ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش

سنگھ پریوار کے ایما پر علماء پر شکنجہ کسے کی پہلی کڑی۔۔۔ بنگلہ دیش میں اسلامی مبلغ کے ٹی وی چینل پر پابندی عائد کردی گئی

جمعہ 28 جولائی 2017

Dr Zakir Naik Ko Dehshatgard Qarar Dainay Ki Koshish
رابعہ عظمت:
گزشتہ یکم جولائی کو بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ کے ایک ریسٹورنٹ میں رونما ہونے والے بم دھماکے کے بعد اسلامی مبلغین، دانشوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور اس مہم جوئی میں بھارتی متعصب میڈیا سب سے آگے ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے واویلا مچایا کہ ڈھاکہ دہشت گردی کے حملے میں ملوث حملہ آور ڈاکٹر ذاکر کی تقاریر سے متاثر تھے اور پھر اس کو جواز بنا کر بنگلہ دیش میں ڈاکٹر ذاکر کے اسلامی چینل ”پیس“ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

تو دوسری جانب مودی کی ہدایت پر معروف دینی سکالر اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے القاعدہ ،طالبان،لشکر طیبہ اور ممبئی حملوں سے تعلق جوڑنے کے لئے بھارتی خفیہ ادارے متحرک ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر کی تقاریر کے حوالے سے مودی حکومت نے سخت نوٹس لیا ہے اور ان کی تقریروں کی تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا پر چیخ چیخ کر اسلامی دانشور کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا ہے۔

ہندوستان میں ہر طرف ایک شور مچایا ہوا ہے کہ ان کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی جائے اس طرح ان کے اسلامی چینل کے خلاف تحقیقات کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ بھارتی سکیورٹی اداروں اور مودی حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کا تعلق 2006ء میں ہونے والے ممبئی حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں سے بھی جوڑ دیا جائے۔

کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بھارتی سکیورٹی اداروں کو 10 سال بعد پتہ چلا ہے کہ 2006ء کے ممبئی حملے کرنے والوں کا تعلق اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن سے تھا جبکہ بھارتی سکیورٹی اداروں نے اس کی دوبارہ انکوائری شروع کردی ہے۔ کہ مبینہ طور پر ممبئی دھماکے کرنے والا IRF کا لائبریرن تھا اور ڈیوڈ ہیڈلی سے بھی انہیں اسلام ریسرچ فاؤنڈیشن کے عہدیداروں کے ٹیلی فون نمبرز ملے تھے۔

ان بھگوا اداروں کی تحقیقات میں یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تھے یا نہیں؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ہندوؤں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں اور ان کی تمام تقاریر میں تبدیلی مذہب پر زور دیا جاتا ہے۔ بھارتی سکیورٹی ادارے اسلامی چینل Peace T.V کے خلاف قابل اعتراض مواد جمع کررہے ہیں اور ٹی وی چینل پر الزام لگایا جارہا ہے کہ اس چینل سے قابلِ اعتراض مواد نشر ہوتا ہے۔

دراصل بھارتی حکومت اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن اور ڈاکٹر ذاکر نائیک پر پابندی عائد کرنے کے لئے بے بنیاد اور من گھڑت الزام تراشیوں کا جواز ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ حالیہ واقعے کے بعد ڈاکٹر نائیک کے خلاف سوچے سمجھے طریقے سے بھگو ادارے کے احکام کے مطابق ایک منظم سازش تیار کی جارہی ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق آر ایس ایس نے کم وبیش 200 صحافی اداروں کو ذاکر نائیک کے خلاف مہم جوئی میں لگادیا ہے،اور یہ سب مل کر پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح ڈاکٹر ذاکر کو دہشت گرد ثابت کردیا جائے اور بھارتی سرکار انہیں جیل میں ڈال دے۔

