بابِ پاکستان بھوت بنگلہ بن گیا

لاہور سے واہگہ بارڈر اور قصور کی سرحدی لائن گنڈا سنگھ بارڈر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان پاکستان میں داخل ہوئے اور انہوں نے بارڈر کراس کرنے کے بعد مرکزی والٹن کیمپ میں قیام کیا

جمعرات 13 اگست 2015

Baab e Pakistan Bhoot Bangla Ban Giya
فرزانہ چودھری:
بابِ پاکستان ایک قومی یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1947ء کو قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو لاکھوں کی تعداد میں برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے خوابوں اور آزادی کی سرزمین پاکستان کا رْخ کیا تھا۔ برِ صغیر کے مسلمانوں کی پاکستان کی جانب ہجرت دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت ہونے کا منفرد اعزاز رکھتی ہے۔ لاہور سے واہگہ بارڈر اور قصور کی سرحدی لائن گنڈا سنگھ بارڈر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان پاکستان میں داخل ہوئے اور انہوں نے بارڈر کراس کرنے کے بعد مرکزی والٹن کیمپ میں قیام کیا اور پھر یہاں سے اپنی اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔

اس لیے مرکزی والٹن کیمپ پاکستان کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے اورپاکستان کی تاریخ میں اہم ترین حیثیت کا حامل ہے کہ اس مقام نے ہی ہندوؤں اور سکھوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے آزادی کے متوالوں کو اپنے دامن میں جگہ دی تھی۔

(جاری ہے)

یہ کیمپ ہمارے قومی تفاخر کا استعارہ بن چکا ہے کیونکہ اس کی زمین کا ذرہ ذرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے آزادی کے چراغ اپنے لہو سے جلائے تھے اور ایک آزاد وطن، جسے قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور اسلام کے آفاقی اصولوں کے عملی اطلاق کیلئے ایک تجربہ گاہ بننا تھا، کیلئے اپنی جان، مال اور ناموس کی قربانی پیش کی تھی۔


مرکزی والٹن مہاجرین کیمپ کی اہمیت اس وقت دو چند ہوئی جب قائد اعظم محمد علی جناح نے قائدِ ملت لیاقت علی خان اور دیگر اکابرین کے ہمراہ یہاں کا دورہ کیا تھا۔آج ہر وہ جگہ اور چیز ہمارے قومی ورثے کا حصہ ہے جس کے ساتھ بابائے قوم قائد محمد علی جناح اور ان کے قابلِ احترام ساتھیوں کی کوئی نہ کوئی یاد وابستہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہندوؤں اور سکھوں کی بربریت کا نشانہ بننے والے آزادی کے متوالوں کو خراج تحسین کے طور پر مرکزی والٹن مہاجرین کیمپ کو ایک قومی یادگار کی حیثیت دینے کی تجویز گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے 1985ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے سامنے پیش کی تھی اور انہوں نے اس تجویز کی منظوری دی اور مرکزی والٹن مہاجرین کیمپ کا نام بابِ پاکستان رکھا گیا۔

یادگار باب پاکستان کے ڈیزائن کی ذمہ داری نیشنل کالج آف آرٹس کے گریجوایٹ آرکیٹیکٹ امجد مختار کو سونپی گئی۔ گورنر پنجاب لیفٹینٹ جنرل غلام جیلانی خان نے اپنے دورِ اقتدار میں لاہور میں بہت سے ترقیاتی کام کیے تھے جن میں سے لاہور کا ریس کورس پارک اور چلڈرن کمپلیکس قابل ذکر اور سرِ فہرست ہیں۔ 1985 ء میں گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کی مرکزی والٹن مہاجرین کیمپ کو یاد گار بنانے کی تجویز کی منظوری کے بعد اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے یاد گار باب پاکستان کا منفرد ڈیزائن تیار کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس کیلئے طے کیا گیا کہ جہاں بابِ پاکستان 1947ء میں سرحد پار سے آنے والے مہاجرین جنہوں نے دوران سفر جانی اور مالی نقصان اٹھایا اور آزادی کی تحریک کے دوران برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں کی ترجمان ہو گا وہیں اس کے طرزِ تعمیر سے ہماری منفرد ثقافت تہذیب، جدت کے ساتھ اسلامک اور مغل آرکیٹیکچرل ڈیزائن کے تمام رنگ خاص طور پر نمایاں کئے جائیں گے۔


