”داعش کے بچے“

نصاب میں شدت پسندانہ نظریات کا غلبہ باعث تشویش!

پیر 25 ستمبر 2017

Daish K Bachy
راؤ محمد شاہد اقبال:
یہ تین سال پہلے کی بات ہے، اس وقت میری عمر نو سال تھی، گاؤں میں داعش کے قابض ہونے کے بعد میرا اسکول میں آج پہلا دن تھا۔ اسکول کا منظر نامہ کچھ بدلابدلا محسوس ہورہا تھا ۔ یہ وہ سکول نہیں تھا جہاں میں پہلے آیا کرتا تھا۔ استاد وہی تھے مگر ان کی وضع قطع بدل چکی تھی، آنکھوں میں اپنائیت کی بجائے ایک انجانا سے خوف دکھائی دے رہا تھا جسے سمجھنا اس وقت میرے لئے آسان نہیں تھا سکول کے اسمبلی ہال میں ہمیں سب سے پہلے داعش کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا جس کا لب لباب جو مجھے سمجھ آیا تھا وہ یہ تھا کہ” اس وقت پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات اور فکرو عمل کی اصل نمائندہ صرف داعش ہی ہے“ اور یوں اُس دن ہماری ایک نئی طرز کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں ہمیں سمجھایا جاتا کہ ”داعش یا اس کی فکر کا مخالف جوکوئی بھی ہو اُسے مارنا کسی بھی مسلمان کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں اس لئے جو اسلام سے محبت کرنے والا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

“ ہمیں دوران تعلیم بہت سے ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جاتی مگر سب سے اچھا سے اچھا مجھے اپنے اس نئے سکول کی تعلیم کا وہ حصہ لگتا جب ہمیں فلمیں دکھائی جاتی تھیں یہ کوئی عام فلمیں نہیں تھیں، یہ حقیقی فلمیں تھیں جن میں داعش کے سپاہیوں کو لڑتے ہوئے اور دشمن کو سخت سے سخت موت مارتے ہوئے دکھایا جاتا تھا، سب بچوں کو یہ فلمیں دیکھ کر اس لئے بھی مزہ آتا تھا کہ ہم میں سے کسی نے بھی اس سے پہلے ایسے مناظر والی فلمیں نہیں دیکھی تھیں۔

فلم کے اختتام پر ہم سے ہمارے استاد فلم کے متعلق مختلف قسم کے سوالات بھی کرتے جن کے درسے جواب دینے والے بچوں کا انتہائی خوبصورت انعام دیئے جاتے ، کچھ انعام کا لالچ اور کچھ فلم سے رغبت۔۔۔۔ ہمیں اس بات پر مجبور کرتی کہ ہم فلم کے ایک ایک منظر کو انتہائی انہماک اور دلچسپی سے دیکھیں ، میں نے پہلے کافر کا قتل اپنے استاد کے کہنے پر ہی کیا تھا، حالانکہ وہ کافر کہنے کو ایک شامی مسلمان ہی تھا مگر ہمیں اُس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ چونکہ یہ داعش کا دشمن ہے اس لئے اسے قتل کرنا ایک اہم اور قومی فریضہ ہے، ہر دس یا پندرہ دن بعد کسی نہ کسی شخص کو ہمارے سکوم میں قیدی بنا کر لایا جاتا تھا جہاں ہم میں سے بڑے بچوں وک جو زیادہ بہادر اور نڈر ہوتے تھے ان کے سامنے یا ان کے ذریعے سے اسے قتل کردیا جاتا تھا، ہماری تعلیم کا وہ حصہ تھا جس سے سرخرو ہونے کے بعد ہمیں اگلے درجے میں ترقی دے دی جاتی تھی اور پھر ہمیں داعش کے ہر اول دستے کا سپاہی بننے کا اہل بھی سمجھ لیا جاتا تھا، آپ میری عمر پر نہ جانا میں اب تک گیارہ لوگوں کو قتل کرچکا ہوں“ یہ کہانی محمد صالح کی ہے اس نے ترکی کے جنوبی دیہات ریہانلی میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپ میں ایک صحافی کو سنائی، مگر یہ صرف ایک محمد صالح کی کہانی نہیں بلکہ اس کیمپ میں موجود ہر بچے کی داستان کم وبیش اس سے ملتی جلتی ہی ہے جنہوں نے داعش کے زیر انتظام اسکولوں میں کئی کئی سال تعلیم حاصل کی۔

