بھارت کا لبرل طبقہ اور مسئلہ کشمیر!

اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عملدرآمدنہ ہونا سوالیہ نشان؟

پیر 25 ستمبر 2017

Bharat Ka Libral Tabqa Or Masla Kashmir
وقار مسعود خان:
بھارت کی نامور خاتون صحافی برکھادت نے واشنگٹن میں اپنے ایک مضمون میں مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے دو واقعات کا بڑی درد مندی سے ذکر کیا ہے ، پہلے واقعہ میں امرناتھ (کا ایک مقدس غار جہاں ایک فربانی شیولنگ ہرسال بنتا ہے) یاترا کو جانے والے یاتریوں پر فائرنگ کرکے 7 یاتریوں بشمول 6 خواتین کو ہلاک اور 15 کو زخمی کردیا گیا تھا ۔

دوسرے واقعے میں ایک مسلمان سینئر پولیس افسر کو شب قدر میں ایک ہجوم نے مار کرہلاک کردیا ، اس موقع پر مجمع کسی ذاکر موسیٰ کی حمایت میں نعرے لگارہا تھا جو بقول صحافی ایک ایسا لیڈر ہے جو خلافت قائم کرنا چاہتا ہے اور ہر اس حریت پسند کا مخالف ہے جو آزادی کشمیر کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھتا ہو۔ موصوفہ نے ان دونوں واقعات کو آزادی کشمیر کی تحریک میں ایک نازک موڑ قرار دیا ہے، پہلے واقعہ کو لشکر طیبہ کی کاروائی قراردے کر پاکستان پر اس کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے اور ساتھ ہی کیونکہ حملہ یاتریوں پر ہوا جو مذہبی تقریب میں شرکت کیلئے جارہے تھے، اس سارے واقعے کو مذہبی رنگ بھی چڑھا دیا گیا، دوسرے واقعے میں بھی کیونکہ ایک مسلمان پولیس افسر کو ایک ایسے ہجوم نے بیدردی سے قتل کیا جو خلافت کے حامی ذاکر موسیٰ کے حق میں نعرے لگارہے تھے لہٰذا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آزادی کی تحریک کو ایک بنیاد پرست، وہابی اور سلفی تحریک بنایا جارہا ہے جو ان لوگوں کا سرقلم کردے گی جو مسئلہ کشمیر کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

برکھادت آگے چل کر لکھتی ہیں۔ کہ ان واقعات سے کشمیر کی آزادی کی حقانیت پر حرف آیاہے، ساری کشمیر تحریک اُن کے نزدیک دہشت گردی کی نذر ہوگئی ہے ، چنانچہ وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا گاندھی کی سرزمین میں کوئی بھی ایک کشمیری لیڈر ایسا نہیں ہے جو عدم تشدد کا پیرو کار ہو؟ موصوفہ برہان وانی کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ کشمیریوں میں کوئی اروم شرمیلا کیوں نہیں ہے جس نے منی پور کی ریاست میں فوج کو بھیجا اختیارات تفویض کرنے اور ان کے استعمال پر تحفظ کی فراہمی پر دنیا کی طویل ترین 16 سالہ بھوک ہڑتال کی (گرفتاری کے بعد اسے سانس کی نالی سے غذا فراہم کی جاتی رہی)جو گزشتہ سال جون میں یہ کہہ کر ختم کردی کہ وہ ہڑتال سے کچھ نہیں حاصل کرسکیں۔

اور وہ اب ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑکر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ موصوفہ مزید لکھتی ہیں کہ اس عدم تشدد کے رویہ کے برخلاف کشمیر کی تحریک پاکستان سے برآمد شدہ دہشت گردی کے حوالے کردی گئی ہے ۔ اس تناظر میں ہندوستان میں لبرل سوچ کا حامل طبقہ وکشمیریوں کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے (مثلاََ 1980 کے انتخابات مین دھاندلی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مرکزی حکومت کی سیاسی کوتاہ نظری وغیرہ کے سلسلے میں )اُس کا مئوقف کمزور ہوا ہے، قبل اس کے کہ ہم موصوفہ کے خیالات پر اظہار خیال کریں ، یہ ضروری ہے کہ متذکرہ واقعات کے صحیح حقائق کو سمجھ لیں۔

