امریکی اقدام”بڑی جنگ“ کی جانب پہلا قدم

مقبوضہ بیت المقدس جلد عالمی سیاست کا مرکز بننے جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روس نے شام سے انخلا کا اعلان کرکے امریکیوں کو پریشان کردیا

پیر 18 دسمبر 2017

Amreice Iqdaam Bari Jung Ki Janib Pehla Qadam
محمد انیس الرحمن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے وہاں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا تو تمام دنیا میں نہ صرف اس کی شدید مذمت کی گئی بلکہ مغرب کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں بھی شدید رعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ حیرت کی بات کہ امریکی کانگریس نے 1995 ء میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی قرار داد منظور کی تھی لیکن اس وقت مسلم دنیا کی جانب سے سوائے بیان بازی کی حد تک شدید ردعمل سامنے نہیں آیا تھا اس کے بعد سے لیکر آج تک ہر امریکی صدارتی امیدوار کے سیاسی منشور میں یہ شق بھی لازمی شامل ہوتی تھی کہ وہ حتی الوسع کوشش کرے گا کہ امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کیا جائے۔

(جاری ہے)

یہ باتیں مسلم امہ کے سامنے ہورہی تھیں مگر کسی نے بھی اس معاملے کی جانب دست احتجاج دراز نہ کیا ۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ اقدام نہ تو اچانک ہے اور نہ ہی ٹرمپ جیسے متلو ن مزاج شخص کی مہم جوئی بلکہ یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتدا ایک صدی قبل کردی گئی تھی۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کے اعلان کی ٹائمنگ بھی خاصی دلچسپ ہے یعنی ٹھیک سو برس قبل یعنی 1917ء میں نیو یار ک میں بالفورڈیکلریشن کے نام سے اسرائیل کے قیام کی قرار داد منظور کی گئی تھی اس کے ٹھیک سو برس بعد یعنی2017 ء میں امریکی صدر مقبوضہ المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

کیا یہ سب کچھ اتفاق تھا؟1917 ء میں بالفورڈیکلریشن کے نام سے برطانوی وزیراعظم آرتھر جیمس بالفور کی جانب سے اسرائیلی قیام کی قرار داد منظور کرنے کے بعد پچاس برس تک یورپ سے امریکہ کی جانب یہودیوں کی بڑی ہجرت عمل میں آتی ہے ۔ یہی وہ پچاس برس ہیں جب برطانیہ سے عالمی حکمران ریاست کا منصب یا اسٹیٹس لندن سے واشنگٹن منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح برطانوی کرنسی یا سکہ پونڈ کی عالمی حیثیت سکڑ کر برطانیہ تک محدود ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ ڈالر عالمی حکمران کرنسی کے طور پر ابھرتا ہے۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عالمی سیادت کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی کرنسی دنیا میں دییگر کرنسیوں کے مقابل سب سے طاقتور ہو۔ اتنی بڑی تبدیلی کے ضروری ہے کہ عالمی سطح کی جنگ بھی کروائی جاے جو دنیا کے رائج الوقت کو ہلا کررکھ دے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ بھی 1914ء سے لیکر 1918 ء تک کا ہے جس کے دوران اسرائیل کے قیام میں قرار داد کو نیویارک میں منظور کیا گیا ۔

اس کے بعد ہی امریکہ نے یورپی یہودیوں کے لئے امریکہ کے دروازے کھول دیئے۔ اسی وجہ سے یورپ کے معاشی حکمران صہیونی خاندان روتھ شائلڈ کے امریکہ میں فرنٹ مین جے پی مورگن نے امریکہ کو اقتصادی دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے بیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔ اس کے بعد یورپی معاملات تک محدود لیگ آف نیشنز کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت تھی اس کے علاوہ اس کا ہیڈ کوارٹر یورپ سے نئی عالمی حکمران ریاست امریکہ منتقل کیا جانا تھا اسرائیل کے جغرافیائی قیام سے پہلے ایک اور بڑی جنگ کروانا مقصود تھا اس لئے دنیا نے دوسری جنگ عظیم کی ہولناک کیا دیکھیں اس ہولناک جنگ کے اختتام کے بعد ہی اسرائیل کا قیام ممکن ہوسکا تھا اس سے پہلے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کو جائز قرار دلوانے کے لئے دنیا کو پہلے ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جانا تھا اس کے علاوہ اسی پلیٹ فارم سے مغربی نو آبادی نظام کے تحت آزاد ہونے والی دنیا کو کنٹرول کرنا بھی مقصود تھا اس میں سب سے زیادہ حصہ مسلم ممالک کا تھا اس لئے اسرائیل کے جغرافیائی قیام سے محض تین برس قبل 1945ء میں لیگ آف نیشنز کو اقوام متحدہ کا لبادہ اوڑھا کر اسی نیو یارک میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیاجہاں کبھی بالفورڈیکلریشن منظور ہوا تھا ۔

