ڈونلڈ ٹرمپ اپنے گریبان میں جھانکنا پسند کریں گے؟

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ہفتے کے دوران 17 ایگزیکٹو آرڈز پر دستخط کر چکے ہیں۔ جن کے امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر وسیع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دستخط کے ساتھ ہیلتھ کیئر، امیگریشن، تیل نکالنے، اسقاط حمل، وفاقی بھرتیوں اور تجارت جیسے معاملات پر پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ جس ایگزیکٹو آرڈر نے دنیا بھر میں وسیع اثرات مرتب کئے ہیں

Zabeeh Ullah Balghan ذبیح اللہ بلگن جمعہ 3 فروری 2017

Donald Trump Apne Gareban Main Jhankna Pasand Kareen ge
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ہفتے کے دوران 17 ایگزیکٹو آرڈز پر دستخط کر چکے ہیں۔ جن کے امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر وسیع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دستخط کے ساتھ ہیلتھ کیئر، امیگریشن، تیل نکالنے، اسقاط حمل، وفاقی بھرتیوں اور تجارت جیسے معاملات پر پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔

جس ایگزیکٹو آرڈر نے دنیا بھر میں وسیع اثرات مرتب کئے ہیں وہ ہے تارکین وطن کیلئے امریکی دروازے بند کردینے کا ایگزیکٹو آرڈر،اس ٓآرڈر کے تحت تمام پناہ گزینوں کے داخلے پر چار ماہ تک کے لیے پابندی عائد ہو گی، جبکہ خاص طور پر چھ مسلم ممالک سے امریکہ آنے والوں پر بھی تین ماہ کے لیے پابندی ہو گی۔

(جاری ہے)

90 روز تک عراق، شام اور باعث تشویش علاقوں سے آنے والوں پر بھی پابندی ہوگی ان ”باعث تشویش“ممالک میں ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔

ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق مذہبی استحصال کا شکار افراد کی درخواستوں کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے گا لیکن صرف ان لوگوں کی جو اپنے ممالک میں کسی اقلیتی مذہب کا حصہ ہوں۔ اسی طرح2017 میں صرف 50 ہزار پناہ گزینوں کو داخلہ دیا جائے گا۔جمعہ کے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدرنے کہا تھا کہ پناہ کے متلاشی شامی شہریوں میں عیسائیوں کو ترجیح دی جائے گی۔

پینٹاگون میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا”میں سخت جانچ پڑتال کے نئے اقدامات کر رہا ہوں تاکہ انتہا پسند اسلامی دہشت گردوں کو امریکہ سے دور رکھا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صرف ان لوگوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دیں جو ہمارے ملک کی حمایت کریں اور دل سے ہمارے لوگوں سے پیار کریں“۔امریکی صدر کی جانب سے سات مسلمان ممالک کے شہریوں اور پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے بعد مختلف ممالک کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کو پروازوں میں سوار ہونے سے روکا گیا جن میں گرین کارڈ ہولڈرز بھی شامل تھے ۔

ترکی کے شہر استنبول کے اتاترک ائیر پورٹ کے حکام نے صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کے بعد درجنوں افراد کو استنبول سے امریکہ سفر کرنے سے روک دیا ۔ اتاترک ایئر پورٹ پر روکے جانے والے مسافروں کی تعداد 80بتائی گئی ۔تاہم بعد ازاں گرین کارڈ ہولڈر ز کو امریکہ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد امریکہ پہنچنے والے مسافروں کو مختلف ائیر پورٹس سے حراست میں لے لیا گیا جن میں سے بعض کو بعدازاں رہا کر دیا گیا ۔

امریکی صدر کے اس اقدام کے خلاف دنیا بھر سے اس فیصلے کے خلاف ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے جبکہ عالمی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس اقدام کی تائید نہیں کی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے بارے میں ادارے یو این ایچ سی آر نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ اور استحصال سے بھاگنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا رہے۔