انہی مذموم عزائم کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اسامہ بن لادن سے تعلق اور دیگر مسلم ممالک میں تبلیغ اور مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر کے حوالے سے ان کے بیانات اور متعدد تقریروں کو سیاق وسباق سے ہٹ کر اور کانٹ چھانٹ کر پیش کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ یہ وہی بھارتی صحافی ادارے ہیں جو ہندو فرقہ پرستوں کی مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تقاریر و بیانات پر خاموش رہتے ہیں۔

جب ہندو فرقہ پرست لیڈر مسلم عورتوں کی آبرو ریزی کی بات کرتا ہے تو تب بھی بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔جب پروین تو گڑیا مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو اس کے خلاف میڈیا میں کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی اور نہ ہی مودی سرکار ان کی بے لگام زبانوں کوبند کرنے کا حکم دیتی ہے،کیا یہی سیکولر بھارت ہے؟ اگر اسلام کی تبلیغ جرم ہے توبھگتی پروگراموں کو نشر کرنا بھی جائز نہیں۔

ان کے خلاف بھارتی میڈیا ٹرائل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کہ مودی کے دور میں مسلم دانشوروں ،مبلغوں،سکالرز پر سنگھ پریوار کے ایماء پر شکنجہ کسا جارہا ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس مذموم سلسلے کی پہلی کڑی ہے جو ایک خطرناک منصوبہ ہے ۔ اس کی ہر جانب سے مذمت کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مبلغ دین اور داعی ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کی ترویج کیلئے جدید وسائل کا سہارا لیا ہے۔

ان کا اپنا ایک اسلامی چینل ”پیس ٹی وی“کے نام سے معروف ہے لیکن اغیار کو یہ گوارا نہیں تھا کہ مسلمانوں کو مسائل کا حل دین اسلام کی روشنی میں معلوم ہو۔ اس لئے ڈاکٹر نائیک اور ان کے اسلامی چینل کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی حکومت کو کوئی موقع ہی ہاتھ نہیں آرہا تھا کہ وہ انہیں زیر عتاب لاسکے ۔اب انہیں بنگلہ دیشی حکومت کے اقدام کے بعد جواز مل گیا ہے اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ڈاکٹر ذاکر کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے بھارتی سکیورٹی ادارے سرگرم ہو گئے ہیں۔

سنگھ پریوار کی یہی کوشش ہے کہ میڈیا کے توسط سے مسلم دانشور کو اس قدر متنازعہ بنادیا جائے کہ ان کی تصویر ایک دہشت گرد جیسی ہوجائے۔ معروف بھارتی روزنامے نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ موصوف نائیک گزشتہ دودہائیوں سے اسلامی تعلیمات عام کرنے کیلئے غیر مسلموں سے مذاکرہ اور مناظرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں مقبول ہیں۔

ابھی جاپان کے حالیہ دورے میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے ذریعے جاپانی عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد کو مشرف بہ اسلام کیا۔ غیر مسلم بھائیوں کے درمیان اسلام کی حقانیت کی وضاحت کرکے انہیں حلقہ بگوش اسلام کرنا نیز اسلام کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک یکتا روز گار نظر آتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر ذاکر نائیک سے منسوب تقریروں کا تعلق ہے تو آزادی اظہار رائے کا دم بھرنے والا بھارتی متعصب میڈیا میں تسلیمہ نسرین،سلمان رشدی،سادھوی پراچی،یوگی ادتیہ ناتھ اور راج ٹھاکرے کے خلاف اس طرح کا جارحانہ اقدام کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ کسی دہشت گرد کے دعویٰ سے کہ وہ کسی شخصیت کے افکار و نظریات سے متاثر ہو کر تشدد پر آمادہ ہوا ہے، محض میڈیا ٹرائل کی روسے مجرم ثابت کرنا ہٹ دھرمی ہے۔

مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک دعوت اسلام کو عام کرنے اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے تعصب کی بنیاد پر پیدا کئے گئے شکوک و شبہات کے ازالہ ،دلائل وشواہد کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں کے خاتمہ کیلئے سرگرم عمل اور اسلام کے مقابلے میں باطل اور خود ساختہ نظریات کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں گھیرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