صدر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں قومی یادگار ’باب پاکستان‘ کی تعمیر کا آغاز تو ہوا مگر 1988ء میں طیارے کے حادثے میں صدر جنرل ضیاء الحق کی موت کی وجہ سے ملک میں سیاسی صورتحال غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ’باب پاکستان‘ کی تعمیر کا کام معطل ہو کر رہ گیا۔
1991ء میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں قومی یادگار ’بابِ پاکستان‘ کے پراجیکٹ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی تعمیر کا دوبارہ آغازکرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور ایک مرتبہ پھر قومی یاد گار ’باب پاکستان‘ کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔

اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے ’باب پاکستان‘ کے تعمیراتی پراجیکٹ کے دوبارہ آغاز کا اعلان کیا۔ بابِ پاکستان کی جگہ پر آرمی بیرکس بنی تھیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ان آرمی بیرکس سے یہ جگہ خالی کروائی جس میں سابق گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول کی بھی کوشش شامل تھی۔ اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے یوم آزادی کے موقع پر یعنی 14اگست کو اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پراجیکٹ کو30ء ماہ میں مکمل کرنے کا شیڈول بنایا گیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا ء پر2011 ء میں یہ منصوبہ ایک مرتبہ پھر التواء کا شکار ہو گیا۔


باب پاکستان کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب دو مرتبہ ہو چکی ہے۔ پہلی مرتبہ1991ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے اس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا جبکہ 2004ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے ’باب پاکستان‘ کی تعمیراتی پراجیکٹ سنگِ بنیاد رکھ کر دوسری بار افتتاح کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق 117 ایکڑ زمین پر محیط قومی یادگار ’باب پاکستان‘ کی تعمیر کے منصوبے پرتاحال 850 ملین روپے خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس پراجیکٹ کا صرف 30فیصد مکمل ہوا ہے۔

2005ء میں اس پراجیکٹ کا تخمینہ 2ہزار 47 ملین روپے لگایا گیاتھا مگر اپنی مقررہ مدت پر اس پراجیکٹ کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تعمیری لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
قومی یادگار ’باب پاکستان‘ جس کی تعمیر کا آغاز 30سال قبل کیا گیا تھا اور جو مختلف دور حکومت میں التواء کا شکار ہوتا رہا لیکن 2?اپریل 2014ء کو ایک بار پھر ”باب پاکستان“ کے تعمیراتی پراجیکٹ کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا۔

پنجاب حکومت کا کہنا تھا سیاسی اور مالی وجوہات کی بنا پر قومی یاد گار ’باب پاکستان‘ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس سلسلہ میں فاؤنڈیشن کا قیام عمل لائے اور ایک گورننگ کونسل کمیٹی بنائی گئی جو تعمیر کا کام اور دیگر کے لیے ضروری قانون سازی کے معاملات، فنڈز کی فراہمی اور دیگر امور کی نگرانی اور منصوبے کی تکمیل کے ضروری معاملات کی انجام دہی کیلئے قائم کی گئی تھی۔


ابتداء میں بابِ پاکستان کے تعمیراتی منصوبے کی ذمہ داری آرمی کمانڈر کور فور کو سونپی گئی تھی لیکن اب پنجاب حکومت نے اس منصوبے کو ٹیک اوورکرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی بنیادی وجہ اس کاسول حکومت کی نگرانی میں نہ ہونا تھا۔
یاد رہے 2012ء میں بھی حکومت پنجاب گورنمنٹ مسلم لیگ (ن) کی تھی اس وقت بھی چیف سیکرٹری کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی ذمہ داری اس پراجیکٹ کی جلد از جلد تکمیل تھی۔

کمیٹی نے کئی بار میٹنگز کیں لیکن 2013ء کے الیکشن کی انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے ”باب پاکستان“ تعمیراتی پراجیکٹ بارِ دگر سرد خانے میں چلا گیا۔ 6?اپریل 2015ء کو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ’باب پاکستان‘ کے منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کی جس میں سیکرٹری اطلاعات مومن آغا نے قومی یادگار ’باب پاکستان‘ کے منصوبے پر بریفنگ دی۔