بعد ازاں نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیاہے ۔تاہم دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک اعلی مشیرکیلیئن کانووے کا کہنا ہے کہ وفاقی جج کی جانب سے تارکین وطن اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر عائد پابندی پر عارضی طور پر عمل درآمد رکوانے کے ہنگامی آرڈر کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

کیلیئن کانووے نے فاکس نیوز سنڈے پر کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا آرڈر روکنے کا کہا نہ کہ حراست میں لینے کا، اور اس سے بہت ہی کم تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ کانووے نے مزید کہا کہ امریکی عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ چھوٹی سے رقم ہے جو ادا کرنا ہوگی۔
مظفر وارثی مرحوم نے کہا تھا
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اپنے تو گریبان میں جھانکا نہیں جاتا
ذیل میں ہم امریکہ میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ ، چائلڈ لیبر ، اغوا اور جبری مشقت جیسے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی صدر سے استدعا کر رہے ہیں کہ براہ مہربانی دنیا کی اصلاح کرنے سے قبل اپنے گھر کو ٹھیک کیجئے کیونکہ امریکہ کو آپ کی ”صلاحیتوں“ کی زیادہ ضرورت ہے ۔

ہیمر ،فنکلہر اور سیڈلاک کی رپورٹ کے مطابق ، گم شدہ، اغواء ہونے والے ، گھروں سے بھاگے ہوئے ،اور گھروں سے باہر نکالے گئے بچوں کی تعداد سے نابالغوں کی سمگلنگ کے ممکنہ اندازوں کی اضافی معلومات دستیاب ہو سکتی ہیں اور کسی حد تک یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں کتنے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے جو سمگلرز کا آسان ہدف تصور کیے جاتے ہیں ۔

اس کو ایک مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ1999میں ایک ایسا بھی تھا جب 16لاکھ 82 ہزار نو سو نوجوانوں کو گھروں سے بھاگے ہوئے یا گھروں سے نکالے گئے افراد میں شامل کیا گیا۔ان میں سے 71 فیصد کے متعلق خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ان کا جنسی استحصال کیا جا سکتا ہے۔
” فیملی اینڈ یوتھ سروسز بیورو“ کے فنڈز سے گھروں سے بھاگے ہوئے افراد پر منعقد کیے گئے ایک پروگرام میں سمگل ہونے کے خدشے سے دوچار شہریوں کے متعلق مزید اعدادو شمار سامنے آئے۔

2007 میں 50ہزار آٹھ سو نوجوانوں نے مذکورہ بیورو سے بے گھر افراد پر کیے جانے والے مختلف پروگراموں کے ذریعے سہولیات حاصل کیں۔ان نوجوانوں میں 54 فیصد عورتیں تھیں۔مزید یہ کہ خدمات فراہم کرنے والوں سے 7لاکھ 70 ہزار افراد مستفید ہوئے۔البتہ یہ بات معلوم نہیں کہ بازاروں اور گلیوں میں گھومنے والے کتنے نوجوانوں نے سہولیات کے حصول کے لیے مذکورہ اداروں سے رابطہ نہیں کیا۔

نوجوانوں کی مقامی سمگلنگ کی ضخامت کے اشارے قومی سطح پر ہونے والی نابالغوں کی گرفتاری کے اعدادو شمار سے بھی ملتے ہیں۔2003 میں ہونے والے ایک قومی سروے میں22 لاکھ20 ہزار نابالغوں کی گرفتاری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔اسی طرح امسال کاروباری بنیادوں پر جسم فروشی کے حق میں آواز بلند کرنے والے ڈیڑھ ہزار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ان میں 69 فیصد لڑکیاں اور 14 فیصد 15سال سے کم عمر بچے شامل تھے۔

