بھارتی محبت میں حکومت دوقومی نظریے سے انحراف نہ کرے!

عظیم قربانیوں کے طفیل پاکستان کا حصول ممکن ہوا․․․․․․ سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر ملکی سلامتی کو داؤ پر لگادیا

جمعرات 7 دسمبر 2017

Bharti Muhabat me Hkomat Do Qomi Nazriyee Sy Inhraf na Kary
ندیم اختر ندیم:
ملک میں عرصہ دراز سے کٹھ پتلیوں کا کھیل جاری ہے۔ اس کھیل میں جیت جس کی بھی ہو، مگر ہار ہمیشہ میرے ملک کے عوام کی ہوتی ہے۔ ملک کمزور سے کمزور ہوجاتا ہے ، مگر نچانے والے نئے رنگ روپ میں کٹھ پتلیوں کا تماشہ سجاتے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی جلد رحلت اور پھر قائد ملت خان لیاقت علی خان کی بے وقت شہادت نے اس ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا نہ رکنے والا سفر شروع کردیا تھا جن سیاست دانوں نے قیام پاکستان کے لیے کام کیا تھا جو سیاست کو ایمان کا حصہ سمجھ کے کیا کرتے تھے انہیں پیسے کی ہوس والوں نے بہت جلد پس پردہ جانے پہ مجبور کردیا۔

حکومتیں روز بدلنے لگیں تو کھلاڑیوں کے لئے کھیل اور بھی آسان ہوتا چلا گیا، انہیں بن مانگے نئے نئے مہرے ملتے چلے گئے ، ہرکوئی خود کو اقتدار میں لانے کے لئے ایک منشور عوام کے سامنے پیش کرتا اور ایک یقین دہانی بیرونی آقاوں کے سامنے ، اس ملک پر شروع سے ہی بھارت اور امریکہ کی بری نظر رہی ہے، ان دو ممالک نے ہماری سیاست کے رخ بدلنے میں بہت بھیانک کردار ادا کئے ہیں، اس پاک وطن کو دو ٹکڑے کرنے میں بھی انہی دو ممالک کا بڑا کلیدی کردار رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے سیاست دان ان دو ملکوں سے اندر کھاتے تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب بھی یہ گندا کھیل جاری ہے۔

(جاری ہے)

بھارت بنگلہ دیش بنوانے میں اپنا کردار قبول کرچکا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نریندر مودی کے اقبالی بیان کے بعد دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھاتے ، مگر ہمارے سابق مگر محترم وزیراعظم نے بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانے پر زرو دینا شروع کردیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر لاکھوں جانوں کی قربانی سے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، مگر نواز شریف اور ان کے حواری بھارت کی محبت میں بارڈر پر کھینچی لیکر پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔

بھارت سے میاں نواز شریف کی محبت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ پاکستان کے دوٹکڑے کرنے والا ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلانے والاسفاک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میاں نواز شریف کے گھر بنا ویزے پہنچ جاتا ہے تو کبھی بھارتی بزنس مین سے مری کے ٹھنڈے موحول میں گرم موضوعات پہ بات چیت ہوتی رہی، اس محبت کی وجہ سے ہی ان کی اپنے اداروں سے بگڑتی چلی گئی۔

بھارت نے ہمیشہ پاکستانی سیاست دانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرا ہے۔ بھارتی سیاست دان ہم سے سیاسی میدان میں کہیں آگے ہیں، وہ اندرون ملک چاہے جو مرضی گل کھلاتے رہیں۔ پاکستان مخالفت میں سبھی ہمیشہ ایک نقطے پر اکھٹے رہے ہیں ۔ بھارتی ہمیشہ پاکستانی سیاست دانوں کو لسانی اور علاقائی بنیاد پر کمزور کرتے رہے ہیں۔ مجیب الرحمن کو بھی اسی نقطے پہ اپنے ساتھ ملایا گیا تھا کہ سارا بجٹ سارے ترقیاتی کام مغربی پاکستان میں ہورہے ہیں۔

مشرقی پاکستان کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے، اسی سوچ کو پروان چڑھا نے کے لئے بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکا یا جاتا رہا۔ 65ء کی جنگ کے بعد ہمارے سیاست دان آپس میں دست وگریباں رہے اور فوج بارڈر مضبوط کرنے کے پلان بناتی رہی ۔ چالاک دشمن نے ہمیں اندر سے کمزور کرکے ایساوار کیا جس کا مداوا ہم کسی بھی طرح نہیں کرسکتے، کہتے ہیں بھٹو کی مضبوط سیاسی حیثیت دیکھتے ہوئے امریکہ اور بھارت کے ایماء پر ہی ایک بڑا اتحاد تشکیل دیا گیا تھا جس نے بھٹو کو موت کی تاریک وادیوں میں پہنچانے کے لئے کٹھ پتلیوں کی طرح کام کیا ۔