عصر حاضر میں کسی مسلم دانشور کے گرد دائرہ کھینچنا مطلوب ہو تو نہایت آسانی کے ساتھ اس پر دہشت گرد کو لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک انتہای گھٹیا قسم کے الزامات کی زد میں ہیں ان الزامات کا نہ سر ہے نہ پیر۔ طرہ یہ ہے کہ ان جھوٹے الزامات کو ثابت کرنے کیلئے نہ تو ڈاکٹر ذاکر کی تحریروں سے کوئی حوالہ نقل سامنے لایا گیا ہے نہ ہی ان کی تقریروں سے اور نہ ہی کسی عینی گواہ کا ذکر موجود ہے۔

دراصل بھارت کے شرانگیز میڈیا کی الجھن کا باعث یہ ہے کہ ”پیس“ٹی وی کی مقبولیت اسے ہضم نہیں ہورہی۔اگرچہ ڈاکٹر ذاکرنے اس طرح کے تمام الزامات کی تردید کی کہ وہ اپنی تبلیغ سے قتل وغارت پر کسی کو بھی نہیں اکساتے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کا ایسا کوئی بھی خطاب نہیں ہے جس میں انہوں نے کسی کی جان لینے کی بات کی ہو۔ تاہم اس وضاحت کے باوجود بھارتی شرانگیز میڈیا کا بھرپور ساتھ دینے والی بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف جو کچھ میڈیا میں ہورہا ہے اس کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور اگر ضروری ہو ا تو ڈاکٹر ذاکرکے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

مودی سرکار کے اطلاعات و نشریات کے وزیر وینکتا نائیڈو کا کہنا تھا کہ میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ذاکر نائیک کی تقاریر قابل اعتراض ہیں اور اس بارے میں تحقیقات کے بعد مناسب کاروائی کی جائے گی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا معروف ادارہ اور ان کے اسلامک ریسرچ سینٹر کا مرکزی دفتر ممبئی کے علاقے میں واقع ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ کے بیان اور بھارتی میڈیا میں مذموم مہم چلنے کے بعد مہاراشٹر کی پولیس نے اسے گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے ممبئی کے پولیس کمشنر کو احکامات دیئے ہیں کہ ذاکر نائیک کی تقاریر او ر ان کے ادارے کی فنڈنگ کی تفتیش کے بعد رپورٹ پیش کی جائے۔

ہندو فرقہ پرست بی جے پی وزیر راجہ گری سنگھ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو نام نہاد سیکولر لیڈروں کی پیداوار قرار دیتے ہوئے ایسے دشمنوں کو ملک سے باہر نکال دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارتی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے 2010ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھارت کی 100 انتہائی اہم اور موثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا جبکہ دنیا کی 500 انتہائی بااثر شخصیات کی فہرست میں بھی ان کانامتعدد مرتبہ شامل کیا جا چکا ہے۔

2015ء میں انہیں اسلامی دنیا کے نوبل پرائز سعودی عرب کی جانب سے شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا اور یونیورسٹی آف گیمبیا انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نواز چکی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ ایک بنگلہ دیشی اخبار نے بغیر کسی ثبوت کے مجھے دہشت گردوں میں شامل کردیا اور ہندوستانی میڈیا نے بغیر تحقیق کے مجھے ذمہ دار ٹھہرایا۔

۔۔ درحقیقت بنگلہ دیشی حکومت کے مودی سرکار سے گہرے روابط قائم ہیں ،یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ بھارت میں مسلم دانشوروں اور مبلغین کے خلاف محاذ کھول دیا گیا ہے جس کا پہلا نشانہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بنایا گیا ہے۔ اب آہستہ آہستہ ہندوستان میں علمائے کرام اور دینی سکالروں کونام نہاد دہشت گردی کے من گھڑت الزامات میں پھنسا دیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Dr Zakir Naik Ko Dehshatgard Qarar Dainay Ki Koshish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.