بلاول ماضی نہ دہرائیں

بھٹو کے نعرے سے بنگلہ دیش بننے کی بنیاد پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایئر مارشل اصغر خان کے حوالے سے بیان سیاسی ناپختگی کا ثبوت ہے

منگل 5 دسمبر 2017

Bilawal Mazi Na Duhraye
رحمت خان وردگ:
بلاول زرداری نے گزشتہ روز ایئر مارشل اصغر خان کو ناکام سیاست دان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ عمران خان بھی ایئر مارشل اصغر خان کی طرح سیاست میں ناکام رہیں گے ۔بلاول زرداری ابھی نوجوان ہیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے شاید مکمل پر طور پر ناواقف ہیں اسی لئے ایئر مارشل اصغر خان جیسی عظیم شخصیت کے متعلق انہوں نے اپنی لاعلمی میں بہت غلط بات کردی۔

ایئر مارشل اصغر خان نے بطور سپاہی ملک کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں اور ریٹائر منٹ کے بعد انہیں جب پی آئی اے کا چیئرمین بنایا گیا تو اس وقت پی آئی اے کی ترقی کسی بھی اور دور سے زیادہ رہی، یہ وہی دورتھا جب پی آئی اے نے دنیا کے دیگر ممالک کی ایئرلائنز کی تشکیل میں ان ممانعت کی اور پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سرفہرست ہوتاتھا۔

(جاری ہے)

1965 ء کی جنگ کے دوران جب ایئر مارشل اصغر خان ، ایوب خان اور وزیر خارجہ بھٹو روس کی دعوت پر جنگ بندی کیلئے تاشقند گئے تو روسی قیادت کے اسرار پر یہ تینوں پاکستانی لیدر ایئر پورٹ پر بھارتی وزیراعظم شاستری کے استقبال کے لئے گئے۔ تاشقند سے واپس آکر بھٹو صاحب نے وزارت خارجہ چھوڑ دی اور اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور سیاست کے آغاز پر انہوں نے عوام میں سنسنی پھیلانے کیلئے کہا کہ اگر میں تاشقند کا واقعہ قوم کو بتادوں گا تو ایوب خان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔

تاشقند واقعہ کے متعلق میں نے ایئر مارشل اصغر خان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا، صرف اتنی بات تھی کہ ایوب خان چونکہ قد کا ٹھ میں بھارتی وزیراعظم شاستری سے بہت اونچے تھے اور استقبال کے دوران اسی وجہ سے وہ بھارتی وزیراعظم سے ملتے ہوئے تھوڑا جھکے تا کہ بھارتی وزیراعظم سے مصافحہ کرسکے۔ اسی بات کو بھٹو صاحب نے ایوب خان کی بلیک میلنگ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی اس کے علاوہ تو تاشقند میں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

بھٹو نے جب وزارت خارجہ چھوڑ دی تو انہیں ایوب کان نے جیل میں ڈالا، اس پر ایئر مارشل اصغر خان نے تحریک چلائی اور بھٹو کی رہائی تک وہ احتجاج کرتے رہے ۔ بھٹو صاحب کی رہائی کے بعد ایبٹ آباد میں بھٹو سمیت کئی سیاست دانوں نے ایبٹ آباد میں ایئر مارشل کے ساتھ ملاقات کی۔ انہی ملاقاتوں کے دوران ایک موقع پر بھٹو صاحب نے کہا کہ ہم سو سال تک اپنا جھنڈا لہرا کر اس ملک پر حکمرانی کریں گے جس پر ایئر مارشل نے اعتراض کیا اور ان کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی اور سیاسی راحیں جداہوگئیں۔

1971 ء میں جب ملک کا واحد شفاف ترین الیکشن ہوا تو شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مجموعی طور پر زیادہ نشستیں جیتی تھیں اور جمہوریت نے اصول کے مطابق شیخ مجیب کو ہی حکومت بنانی تھی لیکن یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر بدنیتی کا مظاہرہ کیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ شیخ مجیب حکومت بنانے کے بعد انہیں صدر برقرار نہیں رکھے گے جبکہ بھٹو صاحب نے انہیں صدر برقرار رکھنے کی لالچ دی تھی۔

جب یحییٰ خان ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے مل کر لاڑکانہ گئے تو بات چیت کے بعدبھٹو نے میڈیا میں نعرہ لگایا”ادھر تم ادھر ہم“ جس سے بنگلہ دیش بننے کی بنیاد پڑی چونکہ شیخ مجیب نے اپنے انتخابی منشور میں زرعی اصلاحات کا وعدہ کررکھا تھا جس سے بڑے جاگیرداروں سے سرکاری زمینیں واپس لے کر عام کسانوں میں تقسیم ہونی تھی اسی لئے یہاں کے تمام جاگیردار سیاست دانوں نے بھی ذاتی مفاد کی خاطر شیخ مجیب کی مخالفت کی۔