بھٹو کے بعد بے نظیر بہت عرصہ ملک سے باہر رہیں۔ جنرل ضیاء کے ہاتھوں اپنے باپ کو تختہ دار پر چڑھائے جانے کی وجہ سے انہیں پوری فوج پر ہی غصہ تھا اسی لئے ایوب کی گود میں پروان چڑھنے والی پیپلز پارٹی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کہا گیا ۔ بے نظیر جب اقتدار تک پہنچ گئیں تو میاں نواز شریف کے اس وقت کے قریبی ساتھی شیخ رشید جیسے لوگوں سے ان کے خلاف بھارت نوازی کے بیانات جاری کروائے گئے۔

شیخ رشید جیسی کٹھ پتلیاں ہر دور میں میسر رہی ہیں جو طاقتور وں کوخوش کرنے کے لئے کسی بھی سیاست دان یا ادارے پر انگلیاں اٹھا سکتی ہیں۔ جنرل ضیا نے بھٹو کو تختہ دار پر پہنچانے کے بعد الطاف حسین کی شکل میں ایک اور کٹھ پتلی تیار کروائی۔ لسانی بنیاد پر تیار ہونے والے اس ڈرامے کو لکھنے والا نہ جانتا ہوگا کہ اس کے ہاتھوں تیار ہونے والی یہ کٹھ پتلی مستقبل میں کس کے ہاتھوں میں ناچے گی۔

جنرل ضیاء تو جلدی چلے گئے مگر الطاف حسین بھارتی خفیہ اداروں کے آلہ کاربن کے اپنے ملک میں دہشت وخون کا بازار گرم کرنے لگے۔ کراچی میں خون و آگ کی ایسی ہولی کھیلی جانے لگی کہ روشنی کا شہر کراچی اپنا اصل مقام ہی بھول گیا، سب اداروں کے خلاف بھونکنے پر بھی الطاف حسین کی نشے میں ڈوبی ٹی وی چینلز پر گھنٹو لائیو تقاریر نشر ہوتی رہتی، یہ ایسی کٹھ پتلی تھی جس نے کراچی شہر اور گردونواح کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے رکھیں۔

پچھلے سال یہ چہرہ بے نقاب ہوا۔ ملک دشمن بیانات کے بعد الطاف حسین سے اس کی پارٹی کا رشتہ ختم کروادیا گیا، مگر الطاف کے دست راست فاروق ستار کو ایک رات رینجرز کی تحویل میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا ، ہمارے طاقتور ادارے چاہنے کے بعد بھی فاروق ستار کو سیاست سے باہر نہ کرسکے گو انہوں نے الطاف حسین کا سحر ختم کرنے کے لئے اسی ایک چیلے مصطفی کمال کو نئی کٹھ پتلی بنا کے پیش کردیا۔

فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں کو اپنی مرضی سے نچاتے رہے۔ ملک میں جاری سیاسی ہل چل کے چلتے انہوں نے چاہا کہ اپنی کٹھ پتلیوں کو ایک ساتھ کرکے ان کی باگ ڈور کسی اپنے کے ہاتھ میں دے دیں ، مگر مصطفی کمال اورفاروق ستار کا تعلق ایک رات کی دلہن سے زیادہ ثابت نہ ہوسکا ۔ سیاست دان جب تک اپنا دامن صاف نہیں رکھیں گے، ان سے کوئی بھی کام لیتا رہے گا۔

کٹھ پتلیوں کے ڈانس سے بچنے کے لئے حکومت حاصل کرنے کے لیے چور درازوں کا کھیل بند ہوجانا چاہیے۔ ملک تبھی ترقی کرے گا جب سب ادارے اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے اپنے مہروں کا استعمال بند نہیں کر دیتے، اب مشرف کا بیان آیا ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ تشویش ناک ہے، لگتا ہے بچی کھچی ایم کیو ایم اکٹھی کرکے ان کے حوالے کیے جانے کا پلان تھا، مگر اس سے ان پر صرف ایک مخصوص علاقائی جماعت کا لیبل لگ جاتا۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یوم پیدائش مختلف بیانات کی زد میں گزر گیا مگر ان کے ایک شعر کا مصرعہ کانوں میں گونج رہا ہے کہ ”کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں“؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharti Muhabat me Hkomat Do Qomi Nazriyee Sy Inhraf na Kary is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.