نابالغوں کی گرفتاری کے اعدادو شمار کے بر عکس اس تعداد میں 1994سے لے کر 2003 تک مجموعی طور پر 31 فیصد اضافہ ہوا۔
مذکورہ بالا حوالہ جات کے علاوہ امریکہ بھر میں ہونے والی سرکاری و غیر سرکاری سروے رپورٹوں میں بلحاظ جنس الگ الگ تعداد کو ظاہر نہیں کیا گیا۔امریکہ میں کتنے لڑکے اور لڑکیاں استحصال سے دو چار ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ جنس کی بنیاد پر سروے کیا جائے تاکہ ان وجوہات اور عوامل کا سراغ لگایا جا سکے جن کے ہاتھوں نوجوان مجبور ہو کر سیکس انڈسٹری کا رخ کرتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ کے خطرے سے دوچا افراد کی صیح تعداد ،سمگل شدہ افراد کی شناخت اور سرکاری اداروں میں رجسٹرڈ نوجوانوں کی درست تعداد معلوم کرنے کا کوئی جامع نظام امریکہ میں موجود ہی نہیں۔اگرچہ جبری مشقت اور جنسی مقاصد کے لیے ایک ہی طریقے سے لوگوں کو سمگل کیا جاتا ہے تاہم جبری مشقت کی دنیا میں نابالغوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان کو بالغوں کی نسبت آسانی سے قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور یہ سستی لیبر کا کام بھی دیتے ہیں۔

نابالغ کام کی بہتر شرائط کا بہت کم مطالبہ کرتے ہیں۔ِ ’بین الاقوامی تنظیم برائے ‘لیبر کی 2002 کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ” بد قسمتی سے ہم جنسی مقاصد کی نسبت جبری مشقت کے لیے ہونے والی اندرون اور بیرون امریکہ انسانی سمگلنگ کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افریقی اور لاطینی امریکن اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں سے جبری مشقت لینے کے ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں“۔

مذکورہ بالا تنظیم کی ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت کو جنسی استحصال کے ذریعے منافع کمانے اور گھریلو ” خدمات “ کے لیے جبکہ لڑکوں کو کمرشل فارمنگ ،چھوٹے جرائم اور منشیات کی تجارت میں استحصال کے لئے سمگل کیا جاتا ہے تاہم چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار کے ایک جائزے میں امریکہ کے اندر پائی جانیوالی جبری مشقت کے لئے انسانی سمگلنگ کے متعلق قدرے گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

1999ء میں امریکی یوتھ کے ایک قومی ڈیٹا سروے میں14سے15سال کے درمیان عمر کے افراد کی سرگرمیوں کے بنیادی عوامل کوسامنے لایا گیا ۔ اس عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ریستورانوں ،لیبر مارکیٹوں اور چھوٹے درجے کی صنعتوں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں ان کا ستحصال کیا جاتا ہے۔ بچوں کی خدمات فراہم کرنے کے نجی شعبوں سے بھی ایسے لڑکوں ور لڑکیوں کی ایک بڑی تعدادوابستہ ہے۔

مذکورہ بالا دونوں رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نا بالغوں میں ملازمت کرنے کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔
”چائلڈ لیبر کولیشن“کے مطابق امریکہ میں12سے17سال کے نا بالغوں کی 55لاکھ تعداد ملازمت کرتی ہے اس ادارے کی 2007ء میں شائع ہونے والے ایک سٹوری رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ زراعت کے مختلف شعبوں میں5لاکھ کم عمرافراد کام کرتے ہیں جن کی اکثریت اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھتی ہے ۔

اسی طرح گلیوں اور بازاروں میں 50ہزار نا بالغ افراد منشیات فروخت کرنے ،بیکری اور سویٹس کی دوکانوں پر کام اور اسلحہ کے مراکز میں انتہائی کم اجرت پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔بہت سے نا بالغ امریکی شہری بازاروں میں نشہ آور اشیاء فروخت کرنے کو ایک فوری پیسے کمانے کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ وہ اس سرگرمی سے منسلک خطرات کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔

”چائلڈ لیبر کولیشن“کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فروشی میں ملوث امرکی یوتھ کو انتہائی بلند درجہ حرارت میں لمبے وقت تک کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے ان کوپینے کے پانی ،باتھ روم اور کھانے پینے کی اشیاء تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔ ان کو دو ران کام بہتری کارکردگی کا صلہ کبھی نہیں دیا جاتا بلکہ ان کو نا پسندیدہ ماحول میں صرف کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔

بعض اوقات یہ منشیات فروش دن بھر کے لئے مطلوبہ کوٹہ نہ ملنے پر بھاگ جاتے ہیں یا ان کو اپنے ”لیڈر“کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔بہت سے والدین ایسے بچوں کو لاحق خطرات سے واقف نہیں ہوتے اور ان کو یقین ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو باعزت اور قانوناً جائزہ کمپنیوں میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

2004ء میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف لیبر کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایسے 6ہزار بچوں کی نشاندہی کی گئی جو اجرت اور کام کے دورانیے کی تقسیم کے غیر معیاری اور مضر صحت ماحول میں کام کر رہے تھے یہ لیبر قوانین صریحاً خلاف ورزی تھی ۔گزشتہ برسوں کی نسبت یہ تعداد بہت کم تھی۔یہ کمی وفاقی حکومت کی طرف سے چائلڈ لیبر کے متعلق سخت قوانین کے نفاذ اور پالیسیوں کا نتیجہ تھا ۔

امریکہ نے چائلڈ لیبر کی نگرانی کرنے کے لئے آج کل 34محکمے سر گرم ہیں اور ہر ایک کو 95ہزار سے زائد محنت کشوں کے معاملات کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور ان کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔مذکورہ بالا اعدادو شمار سے لیبر سے وابستہ امریکی آبادی کے ایک بڑے حصے کو انسانی سمگلنگ کے حوالے سے درپیش خطرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مزید تحقیق سے مقامی انسانی سمگلنگ کی ضخامت کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔


اوپر بیان کردہ مختلف اندازوں اور رپورٹوں کے باوجود ،کئی وجوہات کی بناء پرامریکہ میں پائی جانیوالی مقامی اور بین الاقوامی انسانی سمگلنگ کی صحیح تعداد کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر مزید تحقیق کی جائے تو مقامی انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد میں کئی لاکھ کی تعداد میں اضافہ سامنے آ سکتا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔

مثلاً یہ جرم دیگر کئی جرائم میں چھپا ہوا ہے،اس جرم کے شکار افراد کے ڈیٹا کی نوعیت ،مقبول عام ،اندازے اور انسانی سمگلنگ کی جغرافیائی صورتحال اس کی درست تعداد معلوم کرنے میں اہم رکاوٹ ہے۔اسی طرح دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سمگلنگ کے شکار افراد کا اپنے ایجنٹ کے کنٹرول میں رہنا اور ان کے پاس امیگریشن کے دستاویزات کی کمی سرکاری اہلکاروں سے ایسے افراد کو نظروں سے اوجھل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جو صحیح تعداد میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔یہ عوامل انسانی سمگلنگ کے جرم کی نشاندہی اور اس کے خاتمے میں اہم رکاوٹ ہے۔مذکورہ بالا عوامل میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب دستیاب اعدادو شمار اور جنسی استحصال کے لئے سمگل شدہ عورتوں اور بچوں کے متعلق غلط معلومات کو بلا جانچ پڑتال کے تسلیم کر لیا جاتا ہے اس الجھن کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خدمات فراہم کرنیوالی تنظیموں کے درمیان ”سمگلنگ کے شکار افراد“کے متعلق تاریخ اور یقین پر پائے جانے والے اختلاف نے مزید گھمبیر کرر کھا ہے۔

کلاوسن(2006)کے ایک جائزے میں مذکور ہے کہ ان چیلنجوں کے باوجود انسانی سمگلنگ کے متعلق اپنائے گئے طریقہ ہائے کار اور اعدادو شمار کو کارآمد بنانے اور اس پر انحصار کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔امریکہ میں اس مقصد کے لئے کئی ریاستوں میں نا بالغوں کے جنسی استحصال کے متعلق صحیح معلومات کا نیا رپورٹنگ نظام اور عوامی آگاہی کا جامع پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جس سے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔

مثلاً سوفوک کے ضلع میں 2003ء میں صرف آدھی درجن ایسے بچوں کی نشاندہی کی گئی جن کا جنسی استحصال ہو رہا تھا لیکن نئے نظام کے ذریعے 2005ء میں ایسے بچوں کی تعداد 5درجن سے زائد نظر سامنے آئی ان میں 59لڑکیاں تھیں لہٰذا قدرے ٹھوس اور با اعتماد معلومات کا حصول ،وفاقی ،ریاستی اور مقامی حکومتوں کے مناسب وسائل کے ترسیل اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام ،سمگلرز کے خلاف عدالتی کارروائی اور اس جرم کے شکار افراد کے تحفظ کے لئے اپنائی گئی پالیسیوں اور پروگرامز میں کلیدی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔


سمگلنگ کے شکار افراد کو ہیں؟
تمام دستیاب زرائع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا شکار ایسی جوان معصوم لڑکیاں ہوتی ہیں جن کو ان کے آبائی ممالک سے ورغلاء کر لایا جاتا ہے اور ان کو جبراً امریکہ کی سیکس انڈسٹری میں بھیج دیا جاتا ہے۔محض لڑکیوں کو نہیں بلکہ ہر عمر کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو جبری مشقت اور جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔

سمگلنگ کے شکار افراد میں بیرون ملک سے سمگل کیے گئے یا پہلے سے امریکہ میں مقیم تارکین وطن شامل ہو سکتے ہیں۔اس سے قبل ان لاکھوں افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو ہر وقت سمگلنگ کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں ۔ ذیل میں ان عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانوں کے سمگل ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔یہ مندرجہ ذیل ہیں۔(ا) عمر کا ایک خاص حصہ، (ب) غربت یا مالی مشکلات،(ج)جنسی ناہمواری، (د)بیروز گاری،(س)جنسی بدسلوکی،(ص)صحت کے مسائل،(ظ) انتظامی و سیاسی بداعنوانی اور(ظ) جرائم کی بلند سطح۔


بلاتفریق عمر، جنس،ایمیگریشن مرتبے یا شہریت کے جبری مشقت اور جنسی مقاصدکے لیے سمگلنگ کے شکار افراد میں کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔جیسے سمگل کرتے وقت جبر،دھوکے اور طاقت کا استعمال وغیرھ ہیں۔سمگلرز ایسے افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں جو بنیادی ضرو ریات زندگی کے حصول کے لیے جدو جہد میں مصروف رہتے ہیں۔سمگلرز اپنے شکار کے لیے ایسے معاشروں اور طبقات کا انتخاب کرتے ہیں جہاں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

کچھ ممالک سے سیاحت کے فروغ کے نام پر اور کچھ سے سستی لیبر اور غیر محفوظ کام کے لیے عورتوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مقامی اوربین الاقوامی سطح پر سمگلنگ کے سکار افراد دیگر خصوصیات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں۔جو ان کو سمگل ہونے کے خطرات سے دوچار کردیتا ہے۔ ان میں جوانی کی عمر غربت محدود تعلیم روزگار کے مواقع کی کمی خاندان کی طرف سے کسی امداد کا نہ ملنا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

جنسی بدسلوکی کی تاریخ صحت مند سوچ کا فقدان اور پرخطرعلاقوں میں رہائش بھی مزکورہ عوام میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ بین الاقوامی سمگلنگ کیشکار افراد داخلی خلفشار جس میں خانہ جنگی اور معاشی بحران شامل ہوتا ہے۔سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد غریب ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں یہ جرم آمدن کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔

سمگلرز ایشیائی غریب مشرقی یورپین افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے غیر یقینی حالات کا فائدہ اٹھا کر روزگار کی پیشکش کرتے ہیں۔ اور عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور امتیازی سلوک کی بنا پر سادہ لوح لوگوں کو بلیکمیل کرتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کے جرم میں اس وقت مذہبی اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب مذکورہ بالاعلاقوں کے ممالک سیاسی ابتری حکومتی کرپشن اور مسلح کشمکش میں مبتلا ہوں۔