اس موقع پر ایئر مارشل اصغر خان واحد سیاست دان تھے جنہوں نے حق کا ساتھ دیا اور حکومت شیخ مجیب کے حوالے کرنے کا کہا جس پر انہیں بنگالیوں کا ایجنڈ قرار دیا گیا اور سیاست دانوں ،یحییٰ خان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ 1977 ء میں جب بھٹو صاحب نے انتخابات کرائے تو ملک کی کسی جماعت نے بھی انہیں تسلیم نہیں کیا اور نئے شفاف انتخابات کیلئے نوستاروں کی تحریک چل پڑی اور ملک کا نظام شدید احتجاج کے باعث معطل ہوگیا جس پر مجبورا بھٹو صاحب کو نظر بند اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات کرنے پڑے چونکہ مذاکرات سیاست دانوں کے درمیان ہونے تھے تو ان میں کسی بھی طور پر عسکری قیادت کی موجودگی کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن لیکن جب بھٹو صاحب نظر بند اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات کیلئے آئے تو ان کے ہمراہ چھڑی اٹھائے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق بھی تھے اور بات چیت کے آغاز سے پہلے ہی ضیاء الحق نے چھڑی اٹھا کر پاکستان کے نقشے پر اپوزیشن رہنماؤں کو بارڈر پر کشیدگی کے متعلق بریفنگ دینا شروع کردی جس پر ایئر مارشل اصغر خان جو اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی رہنما تھے ، انہوں نے ضیاء الحق کو کہا کہ اگر سرحدوں پر کشیدگی ہے تو آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔

بارڈر پر آپ نے لڑنا یاسیاست دانوں نے آپ کو تو اس وقت بارڈر پر ہونا چاہیے جس پر وہ شدید غصے میں وہاں سے چلے گئے اور پھر بھٹو صاحب بھی پریشان ہوکر مذاکرات کئے بغیر وہاں سے چلے گئے اور اسی رات ضیا الحق نے بھٹو کو قید کرکے ملک میں مارشل لا ء لگادیا اور بھٹو صاحب کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا ۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھٹو صاحب کی عدالت میں ہر پیشی پر ایئر مارشل اصغر خان باقاعدگی سے جاتے تھے تاکہ ٹرائل کے دوران ان سے کوئی ناانصافی نہ کی جائے۔

جبکہ پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت بھی بھٹو صاحب کی پیشی پر نہیں جاتی تھی۔ ایئر مارشل صاحب ہمیشہ کہتے تھے کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف نہیں بنانا چاہیے اور ہر ایک کو انصاف ملنا چاہیے۔ واضح رہے کہ بطور ایئر چیف، بطور چیئرمین پی آئی اے اور بطور سیاستدان آج تک ایئر مارشل اصغر خان پر کبھی بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگ سکا۔ جبکہ ان پر تنقید کرنے والے بلاول اور انکی پارٹی کی ساتھ بھی عوام کے سامنے ہے۔

اسی طرح کی ساکھ کی حامل نومولود سیاست دان کو ایئر مارشل اصغر خان جیسے عظیم رہنما کا نام بھی سوچ سمجھ کر لینا چاہیے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ایئر مارشل اصغر خان جیسے لوگ شادر ونادر ہی ملتے ہیں۔افغان جنگ کے آغاز پر ایئر مارشل اصغر خان واحد رہنما تھے جنہوں نے اس وقت ہی اسے امریکی جنگ قرار دے کرپاکستان کو اس سے ہر صورت بچانے کا مطالبہ کیا لیکن ڈالروں کی چمک کے باعث اکثریت سیاسی جماعتوں ، دینی جماعتوں اور نام نہاد دانشوروں نے امریکی پے رول کی وجہ سے ایئر مارشل صاحب کو روس کا ایجنڈا قرار دیا اور افغان جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیکر اس میں اندھا دھند چھلانگ لگادی۔

حالانکہ ایئر مارشل اصغر خان بار بار تنبیہ کرتے رہے کہ خدارا اس امریکی مفادات کی جنگ میں شامل ہونے سے نفس صدی تک پاکستان دہشت گردی کے چنگل میں پھنسا رہے گا لیکن اب 37 سال بعد وہ تمام جماعتیں افغان جنگ کو امریکی جنگ کہہ رہی ہیں لیکن اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا جب ہماری تین نسلیں اس کا خمیازہ بھگت چکی ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان اقتدار کے بھوکے نہیں تھے وہ تو قوم کی خدمت کے جذبے سے سیاست کرتے تھے ورنہ انہیں ضیاء الحق نے پانچ مرتبہ وزیراعظم کی پیشکش کی جسے انہوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میں کسی کی نوکری نہیں کرسکتا بلکہ ملک کی خدمت کرناچاہتا ہوں۔

1990 ء میں غلام اسحاق خان نے شام کے وقت بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا تو اگلے دن صبح بے نظیر اور آصف زرداری ایئر مارشل اصغر خان کے گھر چلے گئے اور پیپلز پارٹی سے ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کیا تو بے نظیر اور ایئر مارشل اصغر خان نے مل کر PDA تشکیل دیا اور مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایئر مارشل اصغر خان نے تو ہمیشہ برے وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور ساری زندگی اصولوں کی سیاست کی۔

بلاول زرداری تاریخ پڑھ لے اگر ایئر مارشل اصغر خان اقتدار کے مطمنی ہوتے تو نہ جونیجو صاحب ملک کے وزیراعظم بنتے اور نہ ہی ضیاء الحق کو تحریک استقلال سے شریف برادرن کو علیحدہ کرکے اپنے سیاسی وارث بنانے کی ضرورت پڑتی ۔ ایئر مارشل اصغر خان نے اقتدار کیلئے آمر سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا اگر آمروں کے ساتھ سمجھوتہ کرتا توآج ان کا نام بھی اچھے لفظوں میں یاد نہ ہوتا سیاست صرف اقتدار میں آنے کا حربہ نہیں ہوتا اور اگر اقتدار میں آکر ملک کو لوٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا ہے اب وقت ہے کہ پانامہ میں آنے والے سب ناموں یا جن جن لوگوں نے کرپشن کی اس کی سزا ان کو ملنی چاہیے۔

نیب تمام صوبوں میں یکساں کاروائی کرے اور کرپشن کرنے والوں کے تمام مقدمات کھول کرکرپشن کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bilawal Mazi Na Duhraye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.