بچوں کا اغوا یا افواہ سازی کلچر

ملتان شہر میں افواہیں پھیلنے سے مضحکہ خیزاور غور طلب واقعات رونما ہونے لگے بیٹوں نے ماں اور باپ کو اغوا کارسمجھ کر تشدد کانشانہ بنایا

جمعہ 26 اگست 2016

Bachon Ko Aghwah Ya Afwah Sazi Culture
سلیم ناز :
ملتان اور گردونواح میں بچوں کے اغواء کی خبروں نے خوف وہراس پھیلا رکھا ہے جبکہ آرپی اور ملتان اس امرکی تردید کررہے ہیں۔ ان کے مطابق شہراور دیہی علاقوں کی خبروں میں حقیقت کاعنصر کم ہی پایا جاتا ہے۔ اکادکااغواء کی واردات ہوبھی جاتی ہے تو اس کے پیچھے دیگر عوامل کارفرماہوتے ہیں۔ تلمبہ کاایک واقعہ ملاخطہ ہو۔

مانک ہراج رہائشی رب نواز کاسات سالہ بیٹا دلاور نواز گھر کے باہر سے غائب ہوگیا اس کے ساتھ کھیلنے والے پانچ سالہ جمشید نے بتایا کہ دلاور کو ایک کار میں سوار افراد ٹافی دینے کے بہانے اٹھا کرلے گئے ہیں۔ کچھ روز بعدگمشدہ بچے دلاور کی لاش دریائے راوی سے غوث پورے کے مقام پر مل گئی۔ تلمبہ پولیس نے شک پر ایک مشکوک ہمسایہ 16سالہ حسن رضا کو تحویل میں لیا تو اس نے اقرار جرم کرتے ہوئے بتایا کہ دس سالہ شعبان ولد خان اورسات سالہ جنید ولد عابد، دلاور کو ورغلا کر گھر سے دور لے گئے اور گلا دبانے کے بعد دریا میں ڈبو دیا۔

(جاری ہے)

ملتان شہر کے مختلف علاقوں میں پھیلنے والی افواہوں سے بہت سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جو مضحکہ خیزتو ہیں ہی غورطلب بھی ہیں۔ شہری بچوں کے اغواء کے حوالے سے اتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ انہیں رشتوں اور اغواء کار کی پہچان نہیں رہتی لہٰذا وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے باز نہیں رہتے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات کیاہوگی کہ بچہ اغواء کرنے کے الزام میں بیٹے نے بہنوئی سے مل کر ماں کو تشدد کانشانہ بناڈالا۔

پولیس نے مقدمہ درج کرکے دونوں کو گرفتار کرلیا۔ اسی طرح کاایک واقعہ سکندر آباد میں پیش آیاجہاں رات کی تاریکی میں سگے بیٹوں نے اغواء کارسمجھ کر باپ کی دھلائی کردی۔ ذرائع کے مطابق بن کھاڑہ سکندرآباد کا رہائشی خدابخش محنت مزدوری کرکے رات کو دیر سے گھر واپس آیادروازے پر دستک دی۔ چونکہ اہل خانہ سو چکے تھے لہٰذا خد ا بخش دیوار پھلانگ کرگھرمیں داخل ہوا تو بیٹوں نے باپ کی ایک نہ سنی اور اسے مارنا شروع کردیا۔

بعد میں پتہ چلاتو باپ کی دھلائی ہوچکی تھی۔ ایک اور واقعہ میں بستی ملوک کے لوگوں نے وہاں پھرنے والی نامعلوم خاتون اور مرد کو اغواء کارسمجھ کر پیٹنا شروع کردیا۔ خاتون کو اس قدرتشدد کانشانہ بنایا کہ وہ ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئی ۔ جبکہ مرد کو پھانسی دینے کی کوشش کی جسے وہاں سے گزرنے والوں نے بچا لیا۔ ایک علاقے میں شعراء بھی اغواء کارہونے کے شبہ میں تشدد کانشانہ بن گئے۔

