چھری مار گروپ کی بڑھتی ہوئی کاروائیاں ‘ حکومت بے بس؟

سندھ پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان․․․․․ خوف وہراس پھیلانے کے اصل محرکات کیا ہیں، خواتین پر ہونیوالے حملوں کے پیچھے کہیں کوئی سیاسی عزائم تو نہیں

جمعرات 26 اکتوبر 2017

Churri Maar Group ki Barhti huwe Karwaiya  Hakmomat Be Bus
راؤ محمد شاہد اقبال:
گلستان جو ہر کراچی سے خواتین پر ہونے والے چھری حملہ کے واقعات نے ملک بھر میں سندھ پولیس کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ جنہیں سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کے تمام تر تحفظات کے باوجود میرٹ پر بحال کرتے ہوئے ان سے یہ امید ظاہر کی تھی کہ وہ سندھ کی تمام عوام کو بلا لحاظ ونسل تحفظ فراہم کریں گے اور یوں اے ڈی خواجہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد ایک ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ان کے مخالفین نے بھی بالآخر اُن کے خلاف چپ سادھ لی تھی لیکن ایک چھری مار نے ان کے مخالفین کو دوبارہ سے ان کے خلاف ایک طاقتور محاذ بنانے کا سنہری موقع فراہم کردیا ہے اس وقت پوری سندھ حکومت چھری مار کی طرف سے خواتین پر ہونے والی کاروائیوں کی تمام تر ذمہ داری سندھ پولیس پر ڈال رہی ہے جبکہ حقیقت میں ان کا اصل ہدف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے چھری مار کاروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ” سندھ میں اوپر اللہ اور نیچے اللہ نو یعنی اے ڈی خواجہ کی حکومت ہے جس طرح میں اللہ تعالیٰ کے کسی عمل پر کوئی نقطہ نظر اعتراض نہیں اٹھا سکتا بالکل اسی طرح اے ڈی خواجہ سے بھی میں کچھ پوچھ نہیں سکتا، ان کی مرضی ہے وہ اگر چاہیں تو سندھ کے وزیر داخلہ کو رپورٹ کریں اور نہ چاہیں تو نہ کریں“ ۔

سندھ حکومت میں شامل دیگر وزراء کے بیانات کا بھی اگر جائزہ لیا جائے ان سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والی چھری مارحملوں کا تمام تر ذمہ دار صرف اور اے ڈی خواجہ کو ہی سمجھتے ہیں اور دل ہی دل میں شاید وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ چھری مار کاروائیاں کچھ عرصہ مزید بھی چلتیں رہیں تاکہ انہیں اے ڈی خواجہ کو ہدف تنقید بنانے کا جو سنہری موقع میسر آیا ہے وہ اس ذراکچھ اور دن مزید لطف اندوز ہولیں۔

سندھ حکومت کی اس رائے سے تو کسی کوبھی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ شہر میں امن وامان فراہم کرنے کی تمام تر ذمہ داری بہرحال پولیس پر ہی عائد ہوتی ہے اور کسی بھی صورت اس ذامہ داری سے انہیں بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن چھری مار کاروائیوں کے تمام واقعات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ان تمام مجرمانہ حملوں کا شہریوں کے علاوہ اگر کسی اور کو سب سے زیادہ نقصان ہورہا ہے تو وہ صرف اور صرف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی ذات ہے، اس لئے ہمارا مشور ہ ہے کہ تمام تحقیقات اداروں کا تفتیش کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ کہیں یہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے خلاف کوئی منظم سازش تو نہیں کہ جس کے تانے بانے اے ڈی خواجہ کے مخالفین یا پھر ان کے ہمدردوں سے جاکر ملتے ہوں کیونکہ اے ڈی خواجہ سندھ کے وہ واحد آئی جی ہیں جن سے سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان یکساں طور پر نالاں ہیں ، یہ دونوں جماعتیں سندھ میں اے ڈی خواجہ کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے شدید ترین سیاسی اور علاقائی تحفظات رکھتی ہیں۔

کراچی آپریشن کی شاندار کامیابی کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد سندھ پولیس میں اے ڈی خواجہ جیسے قابل افراد کو برداشت کرلیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ چھری مار واقعات کی تحقیقات کے دوران ان نکات کو پیش نظر رکھا جائے کہ آیا خواتین پر ہونیوالے حملوں کے پیچھے کہیں کسی قسم کے کوئی سیاسی عزائم تو چھپے ہوئے نہیں ہیں، بہر حال ایک بات طے ہے کہ یہ سندھ پولیس کی کارکردگی کے لئے ایک کڑا امتحان ہے جس میں سرخروئی حاصل کئے بغیر اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کراچی آپریشن کے اگلے مرحلے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرسکے ، حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سندھ حکومت اور سندھ پولیس کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رسہ کشی کرنے کے بجائے یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اس معاملے کو اب بہت زیادہ دیر تک طول نہیں دے سکتے کیونکہ اگر چھری مار گروپ نے اس طرح کے واقعات کچھ اور دن مزید چلتے رہے تو پھر ہوسکتا ہے کہ مجرموں کے ذہنوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف بالکل ہی دل سے نکل جائے اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ایڈونچرازم کے شوقین دیگر نوجوان بھی اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوکر اسے سندھ پولیس کی مستقل توہین اور مذاق کا ذریعہ بنالیں کیونکہ ہر جرم کے کچھ نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں جو معاشرہ کو متاثر کرتے ہیں۔

ماہرین جرائم کی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی معاشرہ میں ایک جرم بہت زیادہ رواج پاجائے اور اس کی موثر بیخ کنی کے لئے کوئی واضح اور دیر پا اقدامات بھی نہ کئے جائیں تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ ایڈونچرازم کے شوقین افراد اس طرح کے جرائم کو بطور مشغلہ اختیار کرنا نہ شروع کردیں، ہمارے ہاں جس طرح سے چھری مار واقعات کو الیکٹرانک میڈیا پر کوریج دی جارہی ہے اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس جرم کے اصل مجرم یا مجرموں کو پکڑنے کے بعد نہ صرف انہیں سخت سے سخت سزادی جائے بلکہ س سزا کی تشہیر بھی بالکل ویسے ہی کی جائے جیسے جرم کے واقعہ کی جارہی ہے تاکہ مجرم کمزور ذہنوں اور مجرمانہ خیالات رکھنے والے افراد کے لئے نشانہ عبرت بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Churri Maar Group ki Barhti huwe Karwaiya Hakmomat Be Bus is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.