بلوچستان میں خفیہ قوتوں کی یلغار

بلوچستان میں افراتفری مچانے اور اسے بحرانی علاقہ بنانے کا منصوبہ، بلوچ مخالف عناصر کی آڑ میں پس پردہ کاروائیاں

بدھ 7 جون 2017

Balochistan Main Khufia Quwaton Ki Yalghaar
امتیاز الحق:
بلوچستان پاکستان کو وہ حصہ ،صوبہ و علاقہ ہے جس کے بارے میں نصابی کتابوں میں ہم سب بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک اہم قدرتی معدنیات سے مالا مال ،سڑٹیجک،گیس کے ذخائر کے حوالے سے پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔بدقسمتی کے بعد ازاں بھٹو دور میں گوریلا جنگ کے بارے میں بلوچیوں کی جدوجہد کا اضافہ ہوا جس میں عطااللہ مینگل اور شیر بخش مری جنہیں جنرل شیروف کانام بھی دیا گیا۔

اس وقت بلوچوں کے ہیرو سمجھے جاتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ بلوچی رہنما قومی دھارے میں آتے رہے اور افواج پاکستان کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا لیکن پھر کچھ ہی عرصہ بعد بلوچستان کی سیاست میں ”دہشت گردی“اور ”فراری کیمپوں“ کا اضافہ ہوگیا۔اور مسلح کاروائیوں کی خبروں کے ساتھ پاکستان کی افواج خیبر پختونخواہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں مصروف عمل ہو گئیں۔

(جاری ہے)

گیس پائپ لائن اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائن زیادہ تر تباہی کا نشانہ بنتی رہیں،ریلوے ٹریک پر بم پھٹنے کے واقعات تو بتدریج خبروں میں عام سے واقعات بن گئے تاہم بعد ازاں یہ بے جان اور ٹھوس اہداف انسانوں کی جانب مڑگئے اور پھر زائرین،سیاحوں،سرکاری اہلکاروں،مسلح افواج کے ساتھ سیاستدان اور عام شہری بھی نشانہ بننے لگے۔گز شتہ کچھ عرصے میں قومی دھارے میں شامل مختلف پاور گروپس ،رہنماؤں ،پارٹیوں اور اکابرین نے مقتدر اداروں کے ساتھ ملکر بہت سے ناراض عناصر کو ہتھیار پھینک کر بلوچ معاملات میں شامل ہونے پر رضا مند بھی کرلیا۔

اس کے باوجود ایک عنصر کا مزید اضافہ دیکھنے اور سننے میں آیا اور وہ”بیرونی“کی اصطلاح کے ساتھ عام زندگی اورمیڈیا میں شامل ہوگیا۔بلوچستان ایک بار پھر ملکی و غیر ملکی خبروں،تبصروں اور تجزیوں میں اس وقت زیادہ دلچسپی کے ساتھ نمایاں ہو گیا جب اس کے چمن باڈر پر افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجہ میں 12 پاکستانی شہید ہوگئے اور دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے آگئیں۔

لیکن حیرت ودلچسپی کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج چوکس اور متحرک ،اس کے باوجود گزشتہ دنوں کوئٹہ میں جمعیت علما اسلام کے رہنما عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملہ اور متعدد افراد کی ہلاکت ،اس کے علاوہ چینی زبان کے دو اساتذہ کا اغواء اور انکی ساتھی کا بچ نکلنا،بازیابی کی کاروائی کے دوران نامعلوم اغوا شدہ یرغمالیوں کا بازیاب ہونا،گوادر کے علاقہ میں دہشت گردوں کی کاروائیوں نے سوال اٹھا دیا ہے کہ بلوچستان کا مستقبل کیا ہے؟سی پیک کے حوالے سے اہمیت اختیار کئے جانے والے اس علاقہ میں آئندہ صورتحال کیسی ہوگی جس پر کام کرتے پنجابی اور سندھی کارکنوں کو ہلاک کرکے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بلوچستان میں ملکی و غیر ملکی ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے اس صوبہ کا رخ نہ کریں۔