کیوں کہ بہت سے لوگ ان حالات سے خوفزدہ ہو کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔2006کی کانگرس کی سالانہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ انسانی سمگلنگ کے شکار افراد زیادہ گنجان آباد ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثًلا امریکہ میں ای سلواڈور کے 28 فیصد جبکہ میکسیکو کے 20 فیصد افراد اس جرم کے شکار افراد میں شامل ہیں۔
مقامی جبری مشقت اور انسانی سمگلنگ
23 ستمبر 2006 کے نیپال ڈیلی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکہ میں جبری مشقت کو یوں بیان کیاگیا۔

میامی ٹامپا ارلینڈو اور نیو اورلینباز کے بشمول جنوب مشرق کے تمام پناہ گھروں سے لیبرکیمپوں کے مالکان منشیات کے عادی بے گھرافربقن امریک افراد کو 50امریکی ڈالرفی ہفتہ کے غوض رہائش اور خوراک کے وعدے پر کیمپوں میں کام کرنے کے لیے بھرتی کرتے ہیں ۔ کیمپوں کے یہ مالکان ان ورکرز کو ئاڑیوں میں بھر کر شمالی فلوریڈااور شمالی کیرولینا کے الگ تھلگ کیمپوں میں لے جاتے ہیں۔

کیمپوں میں ان ورکرز کو کوکین دی جاتی ہے۔ اس نشہ آور کوکین کی قیمت ان کی تنخواؤں سے ماہانہ کاٹی جاتی ہے۔ ہر شام مالکان ورکرز کو کیمپ کے کمپنی سٹور سے ٹیکس فری جنسی تحریک پیدا کرنے والی بیثر کوکین اور سیگریٹ خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ اشیا خریدنے والے ورکرز ہمیشہ مالکان کے مقروض رہتے ہیں۔ اشیا کی قیمت وصول کرنے کے بعد اوسطًا ہر ورکر کوایک ڈالر میں میں سے 30 سینٹ ملتے ہیں۔

2005میں وفاقی حکومت کے ایک چھاپے میں اس صورتحال کا انکشاف ہوا کہ یہ کیمپ کتنی آسانی سے شمالی فلوریڈا پر امریکی شہریوں کا استعمال کر رہے تھے۔ سمگلرز اپنے شکار افراد کو ملازمت کے بہتر مواقع کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے امریکی ممالک کی طرح منزل کے آسودہ اور خوشحال مملک میں پہنچانے کے لئے انتظار میں رہتے ہیں۔امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا استحصال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔

جیساکہ پہلے بیان کیا گیا کہ امریکہ میں بے گھر خطر سے دوچار ورکرز کو بھرتی کر کے دور دراز کیمپوں میں لے جا کر ان کا استحصال کیا جاتاہے۔ ان کے ساتھ انتہائی بد سلوکی کا مظاہرہ کیاجاتاہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبر تحریک میں ایک فارم ورکر اور ایک ملازم کے درمیان طاقت کے فرق سے ایسی صورتحال جنم لیتی ہے۔جو بلا تفریق امیگریشن مرتبے کے استحصال میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔


جنسی مقاصد کے لئے مقامی نا بالغ افراد کی سمگلنگ
امریکی بچوں سمیت نا بالغ ،خطرے سے دوچار افرادمیں تعدادکے لحاظ سے سب سے زیادہ ہیں۔”جنسی مقاصدکے لئے مقامی سمگلنگ کے شکار افراد کون ہیں؟“اس سوال کے جواب میں کارآمد معلومات نا بالغوں کوبھرتی کرنیوالوں سے دستیاب ہوتی ہیں جو بالغ افراداور جسم فروشی کے ذریعے کم سنوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔

امریکہ میں ہر روزنا بالغ افراد کو دھوکے ،جبر اور طاقت کے ذریعے جسم فروشی میں اتارا جارہاہے۔اس شعبے میں آنے والی لڑکیوں کی اوسط عمر 12سے14سال بتائی جاتی ہے لیکن ضلعی سطح پر خدمات فراہم کرنے والوں کا کہناہے کہ اس سے بھی کم عمر لڑکیاں سیکس انڈسٹری میں داخل ہورہی ہیں۔لڑکیوں کے برعکس لڑکوں کی عمر 11سے13سال بتائی جاتی ہیں۔ماہرین کا کہناہے کہ مندرجہ ذیل عوای نا بالغوں کے جسم فروشی میں مبتلا ہونے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔

مثلاً کم عمری ،غربت اور جنسی بد سلوکی کے علاوہ گھریلو تشدد،والدین کا نہ ہونا اور امدادکے پروگرام کی عدم موجودگی بھی کم سنوں کے اس شعبے میںآ نے کے اہم عوامل ہیں۔گھروں سے بھاگے ہوئے یا بے گھر نوجوان بھی اہر وقت سمگلنگ کے خطرے سے دو چار رہتے ہیں جن کو آسانی سے جسم فروشی میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔اس ایشو پر تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں غربت ہی وہ بنیادی عامل ہے جس کی وجہ سے دنیا کے قحبہ خانے آبادہیں۔

امریکہ میں سفیدفام اور سیاہ فام باشندوں سمیت دنیا کی ہر نسل کے افراد جسم فروشی میں ملوث پائے گئے ہیں۔اگرچہ گھریلوتشدد اور بچپن میں جنسی بد سلوکی سے دو چار ہونے والی لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد امریکی سیکس انڈسٹری میں شامل ہے لیکن وہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے مالی مشکلات کا شکارتھیں۔سماجی خدمات فراہم ،قانون نافذ کرنیوالے اور انسداد سمگلنگ کی تحریکوں میں کام کرنیوالوں کا موقف ہے کہ غربت اور انسانی سمگلنگ بہت سے حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

ان میں بھی کم آمدنی کی حاصل لڑکیاں سمگل ہونے کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔امریکہ میں جسم فروش عورتوں کی 33سے 84فیصد تعداد ایسی ہے جن کے ساتھ بچپن میں ایک سے زیادہ بار کئی افرادنے جنسی زیادتی کی ۔مثلاًبوسٹن میں120عورتوں کے انٹرویو کئے گئے ۔ان میں سے 68فیصدکے ساتھ 12سال سے پہلے جنسی عمل کیاگیا ۔ ان کی اکثریت سکول میں پڑھنے والی لڑکیوں یا گھروں سے بھاگی ہوئی کی تھی۔


گھروں سے بھاگے ہوئے اور بے گھر امریکی شہری
امریکہ میں اندرون ملک انسانی سمگلنگ میں مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان افرادکی ہے جو کم عمری میں گھروں سے نکالے ہوئے یا بے گھر ہوتے ہیں۔’فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن‘ (ایف بی آئی)کی ایک رپورٹ (2006) کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امریکہ سے 18سے کم عمر 50 ہزار لڑکیوں اور 40 ہزار لڑکوں کو تحویل میں لیا جو گھروں سے بھاگے ہوئے تھے ۔

گھروں یا بحالی کے مراکز سے بھاگی ہوئی لڑکیاں جلد ہی سمگلرز یا قبحہ خانوں کے دلالوں کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔انسانی سمگلنگ اور استحصال پر امریکہ میں ہونے والی تقریباً تمام تحقیقات میں گھروں سے بھاگنے اور جنسی استحصال کے باہمی تعلق کو متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔مثلاً فرانسسکو میں 96فیصد، بوسٹن میں72 فیصد اورشکاگو میں 56 فیصد ایسی عورتوں کی شناخت کی گئی جو گھروں سے بھاگ کر جسم فروشی میں ملوث ہوئی تھیں۔

