بے اختیار بلدیاتی نظام کیا ثمرات دے گا؟

جمہوری حکومت کے نہ چاہے ہوئے بھی وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں مقامی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں،5دسمبر کو سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل ہوا۔ بلدیاتی انتخابات میں لوگوں نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا۔ووٹروں کی اکثریت نے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے امیدوار منتخب کیے

جمعہ 1 جنوری 2016

Be Akhtiyar Baldiayati Nizam Kia Samraat Dega
راجہ عابد پرویز:
جمہوری حکومت کے نہ چاہے ہوئے بھی وفاقی دارالحکومت سمیت ملک بھر میں مقامی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں،5دسمبر کو سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل ہوا۔ بلدیاتی انتخابات میں لوگوں نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا۔ووٹروں کی اکثریت نے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے امیدوار منتخب کیے ،یہی وجہ تھی کہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بہت بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی منتخب ہوئی ہے۔

مقامی حکومتوں کے ملک میں کئی مرتبہ تجربے ہوئے مگر مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کو جس قدر فعال بنایا گیا تھا اور اس دور میں مقامی حکومتوں نے جوڈلیور کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام کے مسائل صیح معنوں میں ان کی دہلیز پر حل ہوئے، پولیس جسے مقامی حکومتوں کے ماتحت کیا گیا تھا نے بلدیات نمائندوں سے مل کر کام کیا۔

(جاری ہے)

ایسے ایسے علاقوں میں ترقیاتی کام سر انجام پائے جہاں عام حالات میں پہنچنا بھی ممکن نہیں تھا، طلاق، اور معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑے تو یونین کونسل میں قائم ثالثی کونسل میں ہی نمٹا دیے جاتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں ان اداروں نے عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا لوگوں کے دلوں سے پولیس، محکمہ مال اور دیگر اداروں کا خوف ختم کیا اور لوگوں کے مسائل کے لیے بلدیاتی نمائندے نے ہرا دل دستے کا کام کیا۔ مگر کیا موجودہ تبدیل شدہ بلدیاتی نظام عوام کی تو قعات پوری کر سکے گاایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے،کیونکہ تبدیل شدہ بلدیاتی نظام اب پہلے کی طرح طاقتور نہیں رہا۔

موجودہ بلدیاتی نظام کی ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ایک ملک ہونے کے باوجود چاروں صوبوں میں اس کی شکل مختلف ہے،ہر صوبے میں رائج مقامی حکومتوں کے اختیارات کی نوعیت بھی ایک جیسی نہیں۔ قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ جمہوری حکومت نے سپریم کورٹ کے دباوٴ پرمقامی حکومتوں کے انتخابات تو کرادیے ہیں مگر موجودہ مقامی حکومتیں لولی لنگرڑی ہیں۔ بے اختیار نمائندے جلد اس نئے نظام کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔

ایسی نمائندگی کا کیا فائدہ جس میں اختیار نہ ہو اور وہ عوام کے مسائل حل نہ کر سکیں۔ جب ایک ایم این اے اور ایم پی اے کی مرضی سے ہی سب کام ہوں گے تو پھر مقامی حکومتوں کے نمائندوں کو کون پوچھے گا۔ طاقت کا سرچشمہ جدھر ہو گا مسائل کے مارے عوام کا رخ بھی ادھر ہی ہوگا اور یہی جمہوری حکومتیں چاہتی ہیں کہ طاقت ان کے ہی پاس رہے، خاص کروزراء قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے تو کسی صورت میں بھی بلدیاتی نمائندوں کے مرہون منت نہیں رہنا چاہتے۔

دنیا میں مقامی حکومتوں کے تجربات بہت کامیاب رہے ہیں مقامی طور پر تعمیر ترقی بلدیاتی اداروں کے اختیار میں ہی ہوتی چاہیے اور بڑے بڑے منصوبوں میں ان کی مشاورت کوبھی اہمیت دینی چاہیے ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا کام مقامی حکومتوں کے تجربات سے استفادہ حاصل کر کے صرف قانون سازی ہونا چاہیے۔ مگر ایسا کب ہوگا یہاں تو ہر کوئی دوسرے کی جگہ لینا چاہتا ہے مگر جب تک یہ طرز عمل درست نہیں ہوگا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔

اگر مقامی حکومتوں کے نمائندوں کو صرف فارموں کی تصدیق تک ہی محدود رکھا گیا تو پھر بلدیاتی اداروں کے قیام کا کوئی مقصد نہ رہے گا۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات پر پیپلز پارٹی نے سندھ، مسلم لیگ ن نے پنجاب اور ایم کیو ایم نے اندرونِ کراچی میں کامیابی حاصل کی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اب سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے صوبوں اورمخصوص علاقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

وفاق کی نمائندگی کرنے کی دعویدار سیاسی پارٹیوں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے مگر یہ بات افسوسناک ہے ملک کی تمام اکائیوں کو جوڑے رکھنا انہی سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں جمہوری نظام قائم رکھنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو اپنے اپنے علاقوں کے خول سے باہر نکلنا ہوگا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ مضبوط وفاق ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے جب ہماری سیاسی پارٹیوں پر سندھی، پنجابی، بلوچی اور پختون پارٹیوں کے لیبل لگے ہوں گے تو پھر وفاق کی کون بات کرے گا ۔

ہمیں ملک کو بنانا ہے تو سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ نئی وجود میں آنے والی مقامی حکومتوں کو کامیاب کرنا ہوگا اور ان کے کام میں وزراء، ایم این ایز اور ایم پی ایز کی مداخلت کے امکانات کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔ جس کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ بلدیاتی نمائندے صیح معنوں میں ڈلیور رکرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Be Akhtiyar Baldiayati Nizam Kia Samraat Dega is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 January 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.