یہ پیغام دینے والے کون ہیں،اس کے مفادات کیا ہیں؟بلوچستان آہستہ آہستہ ایک ایسا علاقہ بن رہا ہے یا بنایا جارہا ہے جہاں باقی تین صوبوں میں یہ تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ بلوچستان میں حالات اتنے خراب نہیں ہیں لیکن صورتحال کبھی کبھار خراب ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے ناراض عناصر جو ابھی تک قومی دھارے سے باہر ہیں ،اپنی پوزیشن اور حیثیت منوانے کیلئے کاروائیاں کرتے ہیں۔

بعض اوقات انہیں ”اغیار“کی بھی حمایت مل جاتی ہے جس کی مدد سے یہ عناصر عسکریت پسندی کی جانب مائل رہتے ہیں لیکن عسکریت پسندی کے ساتھ دہشت گردی،اغوا برائے تاوان،سکیورٹی کی چاک وچوبند فرائض کے باوجود ہمارے اہلکاروں،لوگوں پر بالواسطہ اور بلاواسطہ افغانستان سے کاروائیاں کی جارہی ہیں،انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے تو ایسی صورتحال میں ہمیں ایک بار پھر گہرائی سے پس پردہ جائزہ غور کرنا ہوگا کہ ناراض عسکریت پسندوں،فرقہ پرست گروہوں،بیرونی عناصر کی مداخلت بارے اہم انتہائی معلومات رکھتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کلبھوشن جیسے جاسوس کو پکڑ لیتے ہیں اس کے باوجود پس پردہ خفیہ وہ کون سے ہاتھ عناصر ہیں جو وہ خود نظر نہیں آتے لیکن ان کی کاروائیاں اخباروں،میڈیا کی شہ سرخیاں بن رہی ہیں،کیا بلوچستان کی صورتحال میں مختلف عناصر جو اپنی اپنی وارداتوں،کاروائیوں میں مصروف ہیں ان کا باہمی تال میل،رابط تعلق ہے یا مذکورہ عناصر علیحدہ علیحدہ کاروائیاں کر رہے ہیں۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم فعالیت دیکھ کر یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ معاملات مزید سنگینی کی جانب جارہے ہیں۔بلوچستان میں حالات کا کھیل اس طرح کھیلا جا رہا ہے کہ صورتحال کو پچیدہ کردیا جائے اور اس خط کی صورتحال کو اس طرح پیش کیا جائے کہ اندرون اور بیرون ملک یہ عام سی بات لگے کہ بلوچستان میں تو” ایسا ہوتا ہی رہتا ہے“
سکیورٹی کی صورتحال کو غیر اہم کرکے دکھایا جائے،ایسی صورتحال در حقیقت طویل مفادات پر مبنی ایک لمبے عرصے تک اس صوبہ میں ایسی کیفیت رکھتا ہے جو ”معمول“کی صورتحال نظر آئے۔

اگرچہ اس صوبہ میں سیاسی حل کے امکانات موجود ہیں لیکن انہیں آزمانے کی کوشش یا تو کی نہیں گئی یا انہیں اس طرف لانے کی کوشش دانستہ طور نہیں کی جارہی۔حالات کو مزید بگاڑنے کی ”حکمت عملی“پر کام ہورہا ہے اور وہ حکمت عملی یہ ہے کہ بلوچستان میں مختلف طریقوں سے طالبان،بیرونی عناصر ،فرقہ پرستوں،ناراض گروہوں،مافیا کے مختلف کرداروں کو زندہ رکھا جائے،کاروائی اس طرح کی جائے کہ وہ مذکور کسی عنصر کی جانب تاثر پیدا کرے گو کہ یہ عناصر اپنی اپنی جگہ پر مصروف عمل ہیں۔