سنگ (seng) کی ایک رپورٹ میں یہ تعداد 77 فیصد ظاہر کی گئی ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھر سے بھاگنے کے بعد48 گھنٹے کے اندر ایسے نوجوان سمگلرز یا دلالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔لڑکیوں کی طرح لڑکوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔ ایک سٹڈی رپورٹ میں ایسے لڑکوں کی دو تہائی تعداد کا حوالہ دیا گیا ہے جو گھروں سے نکلنے سے قبل جسم فروشی میں ملوث تھے۔

” سیتل کیمشن برائے چلڈرن اینڈ یوتھ “کے ایک تحقیقی کام میں ایسے بچوں کی تعداد 50 فیصد ظاہرکی گئی ہے جن کو جنسی بے راہروی کی پاداش میں گھروں سے باہر نکالا گیا۔
امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ان کی 35 فیصد تعداد گھروں سے بھاگے ہوئے افراد پر مشتمل ہے۔لڑکوں میں پائی جانے والی جنسی بے راہ روی سے قطع نظر جسم فروشی میں ملوث بالغ افراد کی 95 فیصد تعداد لڑکوں میں دل چسپی لیتی ہے۔

بلا تفریق جنس، جب نابالغ اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں تو وہ بازاروں اور گلیوں کو گھروں کی نسبت کم خطرناک محسوس کرتے ہیں۔ ایک دفعہ بے گھر ہونے یا گلی میں آنے پر نوجوانوں کو آسانی سے ورغلایا جا سکتا ہے ۔ایسے حالات میں وہ کسی کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ زندگی گذارنے کے ہنر یا تجربے سے واقف ہوتے ہیں ۔وہ بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے دوسروں کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔

یہی محتاجی ان کو جرائم کی دنیا میں لے جاتی ہے اور ان کے استحصال کا سبب بنتی ہے۔امریکہ کے شہری علاقوں کی سکیس انڈسٹری میں ایسے نابالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا استحصال حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ امریکہ میں طرز زندگی نوجوانوں کو خطرات میں ڈالنے میں خو د اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اب چونکہ جسم فروشی شہری حدود سے باہر نکل رہی ہے اس لیے دیہی یا مضافاتی علاقوں سے شہروں میں بچوں کو سمگل کرنے کا رجحان کم ہو رہا ہے ۔

لیکن بچوں کے جنسی یا جسمانی استحصال میں اضافہ امریکی معاشرے میں پائے جانے والے خاندانی نظام اور شخصی آذادیوں کا نتیجہ قراردیا جاتا ہے ۔ لہذا مقامی قوانین اور ثقافتی قدریں اپنے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں نا کام ہو چکی ہیں۔ بچوں پر والدین ، خاندا ن یا سرپرستوں کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ قانون معاشرتی کے بجائے ریاستی معاملات کی نگرانی کرنا ہے۔

قانون کسی عمل کے سرذد ہونے سے قبل حرکت میں نہیں آتا جبکہ نوجوانوں کو شباب کی عمر میں داخل ہونے سے قبل بہت سے معاملات سے آشنائی ضرور ی ہوتی ہے۔ امریکہ میں سمگلنگ کے شکار کی شناخت جرم کے پوشیدہ نوعیت کی وجہ سے ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ امریکی معاشرے کے کئی اہم طبقات سمگلنگ کے شکار افراد کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور ان سے ”خدمات “حاصل کرتے ہیں۔

جس طرح مقامی تشدد اور جنسی زیادتی کے شکار افرا د زخم خوردہ ہوتے ہیں اسی طرح کے زخم سمگلنگ کے شکار افرادکو لگنے کا خطرہ ہر وقت مو جو د ہوتا ہے۔ان کی ایک بڑی تعداد تیزی کے ساتھ حاملہ ہو رہی ہے اور متعدد بیماریوں کا شکار ہے۔ ان کو ابتدائی طبی امدا د دینے والے عملے کا انتہائی تربیت یا فتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کا باصلاحیت ہونا بھی ضروری ہے جو سمگلنگ کے شکار افراد کی شناخت کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Donald Trump Apne Gareban Main Jhankna Pasand Kareen ge is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.