انجیلا مرکل کی کامیابی ، تارکین وطن کیلئے اُمید کی کرن

ٹرمپ کی مشکلات میں اضافہ․․․․․ یورپی عوام کی اکثریت کسی بھی اسلام مخالف مہم جوئی کی حامی نہیں

ہفتہ 14 اکتوبر 2017

Anjeela Markel Ki kamyabi tarkeen Watan k liye Umeed ki Kiran
راؤ محمد شاہد اقبال:
جرمنی میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں چانسلر انجیلا مرکل کی جماعت کرسچئن ڈیمو کریٹک یونین اور دیگر اتحادیوں نے میدان مارلیا۔ انجیلا مرکل نے چوتھی بار جرمن چانسلر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کیا ہے۔ انجیلا مرکل کی کامیابی جہاں جرمنی میں مقیم تارکین وطن اور پناہ گزینوں کیلئے خوشی کی خبر ہے وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ایک بری خبر ہے ۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک انجیلا مرکل کی کامیابی سے امریکہ اور یورپ کے درمیان پہلے سے قائم سیاسی خلیج مزید گہری ہوگی کیونکہ انجیلا مرکل ٹرمپ پالیسیوں کی سخت ناقد تصور کی جاتی ہیں۔ جرمن پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق حکمران جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین اور کرسچن سوشلسٹ یونین کے اتحاد کو 33.3 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی ۔

(جاری ہے)

سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی نے 20.5 فیصد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔ یہ سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کی تاریخ کی سب سے خراب ترین اور شرمناک کارکردگی ہے جبکہ مسلمانوں ، تارکین وطن، شامی پناہ گزینوں کی آمد کی سخت مخالف دائیں بازو کی قوم پرست جماعت اے ایف ڈی کو 13.2 فیصد ووٹ ملے جس کے باعث موجودہ انتخابات میں اے ایف ڈی جس نے اپنی تمام انتخابی مہم کے دوران شامی پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی جرمنی آمد کے مسئلے کو انتہائی شدو مدسے اُٹھایا اور ملک بھر میں قوم پرستانہ جذبات پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ یورپی عوام کی اکثریت اسلام مخالف کسی بھی مہم جوئی کی حامی نہیں ہے۔

جرمنی کے حالیہ انتخابات کے نتائج اس لئے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان نتائج سے دیگر یورپی ممالک میں بھی اسلام مخالف رائے عامہ ہموار کرنے والی تمام قوم پرست جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ انجیلا مرکل کو اپنے نئے دور حکومت میں بہت سے نئے چیلنجز ز کا سامنا کرنا ہوگا جن میں سے ایک نئی معاشی پالیسی کا نفاذ ہوگا کیونکہ آنے والے دنوں میں جرمنی کوافرادی قوت میں سخت کمی کا سامنا ہوگا۔

اس حوالے سے جرمنی کے معاشی پالیسی ساز وں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ ہنر مند افراد کی کمی جرمنی کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا حل انہوں نے اگر بروقت نہ کیا تو ان کے ملک کو تاریخ کا بدترین معاشی ابتری کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ افرادی قوت میں تیزی سے ہونے والی کمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1900ء میں صرف زرعی شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 38 فیصد تھی جو 2000ء میں کم ہوکر صرف 2 فیصد کی کم ترین سطح پر آگئی ہے ، اس لئے مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے حالیہ انتخابی مہم کے دوران یہ تجویز بھی پیش کی گئی تھی کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر70 سال تک کردی جائے اور لوگوں کو یہ ترغیب دی جائے کہ اگر وہ اس عمر تک کام کریں گے تو انہیں اضافی پنشن بھی دی جائے گی۔

لیکن جرمنی کے معاشی پالیسی ساز اس منصوبہ کو ناقابل عمل قرادیتے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ 70 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان جسمانی طور پر اس قابل ہی نہیں رہ پاتا کہ وہ دوسروں کے لئے کسی بھی طرح کی خدمات انجام دے سکے کیونکہ اس عمر میں تو خود اسے خدمت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ جسے نئی حکومت نے حل کرنا ہے وہ گلوبائزیشن کا ہے۔

جرمنی کی خواہش ہے دنیا بھر کی کمپنیاں اس کے ہاں کام کریں تاکہ ٹیکس کی مد میں اسے خاطر خواہ معاشی فوائد حاصل ہوسکیں اس کے لئے امیگریشن قوانین میں تبدیلی اور افرادی قوت کے لئے تارکین وطن کو اپنے ملک میں آنے کی ترغیب دینا آنے والوں دنوں میں وہ ممکنہ ہدف ہوسکتے ہیں جن کے حصول کے لئے انجیلا مرکل کو کئی مشکل فیصلے اور اقدامات کرنے پڑسکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیرس معاہدہ سے یک طرفہ علیحدگی کے اعلان کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مئوثر پالیسی سازی کرنا بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو نئے دورِ حکومت میں انجیلا مرکل کے لئے ایک مشکل ہدف ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جرمنی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو مستقبل میں گلوبل وارمنگ کا سب سے زیادہ شکار ہوسکتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لئے جرمنی پہلے ہی سے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے کئی معاہدوں پر کام کررہا ہے، اس لئے جرمنی کی شدید خواہش ہے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدہ ہر صورت کامیابی سے ہمکنار ہو، اس حوالے سے جرمنی یورپین یونین میں اس بات کا بھی حامی ہے کہ اس معاہدہ کا حصہ بنالیا جائے ، تاکہ امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد اخراجات میں کمی کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے، آخری اور سب سے بڑا چیلنج جو انجیلا مرکل کی نئی حکومت کو درپیش ہوگا وہ یورپین یونین کو اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رکھنا ہے۔

جرمنی کی خواہش ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد سے یورپی یونین جس بحران سے گزر رہا ہے اس سے جلد از جلد باہر نکل آئے ، اس کے لئے جرمن چانسلر انجیلا مرکل چاہیں گی کہ یورپی یونین کے تمام ممالک ایک مشترکہ ڈیفنس سسٹم اور سکیورٹی پالیسی جلد از جلد ترتیب دے لیں تاکہ یورپ پر حملہ آور دہشت گردی کے عفریت سے مقابلہ کرنے کے لئے انہیں دنیا کے کسی اور ملک خاص طور پر امریکہ کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Anjeela Markel Ki kamyabi tarkeen Watan k liye Umeed ki Kiran is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.