یاتریوں پر حملے پر انڈین ایکسپریس اپنی 12 جولائی کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ 10 جولائی کو ایک بس 56 مسافروں کو لیکر سرینگر جموں سڑک پر جارہی تھی جوائنٹ ناگ کے قریب واقع بوتینگو کے مقام پر فائرنگ کی زد میں آگئی جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوگیا اور کچھ مسافرزخمی ہوگئے ۔ ابتدائی رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ شدت پسندوں اور پولیس کے درمیان یکے بعد دیگر دوچوکیوں پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے لیکن اس رپورٹ میں بس پر حملے کو کوئی ذکر نہیں تھا۔

NDTV کی 12 جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بس نے ضابطے کی خلاف ورزی کی ہے،بس کو حادثہ 8 بجے رات کوپیش آیا ۔ اس مسافر بس کی نہ کوئی اطلاع دی گئی تھی اور نہ 7 بجے رات کے بعد مسافر بسوں کو سفر کرنے کی اجازت ہے ، علاوہ ازایں یہ بس حکومت کی منظور شدہ یاتریوں کیلئے چلائی جانے والی سروس کا حصہ نہیں تھی، لہٰذا اس کو وہ تحفظ حاصل نہیں تھا جو اس سروس کی بسوں کو مہیا کیا جاتا ہے۔

لائیو منٹ ویب سائٹ نے اپنی 11 جولائی کی رپورٹ میں متذکرہ حقائق کی تصدیق کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے وزیر داخلہ نعیم اختر نے حادثے کے فوراََ بعد ایک بیان میں اس کی ساری زمہ داری ابو اسمعیل پر ڈال دی،صرف یہ کہہ کرکہ وہ لشکرطیبہ کا مقامی کمانڈر ہے اوراس علاقے میں سرگرم ہے ، یہ ایک سیاسی بیان تھا جو کسی تحقیقاتی رپورٹ پر مبنی نہیں تھا، یہ بہت اہم بات ہے کہ حریت پسندوں کے کسی گروپ نے اس واقعے کی نہ صرف ذمہ داری قبول نہیں کہ بلکہ اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ، دوسرے واقعے میں نیویارک ٹائمز نے اپنی23 جون کی اشاعت میں اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ میں بیان کیا ہے ۔

اخبار کہتا ہے کہ اس واقعے سے متعلق کوئی مصدقہ رپورٹ نہیں ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق پولیس آفیسر محمد ایوب پنڈت شب قدر کو مسجد میں نماز پڑھنے آئے جہاں میراوعظ عمر فاروق تقریر رکررہے تھے کیونکہ ان کا تعلق مقامی آبادی سے نہیں تھا جلد ہی لوگ انہیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ آہستہ آہستہ ایک ہجوم جمع ہوگیا جس کا رویہ جارحانہ ہوتا گیا، اس موقع پر ایوب پنڈت نے اپنے دفاع میں پستول نکال لیا اور فائر کھول دیا جس سے تین افراد زخمی ہوگئے، ایک دوسری اطلا ع کے مطابق ایوب ایک ساتھی کے ساتھ آیاتھا اور وہ اطراف کی تصویریں بنارہے تھے، لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ سی آئی ڈی کے اہلکار ہیں جس کے بعد ہجوم نے انہیں گھیر لیا اور کچھ دیر بعد جھگڑا شروع ہوگیا او ر مجمع نے بالآکر ایوب کو بیدردی سے قتل کردیا۔

ایک اور اطلاع کے مطابق لوگوں کا خیال تھا کہ ایوب مولوی فاروق کو قتل کرنے آیا تھا اور اس کا تعلق ملٹری سے تھا، جو صحیح بات نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انتظامیہ اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کا شاخسانہ ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے دین کے خلاف ہیں لیکن ہمارے لئے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوفہ کی نظروں میں آزادی کشمیر کی اسلام سے وابستگی کھٹک رہی ہے ۔