محمد صالح اس وقت بارہ سال کا اور اسے داعش کے سکول کو چھوڑے ہوئے نو مہینے ہوچکے ہیں مگر وہ آج بھی داعش اور اس کے جنگجوؤں کو پسند کرتا ہے جس کے بارے لزبتھ وین درہیدی کا کہنا ہے کہ” محمد صالح یا اس جیسے دیگر بچوں کو داعش کے تشدد آمیز خیالات سے چھٹکارے کے لئے ابھی مزید وقت لگے گا کیونکہ دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے کہ جس میں داخل کی جانے والی معلومات کو صرف ایک بٹن دبانے سے مٹادیا جائے“۔

لزبتھ وین درہیدی کا مزید کہنا ہے کہ ”داعش کے پاس ایسے بہت سے وسائل اور مواقع ہیں کہ جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے زیر انتظام علاقوں میں رہائش پذید بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دے سکے۔داعش حقیقی معنوں میں ایک ریاست چلا رہی ہے جہاں وہ شہریوں کو تعلیم ، صحت کی بنیادی سہولیات اور قانونی امداد جیسی بنیادی ضروریات فراہم کررہی ہے۔

جس کی وجہ سے داعش کے لئے یہ ایک آسان کام ہے۔ کہ وہ بچوں کی ذہن سازی کرکے اُنہیں اپنے لئے استعمال کرلے اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کی وجہ سے دنیا بھر کے بچے اور نوجوان اُن کے نشانے پر آگئے ہیں“۔ داعش نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں قائم سکولوں کے اساتذہ کیلئے بھی لازمی تربیتی کورس ترتیب دیا ہوا ہے جس میں انہیں سکھایا جاتا ہے کہ بچوں کو کیا پڑھانا اور کس طرح پڑھانا ہے، بہت سے نصابی کورس جن میں پہلے تاریخ اور ادب شامل تھے، انہیں نصاب سے خارج کردیا گیا ہے جبکہ حساب،عربی اور اسلامی تاریخ کے مضمون کوگوکہ برقرار رکھا گیا ہے مگر داعش کی طے کردہ نصابی ترجیحات کے مطابق تمام سکولوں میں صرف داعش کی طرف سے چھپائی کردہ نصاب اور درسی کتب ہی فراہم کی جارہی ہیں۔

داعش کی طرف سے فراہم کردہ اساتذکے لئے تربیتی نصاب ہو یا بچوں کے لئے درسی کتب سب میں صرف اور صرف شدت پسند نظریات کی ہی تکرار ہے جس میں جگہ جگہ ایک ہی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ داعش مخالف ہر شخص کو قتل کرنا عین قومی وملی فریضہ ہے ، حد تو یہ ہے کہ بچوں کو حساب میں ایک سیب جمع دو سیب برابر تین سیب کے بجائے یہ پڑھایا جاتا ہے ایک گولی جمع دو گولی برابر ہے تین گولیوں کے ۔

