دہلی میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی!

ہندو فرقہ پرست حکومت کا ایک اور اسلام مخالف فیصلہ نصابی کتاب میں پروپیگنڈہ، آذان کی آواز کو صوتی آلودگی کو بڑا سبب قراردے دیا

بدھ 4 اکتوبر 2017

Dehli Me Loud Speakr Pr Azzan Dyny Ki pabndi
رابعہ عظمت:
بھارتی دارلحکومت دہلی کا شمار دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے لیکن اسی شہر کو آلودگی سے پاک کرنے کے بجائے مسلم دشمن مودی سرکار کے ایماء پر ایک نیا نادر شاہی حکم جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت دہلی کی مساجد کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ اذان کے وقت ان سے بلند ہونے والی آواز کی محفوظ حدود سے کم یا زیادہ ہونے کا فیصلہ کیا جاسکے اور اگر سرکاری حکام کو مسجدوں سے اذان کا شور محسوس ہوا تو دہلی کی مساجد سے لاؤڈ سپیکر اتار لئے جائیں گے یا ان کی تعداد کم کردی جائے گی۔

یہ حکم نامہ بھارتی حکومت کے ماتحت ماحولیاتی عدالت نیشنل گرین ٹربیونل نے جاری کیا ہے۔ جس میں دہلی کی شہری حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ مشرقی دہلی میں مسجدوں سے اذان کے وقت ہونے والے ”شور“ کا جائزہ لے کیونکہ یہاں رہنے والوں کی بڑی تعداد نے شکایت کی ہے۔

(جاری ہے)

این جی ٹی نے یہ حکم ”اکھنڈ بھارت مورچہ“ نامی ہندو انتہا پسند تنظیم کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی دہلی میں مساجد سے اذان کے وقت بہت شور ہوتا ہے جس سے وہاں رہنے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اکھنڈ بھارت مورچہ ان لوگوں کی شکایات لے کر ماحولیاتی تحفظ کی عدالت میں پیش ہوئی تھی ۔ اس درخواست کے جواب میں مختلف مساجد کی جانب سے وکیلوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ اذان کیلئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہوتا ہے لیلکن ان کی آواز محفوظ حدود کے اند ر ہی رہتی ہے اور ان کا ارادہ لوگوں کو پریشان کرنا یا شور کی آلودگی پھیلانا ہرگز نہیں ہوتا۔ ماحولیاتی تفتیش کے دوران اگر کوئی مسجد زیادہ شور کی مرتکب ہائی گئی تو بھارت میں 1986ء کے ماحولیاتی قانون اور 2000 ء میں شور کی آلودگی اور اس پر کنٹرول سے متعلق منظور شدہ قوانین کی روشنی میں کاروائی کی جائے گی جس میں لاؤڈ سپیکر ہٹانے سے لے کر مسجد انتظامیہ پر جرمانے اور دیگر سزائیں بھی شامل ہیں قبل ازیں اذان فجر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ہندو انتہا پسند تنظیموں راشٹریہ ہندو اندولن، جناجا گروتی، بھارت کر انتی سینا بے بھارتی شہر مینگور میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا ۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے کہ جب تک اذان فجر پر پابندی نہیں لگائی جاتی وہ اپنی اس تحریک کو جاری رکھیں گے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم سناتن سنستھا کی لیڈر وجے لکشمی نے کہا کہ بھارت میں سبھی مذاہب کو آزادی دی گئی ہے لیکن کسی ایک خاص مذہب کے لوگ اگر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس سے تکلیف ہوگی۔

ہندوجن جاگرتی سمیتیکے لیڈر نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ سکون کے ساتھ نیند کرنا ہرفرد کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے فجر کی اذان پر پابندی لگائی جائے کیونکہ مسلمان صوتی آلودگی پیدا کررہے ہیں لہٰذا جولوگ فجر کی اذان کیلئے لاؤڈ سپیکر استعمال کرتے انہیں گرفتار کرکے سزادی جائے ۔ این جی اوکھنڈ بھارت نے عدالت میں دائر درخواست میں یہ موقف اپنایا ہے کہ مساجد انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 1988 ء کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہیں کچھ عرصہ قبل بھارتی گلوگار سونو نگم نے اپنے ٹویٹر میں اذان کی آواز کو شور قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں مسلمان نہیں ہوں پھر مجھے صبح کیوں جگادیا جاتا ہے۔


God bless every one I,m not a Muslim and I have to be woken up by the Azaan in the morning. When will this forceed oceligious ness and in india sonu Nigam@Sonunigam.
گلوکار کا کہناتھا کہ مسلمانوں کی طرف سے اذان کے ذریعے ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ سونو نے تمام حدیں عبور کرتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو غنڈہ گردی سے بھی جوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ، وہی بھارتی انتہا پسندوں کو مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی نئی وجہ فراہم کردی۔