واقعہ کے مطابق نواں کوٹ کے علاقے میں دو شعراے کرام کی بچوں سے پتہ پوچھنے پر مشتعل لوگوں نے اسقدر پٹائی کی کہ انہیں مشاعرہ بھول گیا۔ ان کی گاڑی بھی توڑ پھوڑ دی۔ پٹرولنگ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ان کی جان بچائی۔ لیکن چند وا قعات ایسے بھی ہیں جن میں حقیقت نظر آتی ہے جنہیں محض افواء سمجھ کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ جلالپور پیروالہ میں 16سالہ لڑکے کے اغواء کی کوشش ناکام ہوگئی۔

موضع صبرا کے رہائشی اللہ یار کا 16 سالہ بیٹا راشد بستی چن والا جارہاتھا کہ راستہ میں 3افراد نے اسے نشہ آورشے کے ذریعے بے ہوش کرنے کی کوشش کی۔ شورواویلا پر قریب موجود لوگ جمع ہوئے تواغواء کرنے والے کھیتوں میں گھس گئے اور فرارہوگئے۔ راشد کو بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال پہنچادیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق ملک کے دیگر شہروں کی طرح لڈن و گردنواح میں بھی بچوں کے اغواء کی وارداتوں کی افواہیں عروج پر پہنچ چکی ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔

نواحی علاقہ دولت آباد میں صدروین چدھڑ کے گھر میں بھی چند افراد اس کے بچے کو اغواء کرنے لگے تواہلخانہ کے شور واویلہ پر وہ بچے کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جبکہ موضع شادا بلوچ میں مختار سیال کے بچے کو بھی اغواء کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ مکینوں کے جاگنے کی بنا ء پر ناکام ہوگئی ۔ جبکہ جوئیاں والی آبادی میں افواہ پھیلی ہے کہ رات کو چند افراد ایک گھر میں داخل ہوکر چھ ماہ کی بچی کو اغواء کرکے لے جارہے تھے کہ گھر کے افراد جاگ گئے۔

شور پر وہ بچی کو جانوروں والی کھرلی میں پھینک کر فرار ہوگئے جبکہ اس بارے میں پولیس مکمل طور پر خاموش ہے جس پر شہریوں نے حکام سے لوگوں کاسکون برباد کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف ہماری انتظامیہ سرے سے ان واقعات کو افواہیں سمجھ کر نظرانداز کررہی ہے ان کاکہنا ہے کہ عوام ان پرکان نہ دھریں اور اپنی حفاظت کاخود بندوبست کریں۔

پولیس انتظامیہ نے تو مختلف سکولوں میں جاکر سیفٹی لیکچردینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ بچوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ گھر سے اکیلے باہر نہ نکلیں۔ اگر کوئی مشکوک شخص نظرآئے تواس کے اطلاع اپنے ماں باپ اور اساتذہ کودیں۔ سیفٹی کے یہ اقدامات اپنی جگہ لیکن ان افواہ ساز فیکٹری والوں کا کیا کیاجائے تو تصدیق کئے بغیر اغواء کی کہانیاں آگے سے آگے پہنچاتے ہیں اگر ان سے کوئی تصدیق کرت تو کہا جاتا ہے کہ میرے دوست کے دوست یارشتہ دارکے رشتہ دار کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

اگر کوئی ہمت کرکے ان تک پہنچ بھی جائے تو وہ آگے کاراستہ دکھادیتے ہیں۔ وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ ایسے کسی واقعہ کاسرپیر ہی نہیں ہے۔ اب اغواء کی جھوٹی اطلاعات دینے والوں کے خلاف پولیس نے کارروائی کاآغاز کردیا ہے دیکھئے افواہوں کا یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bachon Ko Aghwah Ya Afwah Sazi Culture is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 August 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.