درسی کتب اور نصاب میں شدت پسندانا نظریات کا یہ غلبہ بچوں کے والدین کے لئے بھی سخت تشویش کا باعث ہے۔ بچوں کے ذہنوں پر کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ایک اور ہتھیار جسے درسی نصاب میں بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ فلمیں ہیں جن میں داعش میں داعش کے جنگجوؤں کو ”سپر ہیرو“ یعنی مافوق الفطرت ہستیوں کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے، ان فلموں میں مختلف النوع طریقوں سے لوگوں کو قتل کرنا اور قتل کرنے کے بعد ان کی نعشوں اور اعضاء کی بے حرمتی کرنے کے نت نئے انداز دکھائے جاتے ہیں ، یہ فلمیں نہ صرف اسکولوں میں دکھائی جاتی ہیں بلکہ بچوں کو آئی فون،آئی پیڈ اور میموری کارڈ کی شکل میں بھی بطور تحفہ فراہم کی جاتی ہیں اور بچے ان تحائف اور فلموں کو پسند کرتے ہیں، جب کم عمر بچے داعش کے جنگجوؤں کا پرتعیش طرزِ زندگی دیکھتے ہیں کہ وہ گاڑی، روپیہ پیسہ اور طاقت کا کس طرح بے دریغ استعمال کررہے ہیں ، اس سے ان کے ذہنوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان جیسا بنیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ 2014ء سے اب تک صرف ایک شہر ”دری زور“ سے ایک ہزار سے زائد بچوں کا داعش میں باقاعدہ بھرتی ہونے کا انکشاف ہوا ہے ان بچوں کو داعش چوری ،منشیات، اسمگلنگ، اغوا، اور خودکش حملوں سمیت دیگر مہلک کاروائیوں میں استعمال کرتی ہے اس کے علاوہ ان بچوں کو دیگر ہم جماعت اور ہم عمر بچوں کو داعش میں شمولیت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

دیمان محمد بائذ نامی ایک خاتون داعش کی تعلیمات اور نظریات سے متاثرہ بچوں کے لئے ایک ادارہ چلاتی ہیں جس میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے بھاگ کر داعش کے زیر انتظام شہروں سے ملحقہ ممالک کی سرحدوں سے گرفتار ہوکر شامی مہاجرین کے کیمپوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیمان محمد بائذ بیان کرتی ہیں کہ” جب میں نے پہلی مرتبہ ان بچوں کو دیکھا تومیں ڈرگئی تھی ، بکھرے بال،داعش جنگجوؤں کی مخصوص وردی زیب تب کئے ہوئے، زرد چہرے کے حامل یہ بچے۔

۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ قابل رحم ہیں یا قابل نفرت ،جب میں ان بچوں کے چہرے دیکھتی تو مجھے ان پر ترس آتا اور جب میں ان کارنامے یا جرائم ان کے منہ سے سنتی تو مجھے خوف محسوس ہوتا تھا، ان کی ذہنی واعصابی صلاحیتیں داعش کے زیر سایہ رہنے سے تباہ ہوچکی تھیں۔ ہم نے انہیں نہ صرف اپنے ہاں پناہ دی بلکہ انہیں ماضی سے واپس ایک صحت مند اور پر امید معاشرہ کا حصہ بننے میں مدد بھی فراہم کی۔

اس وقت ہمارے پاس 475 سے زائد”داعش کے یہ بگڑے بچے“ موجود ہیں۔ ہم ان کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرتے ہیں جس میں دستاویزی فلموں کے ذریعے اسلام کی درست تعلیمات اور اصل چہرہ دکھا کر کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح ان کے معصوم ذہنوں سے داعش سے متاثرہ بچوں کی ذہنی ونفسیاتی بحالی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ” داعش کی فکری تعلیمات سے متاثرہ بچوں کے لئے مثالی علاج تو یہ ہے انہیں دو سے تین سال عام زندگی کا ماحول فراہم کیاجائے جس میں یہ صرف اسکول جائیں ،مختلف طرح کے کھیل کھیلیں اور روزانہ ماہر نفسیات سے گھنٹہ،آدھا گھنٹہ عام دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو کریں ، یہ طرز زندگی اگر باقاعدگی سے بچوں کو فراہم کیا جائے تو ان کی بحالی کے لئے کافی ہے“ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ابھی بھی ہزاروں بچے داعش کے زیر تسلط علاقوں میں رہ رہے ہیں جنہیں داعش کے رہنما اپنا مستقبل کا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Daish K Bachy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.