۔۔ کیا ہم اسے محض اتفاقی معاملہ قرار دے سکتے ہیں۔یہ تمام کاوشیں محض اس ایک صہیونی نظریے کی بنیاد پر ہی ہورہی تھیں کہ یہودیوں کا ”مسیحا“ یروشلم یعنی مقبوضہ بیت المقدس سے دنیا پر حکمرانی کرے گا یہودیون کا مسیحا ہی درحقیقت سچے مسیحوں کا اینٹی کرائس اور مسلمانوں کے نزدیک ”دجال“ ہے یہودی جس مسیحا کا انتظار کررہے ہیں وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صور ت میں دو ہزار برس قبل آچکے تھے لیکن مسیحی کاہنوں نے رومن حکمرانوں کے ساتھ مل کر انہیں مصلوب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اللہ رب العزت کی منشا کے مطابق آسمان پر اٹھا لئے گئے اور یہودی اور ان کے رومن حکمرانوں کو شک میں ڈال دیا گیا برناباس کی انجیل کے مطابق بارہ حواریوں میں سے ایک غدار حواری جس نے گرفتاری کے وقت رومن فوجیوں کے لئے مسیح علیہ السلام کی شناخت کرناتھی بالکل مسیح جیسا ہوگیا اور رومیوں نے اسے ہی گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیا جبکہ اللہ کے نئی کو اللہ کی مرضی سے آسمان کی جانب اٹھا لیا گیا۔

مسیح علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے ستر برس بعد یہودیوں کی عقل ماری گئی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی جس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ ہیکل سلیمانی کو بنیادوں سے ہی تباہ کردیا گیا لاکھوں یہودی قتل کردیئے گئے جو باقی بچ گئے انہیں دنیا کی مختلف قوموں میں منتشر کردیا رومیوں نے پابندی لگائی کہ یہودی کبھی یروشلم واپس نہیں آسکیں گے یہاں تک کہ رومیوں نے یروشلم کا نام بدل کر ایلیا رکھ دیا۔

اس کی تاریخی تفصیلات طویل اور عبرت آموز ہیں۔اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک عالمی دجالی صہیونت کی جانب سے جو بڑا قدم اٹھایا گیا ہے وہ سوویت یونین کی تحلیل اور اس کے بعد مسلمانوں کو آپس میں دست وگریباں کرنا ہے تا کہ اسرائیل کی عالمی سیادت کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کی جاسکیں۔ نوئے کی دہائی میں سوویت یونین کو کس انداز میں بکھیرا گیا وہ تاریخ ہے اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مشرقی یورپ اور روس میں مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کا غلبہ ہے جو کسی طوربھی مغربی یورپ اور امریکہ کی لادینی یا برائے نا کیتھولک یا پڑوٹسٹنٹ عیسائیت سے میل نہیں کھاتی۔

اس لئے مشرقی آرتھو ڈکس عیسائی کی کمر توڑنے کے لئے روس میں کمیونزم کی تحریک چلا کر یہاں سے مذہب کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا اورکمیونزم کا مرکز ماسکو ایک مرتبہ پھر مشرقی آرتھو ڈکس کلیسا کاگہوارہ بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں کی توسیع کے لئے مشرق وسطیٰ کو جنگوں کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے عرب حکومتوں کے ذریعے انہی کی پراکسی تنظیموں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نام پر منتشر کرنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن تو دشمن ہی تھے اپنے بھی دشمن بن گئے اس کے ساتھ ساتھ ایران کو ہوا بھر کر پورے خطے میں مسلکی جنگ کا محاذ بھی کھول دیا گیا عراق، شام، لبنان،اور یمن اس کی واضح مثال ہیں۔