کیا وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ کشمیر ایک مسلمان اکثریت والی ریاست ہے اور تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ تقسیم ہند کے اصول کے تحت اس کو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن بھارت 70 سال سے اقوام متحدہ سے کئے گئے استصواب کرانے کے وعدے کے باوجود صرف اور صرف ننگی طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان کی زمین پر قابض ہے۔ 7 لاکھ فوج جو اس کی کل فوج کا نصف ہے وہاں تعینات کررکھی ہے جس کے مظالم کی داستان کسی موجودہ مہذب دنیا سے معلوم نہیں ہوتی ۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا لبرل طبقہ ابھی آزاد سوچ کی اس معراج کو نہیں پہنچا جہاں مجبور اور مقہور لوگوں کی حمایت بلارنگ ، نسل، مذہب اور جغرافیہ کی جاسکے ایک واحد استشنیٰ وہ منخی اور جری خاتون ہے جس نام ارون دھتی رائے ہے اور جس نے بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم وستم اور کشمیریوں کی ناقابل بیان حالت کا زار کا اپنی آنکھوں سے مطالعہ کیا اور 2010ء میں حریت رہنما سید علی گیلانی کیساتھ ایک سیمینار میں کھل کر آزادی کشمیر کا مطالبہ کیا اور اس کے جواب میں حکومت نے اس پر بغاوت کا مقدمہ بنادیا۔

گواس کا ضمیر ابھی بھی تحریک کے ساتھ ہے، لیکن چند دن پہلے ان سے منسوب ایک بیان میں جس کی بعد میں تردید ہوگئی تھی(اور جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ بھارت 5 لاکھ کی جگہ کشمیر میں 50 لاکھ بھی فوج لگادے وہ کشمیریوں کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتا) اس کے جواب میں بی جے پی کے ایک موجودہ ایم پی پر یش راول نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ” اروندھتی رائے کو کشمیر میں کسی فوج جیپ میں ٹانگ کر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جائے“ اچھی بات یہ ہے کہ ٹویٹ کی دنیا میں اس نے بھونچال آگیا اور موصوف کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ کریہ تو ممکن ہے کہ مغرب کے ذہن کو کشمیری تحریک سے بدظن کیا جاسکے لیکن اس سے حقیقت کو نہیں بدلا جاسکتا، قابل اعتراض بات یہ ہے کہ ہندوستان کی نامورلبرل شخصیات اس مذموم کام میں شریک ہیں، جیسا موصوفہ نے یہ مضمون لکھ کر کیا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ وہ افسوس کر رہی ہیں کہ انہیں کشمیر کی تحریک میں کوئی اروم شرمیلا جیسا فرد نظر نہیں آتا ، جو عدم تشدد کا پرچاری ہو۔

یہاں پھر ہمیں حیرت کا سامنا ہے انہیں حریت کانفرنس کے رہنما نظر نہیں آتے ،جن کی مزاحمت مکمل طور پر پُر امن ہے اور وہ کسی تشدد کی حمایت نہیں کرتے اور اس سے بڑھ کر حریت کے 87 سالہ بزرگ رہنما سید علی گیلانی نظر نہیں آتے، جن کی زندگی کا بڑا حصہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اور نظر بندی میں گزرا ہے اور اس میں کئی مرتبہ الیکشن کی سیاست اور اسمبلی کی رکنیت بھی شامل ہے ۔

کیا س قسم کی سیاست کشمیریوں کو ان کی آزادی دلانے میں یا بھارتی فوج کے ظلم و تشدد میں کمی کرانے میں کامیاب ہوئی ہے؟ انہیں وہ معصوم بچیاں بھی نظر نہیںآ ئیں جن کے سکول اور کالجز میں فوجی داخل ہوگئے اور جس کے ردعمل میں وہ بھی پرامن احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکل آئیں لیکن بھارتی فوج نے ان کو بھی اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جیسا وہ مردوں کیساتھ کرتی ہے ۔

سید گیلانی نے گزشتہ سال شروع ہونے والی احتجاجی لہر کے دوران، امن کی خاطر اقوام متحدہ کو خط لکھ کر بحالی اعتماد کے اقدامات تجویز کئے جس میں آرمڈ فورسز ایکٹ (AFSPA ) اور پبلک سیفٹی ایکٹ خاتمہ اور ضمیر کے قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات شامل تھے، لیکن بھارتی حکومت نے ان کاکوئی مثبت جواب نہیں دیا جب معقولیت اور گفت وشنید کے سارے راستے بند کردیئے جائیں تو لوگ دادو فریادلے کر اور کہاں جائیں۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Ka Libral Tabqa Or Masla Kashmir is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.