بعض اوقات ایسی کاروائیاں ہو جاتی ہیں یا کی جاتی ہیں کہ مذکورہ عناصر بھی اپنے اندر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ واردات کس نے کی ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جسے جاننے سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پس پردہ بلوچستان،ہمسایہ افغانستان وبھارت اور اندرون ملک بیرونی قوتوں کے آلہ کاروں کا باہمی تعلق تلاش کیا جائے اور وہ تعلق ہے پرائیوٹ ملٹری کارپوریشنیں۔افغانستان میں اس وقت مختلف پرائیوٹ آرمی اور خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جن کے متعدد رابطے پاکستان میں گزشتہ عرصہ میں دیکھے گئے ہیں ان میں سے ایک ہی نام زبان زدعام ہوا وہ ”بلیک واٹر“بین الاقوامی سطح پر پرائیوٹ ملٹری کا ظہور،انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے،ایسی فوج بنانا بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشن کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔

ریاستوں کے قومی دساتیر مین اس کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سرعام کیا جارہا ہے۔افغانستان اس ملٹری کا رپوریشنز کی ایک منافع بخش مارکیٹ بن گیا ہے۔انڈسٹری گروپ پروفیشنل اوورسیز کنٹریکٹرز نے حال ہی میں ٹھیکیداروں کے بارے جو اعدادو شمار فراہم کئے ہیں ان کے مطابق 115,500 پرائیوٹ فوجی اب تک افغانستان میں کام کررہے ہیں،ان میں سے 35,000 امریکی اور باقی لوگ افغان اور دوسرے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ لوگ تعداد کے لحاظ سے امریکی فوجیوں سے تقریباََ 50 ہزار زیادہ ہیں۔یہ پرائیوٹ فوجیں ہیں جو مورچہ بند لڑائی سے لیکر لاجسٹک تک کے کاموں میں ریگولر فوج کی مدد کرتی ہیں۔امریکہ نے عراق سے 2011 ء میں اپنا فوجی انخلا مکمل کرلیا تھا لیکن جنگ کے عروج کے زمانے میں وہاں ڈیڑھ سے دو لاکھ تک کرائے کے فوجی تھے اور ان کی آج بھی بڑی تعداد موجود ہے ۔

ایسی دنیا جس میں کرائے کے فوجی ہوں کبھی بھی ایک مستحکم اور محفوظ دنیا نہیں بن سکتی اس لئے کہ کرایہ کے قاتل اپنے کاروباری مفادات کو جاری رکھنے کیلئے دنیا میں جنگوں اور انتشار کو ہوا دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے اور دنیا امن کر ترستی رہے گی۔افغانستان میں ”ڈین کارپ‘انٹرنیشنل نے امریکی 1.2 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا اور سابق صدر حامد کرزئی کی حفاظت بھی یہی کمپنی کرتی تھی۔

یہ افغان نیشنل آرمی اور افغانیشنل پولیس کو تربیت دے رہی ہے۔صرف پولیس کی تربیت کے لئے ایک ارب ڈالر کا امریکی انتظامیہ نے ٹھیکہ دیا۔یہ کمپنی افغان سکیورٹی فورسز کی تنظیم نو کررہی ہے۔کمپنی حساس مقامات کی حفاظت،متحرک امور کی حفاظت،ہاوسنگ ایریاز،تعمیر نو کے مقامات،سرکاری عمارتوں،فوجی وسویلین قافلوں کے تحفظ
(جو پُرخطر علاقوں سے گزرنے والے ہوں) یا خطرناک جگہوں کی حفاظت کے لئے باڈی گارڈز کی خدمات ،باڈی گارڈز سخت لڑائی کے زون سے گزرنے والی اعلیٰ مرتبہ شخصیات کی حفاظت کرتی ہیں۔