ایک صارف نے سونونگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک ہندو ہوں اور ایسی پریشانی کا سامنا غیر ہندوؤں کو بھی کرنا پڑتا ہے جب ہم نور اتری اور گنیش جی کا جلوس نکالتے ہوئے لاؤڈ سپیکر کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، دوسری جانب بھارت میں آج تک کسی مسلمان کی طرف سے مندروں میں کی جانے والی عبادت کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی مسلمان نے یہ کہا کہ صبح سویرے مندروں کی گھنٹی سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس پر پابندی لگانی چاہیے جبکہ کونسل فاری انڈین سکول سرٹیفیکٹ ایگزا مینشز (سی آئی ایس ای)کے ماتحت سکولوں میں چھٹی جماعت کے طلبہ کو پڑھائی جانے والی سائنس کی ایک کتاب میں بھی اذان کو صوتی آلودگی کا سبب بتایا گیا۔

کتاب میں طلبہ کا ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تصویر می نرین، کار، ہوائی جہاز اور ایک مسجد سمیت ایک شخص کو دکھا یا گیا ہے جو تمام چیزوں سے اٹھنے والے شور کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں کو بند کرلیتا ہے ۔ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ جہاز،ریل گاڑی ، کار اور مسجد سے شور شرابے کی لہریں اٹھ رہی ہیں جو صوفی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں اس کتاب کو ہیمنت گپتا کے پبلشرز ہاؤس سنیانے شائع کیا تھا۔

اس کتاب کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ سوشل میڈیا پر بھر پور تنقید کے بعد کتاب کے پبلشرز نے معذرت کرلی مگر حکومت اور متعلقہ سرکاری ادارے کی جانب سے پبلشرز کے خلاف کوئی کارائی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ سی آئی ایس ای ادارہ 1952 ء میں بنایا گیا تھا، اس کے پہلے چیئرمین مولانا عبدالکلام آزاد تھے، دراصل ہندوستان میں اکثریتی طبقے میں اس قدر زہر بھر دیا گیا ہے ۔

اگر ان میں سے کوئی مسلمان یا اسلام کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی بولتا ہے تو اسے ہیرو بنادیا جاتا ہے۔ اکثریت طبقہ بغیر عقل ودانش کا استعمال کئے بغیر اس شخص کے پیچھے اندھی بھیڑ میں چلنے لگتا ہے جس نے اسلامی روایت کے خلاف بات کی جیسا کہ سونو نگم نے جب اذان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا تو سوشل میڈیا پر کئی اس کے فن میں سامنے آئے اور انہوں نے اذان کی آواز کو صوتی آلودگی کی وجہ قراردیدی۔

حیرت ہے ہندوستان جیسے ہندو ملک جہاں چوبیس گھنٹے مندر کی گھنٹیاں اور سنکھ بجاتے جاتے ہیں ۔ ایسی آوازیں سننے والوں کو اذان کی آواز گراں گزرتی ہے۔ بلاشبہ بی جے پی کی درخواست میں ہندوفرقہ پرستی کا عفریت بڑھتا جارہا ہے اور اس کا ہدف مسلمان اور اسلام ہے۔ اسلامی شعائر پر پابندی بھگوا حکومت کا اصل مشن ہے ۔ طلاق ثلاثہ کو نشانہ بنایا گیا ہے یکساں سول کو مسلمانوں پر تھو پنے کی کوشش جاری ہے اور اب اذاندینے پر پابندی کی بات کی جارہی ہے کل مسلمانوں کی نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

جبکہ مسجدوں کو تالے لگادیئے جائیں گے۔ یہ سب سیکولر ملک میں ہورہا ہے جو پوری دنیا میں حقوق انسانی کے علمبردار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا نظر آتا ہے ۔ بی جے پی نے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کلچرل فاشرمکی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے تحت کٹر ہندوتنظیموں کی بن ٓئی ہے اور وہ پرامن بھارت کی تہذیب کو ہندوستان کی اقلیتوں پر مسلط کرنے کی اپنی سی کوشش کررہی ہیں۔

یہ کام سرکاری سطح پر کیا جارہا ہے۔جیسے سڑکوں کا نام تبدیل کرنا اور اس کے لئے ہندو تنظیمیں میدان میں کود پڑی ہیں۔ پچھلے دنوں راجستھان اور اتر پردیش میں نصابی کتابوں میں تبدیلی کرکے تاریخ کو مسخ کردیا ۔ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں رانا پرتاب کو اکبر بادشاہ کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی ۔ اس ہزیمت کو جیت میں بدل دیا گیا۔ اس ․․․ کی لہر نے عدم رواداری کی فضا قائم کردی ہے ۔

گائے ذبح پر مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ لوجہاد کے نام پر مسلمان نوجوانوں کا مستقبل تباہ وبرباد کیا جا رہا ہے۔ بیٹی بچاؤ بہولاؤ مذموم مہم کے محت مسلمان لڑکی کو ورغلا کر ہندو لڑکے سے شادی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ سب اس دیش میں ہورہا ہے جسے ہندو گنگا جمنا تہذیب کا اعلیٰ مرکز قراردیتے ہیں۔ اب یہاں مسلمانوں کا خون اس قدر ازاں ہوچکا ہے کہ ہر جگہ مسلمانوں کے جان ومال عزت وآبرو خطرے میں ہے اور مسلسل ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Dehli Me Loud Speakr Pr Azzan Dyny Ki pabndi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.