باب پاکستان کے لیے ماڈل کے مطابق بیسمنٹ کے اوپر چبوترا بنایا گیا ہے جس میں 24خیمے بنے ہیں جن میں تحریک پاکستان کے وقت کی تصاویر آویزاں کرنے کے لیے بنائے گئے یعنی 24 خیمے ایک طرح کے فوٹو گیلری ہوں گے۔ چبوترے کے درمیان میں 164 فٹ لمبائی کا ایک میموریل مینار بنے گا جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہو گا۔
باب پاکستان کے چبوترے کے بیسمنٹ میں چار سیکشن ایک آڈیٹوریم، آرٹ گیلری، لائبریری اور میوزیم ہوں گے جس میں تصاویر، لٹریچڑ، تحریک پاکستان سے متعلقہ مواد آڈیو اور ویڈیو دیکھی جائیں گی۔


باب پاکستان منصوبے کے تحت فوارہ، بارہ دری ،باغ، ریستوران اور کھیلوں کی سہولیات،دو سکول، ایک مسجد اور چار ہالز پر مشتمل وسیع و عریض عمارت تعمیر کی جائے گی۔ اس کے چار دروازے ہیں جبکہ دو مین داخلی گیٹ ہیں۔
دیکھا جائے تو ’باب پاکستان‘ دوسرا کالا باغ ڈیم ہے جو سیاست کی نذر ہوتا رہا ہے۔ 2009ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے باب پاکستان کی جگہ کا دورہ کیا۔

ذرائع کے مطابق باب پاکستان کے چبوترے پر بنے خیموں پر 80کروڑ کا پتھر لگتا تھا اور یہ پتھر بیرون ملک سے منگوایا جانا تھا اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہدایت دی کہ خیموں پر لوکل پتھر لگوایا جائے تاکہ لاگت کم آئے۔ ابھی تک صرف ایک خیمہ ہی تعمیر ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکم نامہ تو جاری کر دیا ہے مگر اس ایک خیمے پر نہ تو بیرون ملک کا پتھر لگا اور نہ ہی لوکل پتھر لگایا گیا۔

2010ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پراجیکٹ کا پھردورہ کیا اور اس کی تعمیرکو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی مگر اس حکم نامہ کو بھی عملی جامہ پہنایا نہ جا سکا۔
اس پراجیکٹ کا تعمیراتی کام کا آغاز نومبر 2006ء کو ہوا جو 2011ء تک جاری رہا اور 2011 ء سے تا حال رکا ہوا ہے۔ دو سکول بوائز اینڈ گرلز ’باب پاکستان‘ کا حصہ ہیں جو 2010ء میں مکمل ہو گئے تھے اور وہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ابھی تک بابِ پاکستان منصوبے کا یہ واحد حصہ ہے جو پایہِ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔


وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جولائی 2014ء میں باب پاکستان فاؤنڈیشن بنائی جس کی گورننگ کونسل کے چیئر مین وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق ہیں وزیر اعلیٰ نے باب پاکستان کی تعمیراتی پراجیکٹ مکمل کرنے کا ٹاسک خواجہ سعد رفیق کو دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق باب پاکستان کی تعمیر کا ٹھیکہ تعمیراتی کمپنی حسنین کوٹیکس لمیٹڈ (HCL) کو دے دیا۔

2011ء میں حسنین کوٹیکس لمیٹڈ ڈیفالٹر ہو گئی اور تعمیراتی کام رکاہوا ہے۔ باب پاکستان کی تعمیر کا کام باب پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ہے۔ اس کے آرکیٹکٹ امجد مختار ایوسی ایٹ اور تعمیراتی مشاورت نیسپاک پرائیویٹ لمٹیڈ کی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ کی قائم کردہ کمیٹی کی مشاورت کے بعد باب پاکستان کے ڈیزائن کو آسان پائیدار اور اقتصادی طور پر قابل عمل بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Baab e Pakistan Bhoot Bangla Ban Giya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 August 2015 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.