”KBR“ ہملیٹن کا رپوریشن کا 1995 ء تا 1999ء سربراہ امریکہ کا نائب صدر ڈک چینی تھا افغانستان پر حملہ کے لئے صدر بش کو آمادہ کیا اور پنی پرائیوٹ آرمی کے ذریعے افغانستان میں انتظام انصرام چلاتا رہا۔یوں پرائیوٹ کمپنی نے بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنائی۔یہ ریگولر آرمی سے زیادہ تیز اور طاقتور جدید ٹیکنالوجی سے لیس تیز رفتار نقل وحرکت کی صلاحیت اور قومی افواج سے زیادہ سروسز،زون سکیورٹی ،خفیہ آپریشن،پیشگی جائزہ کاری اور بحری فضائی اور بری لاجسٹک سپورٹ مہیا کرتی ہے۔


اکیڈمائی جو بلیک واٹر کے نام سے مشہور ہوئی امریکی نیوی کے آفیسر ایریک پرسن نے اس کا داغ بیل ڈالی اس نے افغانستان اور پاکستان میں جنگی ٹھیکے حاصل کئے یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔ایشیا سکیورٹی گروپ افغانستان میں قائم پرائیوٹ ملٹری کارپوریشن کابل،قندھار،جلال آباد،اور مزار شریف میں دفاتر رکھتی ہے اور ڈین کارپ کے ساتھ مشترکہ کام انجام دے رہی ہے۔

اقوام متحدہ بھی پرائیوٹ ملٹری کارپوریشنز کو اپنے حفاظتی اورامن مشنوں کے لئے کرائے پر لیتی ہے۔ڈین کارپ انٹرنیشنل جسے اقوام متحدہ نے کرائے پر لیا اور وہ بوسنیا میں عصمت دری کے سکینڈل کی وجہ سے بدنام ہوئی۔اقوام متحدہ نے پاکستان میں پشاور میں ایک قلعہ نما کمپاؤنڈ تعمیر کیا اور اس کمپاؤنڈ کو بلیک واٹر پرائیوٹ آرمی نے قبضہ کر کے استعمال کیا۔

بلیک واٹر افغانستان میں امریکی فوج کی اتحادی فورس ہے۔کرایہ کے ایسے ہی قاتل ریمنڈ ڈیوس کا تعلق بھی بلیک واٹر سے ظاہر ہوا تھا۔لیکن پاکستان میں امریکی سفارت خانہ نے اسے اپنا ملازم ظاہر کیا تھا۔کم از کم سوکے لگ بھگ ایسی کارپوریشنز ہیں جو کرایہ کے قاتل مہیا کرتی ہیں اور تقریباََ دنیا کے ایک سو دس ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔
بڑی بڑی فرمیں چھوٹی چھوٹی مقامی ٹیموں کو جنم دیتی ہیں۔

بڑی کمپنیاں ایک نئے حلقے میں داخل ہوتے وقت اپنی طرز کے مقامیوں کو ذیلی ٹھیکیدار بھرتی کرلیتی ہیں یہ مقامی لوگ بھرتی کر کے انہیں تربیت دیتے ہیں اور ان سے پیشہ ور سپاہیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرتے ہیں تاکہ جسے آگے کرایہ پر دیا جاسکے۔ایسے ماحول میں مقامی غنڈہ عناصر جنگجو کھمبیوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں جو اس کاروبار کے عالمی غنڈوں(مافیا) کے ساتھ مل کرفرنچائز نیٹ ورک بناتے ہیں۔

یہ نئے جنگجو گروہ سب سے بڑی بولی دینے والوں کے ہتھے چڑھ کر بڑی کمپنیوں(گیس و آئل)یا پنے ذاتی گروہ بنا کروسیع پیمانے پر لوٹ مار شروع کردیتے ہیں،ریاستی مشینری کو مفلوج کرسکتے ہیں،دولت مندکرائے کے فوجیوں کو بھی استعمال کرسکتے ہیں ایسی ہی ایک شکل بلوچستان میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں ایسی پرائیوٹ کرائے کی فوجیں بلوچستان کے اندرونی جھگڑوں میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آرہی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Balochistan Main Khufia Quwaton Ki Yalghaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 June 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.