بھارت اور افغانستان کا سٹریٹجک ہتھیار

وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں مگر اس حقیقت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں کہ ارض وطن کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور حساس صوبہ بلوچستان ایک دفعہ پھر ملک دشمنوں کی خون آشام کارروائیوں کی زد میں ہے۔ دشمن کی ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں آئے دن ان گنت معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں

جمعہ 11 نومبر 2016

Baharat Or Afghanistan Ka Strategic Hathyar
خالد کاشمیری:
وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں مگر اس حقیقت سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں کہ ارض وطن کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور حساس صوبہ بلوچستان ایک دفعہ پھر ملک دشمنوں کی خون آشام کارروائیوں کی زد میں ہے۔ دشمن کی ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں آئے دن ان گنت معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ 24 اکتوبر کو پولیس ٹریننگ کالج کے ہوسٹل پر دہشتگردوں کے خوفناک حملے میں 64 کیڈٹوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 150 زخمی ہوئے۔

اس لرزہ خیز قومی سانحہ کے اگلے روز ہی کوئٹہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف وزیراعلیٰ بلوچستان ، وفاقی وزیر داخلہ ، گورنر بلوچستان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹینٹ جنرل عامر ریاض ، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس میجر جنرل ذکی اور ڈی جی ایم او سمیت انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کانسٹیبلری نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس اجلاس میں آئی ایس آئی کمانڈر بریگیڈئر خالد فرید نے بتایا کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے ہاسٹل پر حملے کا منصوبہ نئی دہلی (بھارت) میں تیار کیا گیا اور افغانستان میں ”را“ کے نیٹ ورک کے سپرد ہوا۔ اس کے بعد یہ منصوبہ افغانستان میں ہی لشکر جھنگوی کے حوالے کیا گیا۔ جس نے کوئٹہ میں اس پر عمل کیا۔
اس حقیقیت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عساکر پاکستان کی طرف سے جاری ضزب عضب کے نتیجے میں دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا گیا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ملک کے تمام صوبوں میں یکساں طور پر ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونے کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو مکمل طور پر ختم کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔

جو بعض علاقوں میں ارباب بست و کشاد کے مخصوص مفادات کے ہوتے ہوئے دور نہ ہو سکیں۔ جبکہ عساکر پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحل شریف بار بار اس بات کا اعادہ کرتے رہے کہ دہشت گردوں اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ختم کر کے ہی دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب جہاں تک سانحہ کوئٹہ کا تعلق ہے ۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ کے خوفناک اور لرزہ خیز سانحہ کے ڈانڈے بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ سے ملتے ہیں۔

جس نے اس انسانیت سوز کارروائی کا منصوبہ دہلی میں تیار کر کے اسے افغانستان میں اپنے ”را“ کے نیٹ ورک کے ذریعے بھیجا تھا۔ اسی طرح سانحہ کوئٹہ کے دوسرے دن صوبہ بلوچستان کے صوبائی ترجمان انوارالحق کاکڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واشنگاف الفاظ میں کہا کہ بھارت اور افغانستان جیسی ریاستیں دہشت گردی کو سٹریٹجک ہتھیار کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔

جو شدت پسندوں، دہشت گردوں کو اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کی طرف سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے کی صدائے بازگشت کافی عرصے سے سنی جا رہی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ برس قبل 7 مئی 2015 ء میں جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ کور کمانڈر کانفرنس میں ”را“ کے پاکستان میں دہشت گردی کو شہ دینے کا نوٹس لیا گیا تھا۔

گویا ملک کی فوجی قیادت بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیوں اور سازشوں سے پوری طرح آگاہ ہے۔
مگر حقائق کچھ اس طرح ہیں اور یقیناً یہی ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور افغانستان کے معاملے میں پاکستان اپنی سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور خارجی حکمت عملی پر پہلی فرصت میں نظر ثانی کرے۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ”را“ کی سازشیں طشت از بام ہو چکی ہیں۔

اس کے ثبوت میں ”را“ کے ایجنٹ کو پیش کیا جا سکتا ہے جو کلبھوشن کے نام سے پاکستان کا ”سرکاری مہمان“ بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے منصوبوں کو پاکستان میں روبہ عمل لانے کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنے زیر تسلط کشمیر میں بھی ظلم و جبر اور وحشت و بربریت کی فضا پیدا کر رکھی ہے جبکہ کشمیری مسلمانوں پر روا رکھے جانے والے بہیمانہ مظالم اور ان کی قتل و غارت گری سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت کنٹرول لائن پر بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

جس کے نتیجے میں آئے دن پاکستانی شہری جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ اگرچہ عساکر پاکستان کی طرف سے جوابی فائرنگ کر کے بھارتی بزدل فوج کے چھکے چھڑائے جاتے ہیں مگر بھارت اپنی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے باز آنے والی جنس نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت ایسے عیار و مکار اور مسلم دشمن سے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ تک تجارتی اور کاروباری تعلقات منقطع رکھے جائیں۔

آخر وہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کو بھارت سے برآمد کئے بغیر پاکستان کے عوام جی نہیں سکتے؟ پھریہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جو چیزیں بھارت سے برآمد ہورہی ہیں ان کی پاکستان میں بہتات ہے۔ ایسی اشیاء کے بھارت سے برآمد ہونے پر ملکی پیداوار اور ان کے پیدا کرنے والے ہاتھ بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کے قریباً تمام خطوں میں پیاز، لہسن، ٹماٹر اور آلو وغیرہ کی پیداوار نہ صرف ضرورت سے زیادہ بلکہ کوالٹی کے لحاظ سے بھی دنیا بھر کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

یہی اشیاء بھارت سے منگوانے پر پاکستانی کاشتکاروں کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ ان کی اجناس کا نکاس نہ ہونے سے انہیں ناقابل تلافی معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایسے کاشتکاروں کا گھریلو اقتصادی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہی صورتحال پھلوں کے بعض اقسام کی ہے۔ جو خدا معلوم کن ارباب حل و عقد نے بھارت سے برآمد کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

اس قسم کی صورتحال پاکستان کے غیور عوام کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چند نام نہاد پاکستانی سرمایہ دار تاجروں اور آڑھتیوں کے مخصوص مفادات کے تحت بھارت سے پھلوں اور چند ایک سبزیوں کی برآمد کا سلسلہ بند کرنے میں حکومت کو دیر نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح پاکستان کیخلاف بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنیوالے افغانستان کے بارے میں بھی تجارتی کاروباری اور خارجی پالیسی پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔

ایسے انتظامات کرنے لازمی ہیں کہ پاکستان سے بکروں، آٹا اور سبزیوں اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ کو روکا جائے اور بھارت سے جو اشیاء پاکستان کے راستے افغانستان بھیجی جاتی ہیں ان کی پوری طرح چھان بین کر کے ان کی ”کلیرنس“ دی جائے۔ یہی وہ صحیح اور جائز طریقہ ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے ایک طرف چھوٹے کاشت کاروں کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی تو دوسری طرف پاکستان کے بدخواہ اپنے کئے کی سزا بھگتنے کے پچھتاوا سے دوچار ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ ایسے عناصر اپنے رویوں پر نظرثانی کے لئے مجبور ہو جائیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا واسطہ صرف افغانستان سے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Baharat Or Afghanistan Ka Strategic Hathyar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 November 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.