیں، عوام بھی رام کہانی سننے کو بالکل تیار رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر بیٹھے”ویلے“ نوجوان سب سے مزیدار چٹکلے اپ لوڈ کرتے رہے، مختصر تجزیہ کچھ یوں تھا کہ فاروق ستار اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی پریس کانفرنس میں جس کمیونٹی کی وہ نمائندگی کررہے ہیں ان کیلئے مذاق کا سبب بنے جس پر اردو بولنے والوں کا مزید مذاق ہی بنا، انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ کو بھی تکلیف دی کہ ان کے کہنے پر واپس سیاست میں ایک گھنٹے بعد ہی آگئے۔

آج سے نہیں بلکہ یہ ایک طویل عرصے سے کہا جارہا تھا کہ متحدہ میں کچھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ سب کا رابطہ تاحال بانی ایم کیو ایم لندن سے ہے کیونکہ2 سال سے چھپا اسلحہ بھی پکڑا جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم لندن کا اسلحہ برآمد ہوا تھا، نجانے اسلحہ کے ہمراہ کوئی رسید بھی نکلتی ہے کہ جس پر لندن کا ”تذکرہ“ ہوتا ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کا جلسہ ہو یا پاک سرزمین پارٹی کا وہاں کچھ لوگ بانی ایم کیو ایم کی حمایت میں نعرے لگارہے ہوتے ہیں۔

تجزیہ نگار تو یہ ہی کہتے ہیں کہ جھگڑا”بھتہ“کیلئے علاقوں کی تقسیم کا ہے انہیں پاکستان کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، فاروق ستار کی پرانی گاڑی ہو یا مصطفی کمال کی نئی کار، کیا دونوں ہی اس اعلیٰ رہن سہن کے جواب دہ نہیں۔ جس طرح نواز شریف برادرن سے تفتیش جاری ہے، راقم کا یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تفتیش نہیں ہونی چاہیے بلکہ ”احتساب سب کا “ نعرے پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے تاکہ ملکی دولت لوٹنے والوں کو عبرتناک سزادی جاسکے چاہیے وہ ن لیگ سے ہوں یا پیپلز پارٹی پی ٹی آئی یا جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم پھر کسی اور سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، کڑے احتساب سے یہ پتہ لگایا جائے کہ ذرائع سے زیادہ آمدن کہاں سے آئی۔

ایم کیوایم کی رام کہانی کے ڈرامے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی نے کسی ”پوشیدہ ہاتھ“ کا ذکرکرتے ہوئے اسے ”اسٹیبلشمنٹ “ کانام دیا، وہ باتیں جو پی پی اور اب میاں نواز شریف یا ان کی پارٹی کے لوگ کھلے انداز میں کررہے تھے، وہ فاروق ستار اور زیادہ وضاحت سے کھلے انداز میں مظفیٰ کمال نے کہہ کر ہمارے ادارے جو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کے لئے نہ صرف سوالیہ نشان بنا دیا ہے بلکہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ جو ہماری بہادر افواج اور اداروں پر الزام لگارہی ہے ان کی نام نہاد سچائی پر اپنے آپ کو غریبوں کا نمائندہ کہتے ہوئے مہر بھی ثبت کردی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پی پی کو بھی اب بغلیں بجانے کا موقع ہاتھ لگ گیا ہے کیونکہ وہ بھی یہ ہی کچھ کہہ کرہے ہیں، مگر محب وطن عوام یہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ خاص طور پر کراچی کے خراب حالات میں اگر کوئی پوشیدہ ہاتھ مصروف عمل ہے تو وہ بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی ”را“ کا ہے جوکرپٹ عناصر کو پیسہ دے کر پاکستان کے حالات خراب کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔

سیاسی حکومتیں چاہے پی پی کی ہوں یا مسلم لیگ کی یا پھر کوئی اور سبھی پوشیدہ ہاتھوں کے تعاون سے اقتدار میں آنے کی خواہاں رہتی ہیں۔ کراچی کی سیاست میں بھارتی سرمایہ کاری کا ہماری موجودہ اور سابقہ حکومت نے سدباب اس لئے کبھی نہیں کیا کہ انہیں اسمبلی میں کچھ نشستوں کی حمایت کی ضرورت رہتی ہے۔ کہ وہ اپنی حکومت بنا سکیں۔ کراچی کی سیاست میں اگر کوئی دونوں جماعتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ شہر خون خرابہ بہت دیکھ چکا اب یہ سلسلہ مزید نہیں چلنا چاہیے، تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔

فاروق ستار نے پرانی ایم کیو ایم میں جان ڈالنے کا اشارہ دینے کیلئے کراچی میں شہدا کی یادگار پر حاضری دی، کیا کوئی فہرست ہے کہ جو بتاسکے کہ ان شہداء میں مختلف گروپوں نے ایک دوسرے کو کتنا مارا؟ ظلم کس نے کیا تھا؟ تجزیہ نگار تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ملزم حماد صدیقی کے منظر عام پر آنے سے ایم کیوایم میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ehtsab Sub ka K Nary pr Aml Dramd Huna chahiye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.