ا س کے بعد دجالی صہیونی قوتوں کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں گڑ بڑ کرانے کی پوری کوشش کی گئی تاکہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جوہری ہتھیار لگ جانے کابہانہ بنا کر افغانستان میں بیٹھی خصوصی فورس کے ذریعے پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ٹھکانے لگایا جاسکے لیکن پاکستان کے دفاعی اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عرب لیگ کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے معاملے کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اٹھایا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب اتنی مار کھا کر بھی یہ نہیں سمجھ سکے کہ اقوام متحدہ کا قیام کیوں عمل میں لایا گیا تھا” اسی عطارے کے لونڈے سے دواء لیتے ہیں“ کے مصداق اب پھر عرب حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔

ٹرمپ بے شک پاگل قسم کا شخص ہے لیکن اس پاگل کو ایک مقصد کے تحت صہیونی اسٹیبلشمنٹ وائٹ ہاؤس لیکر آئی ہے اس سلسلے میں امریکی کانگریس سے قرار داد 1995 ء میں ہی منظور کروالی گئی تھی اب اس پر عملدرآمد کامرحلہ تھا جسے کوئی ”پاگل“شخص ہی کرسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کو اس سلسلے میں سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب مسلمانوں کا فکری اور دینی مرکز تھے انہیں قدرت کی جانب سے یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی قومیت سے تشریف لائے۔

عربوں ہی کی زبان کو اللہ رب العزت نے یہ شرف بخشا کہ اس میں عالم انسانیت کو قرآن کریم کی شکل میں خطاب کیا۔تمام دنیا کی قوموں کو یہ پیغام پہنچانے کا کام شروع میں ان کے ذمے تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی عربوں میں تساہل آیا اور تیل کی دولت نے انہیں بالکل ہی اخلاقی اور فکری طور پر ناکارہ کردیا۔ یہی وہ جرم ہیں جن کا خمیازہ عرب بھگت رہے ہیں اور آگے بھی یہی صورتحال ہے۔

ان حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عرب اور غیر عرب مسلم حکومتوں کی جانب سے زبانی کلامی مذمت کا سلسلہ جاری ہے مگر عالمی صہیونی دجالی قوتوں کو اس کا طویل تجربہ ہے کہ عملاََ مسلمانوں میں ردعمل دینے کے لئے قوت نہیں ہے۔ حالات کا اگر بایک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عالمی صہیونی دجالی قوتوں نے تین محاذ سے مسلمانوں کے خلاف پیش قدمی کی ہے یہ تین محاذ، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی محاذ ہیں۔

سیاسی طور پر ایسی قوتوں کو مسلمانوں کے اقتدار پر مسلط کروایا جو فکری طور پر اپنی ذات یا اپنے اقتدار سے آگے دیکھنے کے پابند نہیں تھے یہ سیاسی حکمران ہوں یا عسکری تمام کے تمام اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک اور ملت کوانتشار کی سولی پرلٹکاتے رہے۔ اس کے بعد فکری محاذ ہے جس کے لئے مسلمان حکمرانوں کے اندر یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اگر صحیح اسلام مکمل طور پر نافذ ہوگیا تو ان کے شخصی اقتدار سب سے پہلے اس کی زد میں آئیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ نفاذ اسلام کی تحریکوں کو ہرجگہ پوری قوت سے کچلا گیا۔ تیسرا محاذ اقتصادی تھا جس کے ذریعے عالمی دجالی ساہوکاری نظام کے تحت دنیا کی معاشیات کو کنٹرول کیا گیا اور قرضوں کی شکل میں بلیک میلنگ کا طویل سلسلہ شروع کیا گی تاکہ دیوالیہ ہونے کا خوف ان حکمرانوں پر ہمیشہ مسلط رہے ۔اسرائیل عرب ممالک کے توانائی کے ذخائر پر قابض ہوکر دنیاری امور اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے تمام مغربی ممالک نیٹو سمیت اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جنگی طبل گذشتہ کئی برسوں سے پیٹا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں وطن عزیز کا سیاسی مافیا اپنی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لئے ملکی اداروں کو الجھائے ہوئے ہیں پاکستانی اداروں کے پاس عالمی تناظر میں وقت کم ہے۔ بڑی فیصلوں کا وقت سرپر آن کھرا ہوا ہے اس لئے اس سیاسی مافیا کو جلد از جلد اس کے انجام تک پہنچا کر اپنے حقیقی محاذ کی جانب توجہ مبذول کرنا ہوگی۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amreice Iqdaam Bari Jung Ki Janib Pehla Qadam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.