امریکی پابندیاں جنوبی ایشیا عالمی سیاست کا محور بن گیا

ٹرمپ پالیسی ایشیائی محور اور بلاک کا جن بوتل سے باہر لے آئی پاک ترک روس چین ایران کا مشرقی بلاک بننے کی راہ ہموار ہونے لگی

منگل 26 ستمبر 2017

American Pabndiya
امتیاز الحق:
افغانستان میں امن کے قیام اور جنگ کے تسلسل نے خطے اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا میں خون اور خزانے کے کھیل میں مبتلا علاقے کی ریاستوں میں عدم استحکام ، دہشت گردی اور ترقی میں رکاوٹ کے ساتھ حکومتوں کو باہمی تعلقات وتعاون کی جانب توجہ مبذول کرئی ہے کہ وہ خطہ میں امن کی بھرور کوششیں کریں کیونکہ اگر یہ کوششیں نہ کی گئیں تو دہشت گردوں‘ خفیہ طاقتوں اور ہاتھوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ ریاستوں میں حکومتی وقار اس حد تک کم کردیا جائے کہ عوام اپنی حکومتوں سے بدظن ہوجائیں۔

ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ریاست اور حکومت کو عوام کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی علیحدہ کردیا جائے اور پاکستان ہی نہیں اس کی دیگر اتحادی ریاستوں کو بھی اپنے اپنے ملک کے اندر محدود کردیا جائے۔

(جاری ہے)

خطے کے سیاسی ماحول کو خراب کیا جارہا ہے، امن کی جدوجہد میں مصروف ممالک کے اندر شورش ‘کشیدہ صورتحال‘ مذہبی‘ ثقافتی‘ اور نسلی اکائیوں کے مابین توازن کو توڑ کر غیر متوازن کرنا، عدم استحکام اور سکیورٹی کے معاملات کو الجھانا ایسی کاروائیاں ہیں جنہوں نے خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان‘ ایران ،ترکی،چین،روس،جنوب مغربی ایشیائی ممالک اور وسطی امریکی خطہ کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔

دنیا کے عوام جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ”انجنیئرڈ“ بنا بنایا منصوبہ ہے جس کا مقصد دنیا کے ممالک سے وسائل کی لوٹ کے ساتھ اُن پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ حالیہ پاک افغان امریکی پالیسی نے پاکستان کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ واضح طور پر اپنی راہیں اور سمت کا تعین کرے۔”ڈو مور سے نومور“ کی جانب تبدیل ہوتے نقطہ نظر نے پاکستان کو وسیع النظر بنادیا اور اس کے وزیر خارجہ پاکستانی سفیروں کی کانفرنس میں حقیقت پر مبنی فیصلوں کی روشنی میں ہمسایہ ممالک کے دورہ پر روانہ ہوئے۔

تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی اپنے دیرینہ تعلقات رکھنے والے ملک امریکہ سے قدرے نحیف سی علحیدگی قریبی اور ہخیال ممالک ترکی،ایران،چین،روس سے قربت نے خطہ کی سیاسی صورتحال کا نقشہ بدلنے کی جانب قدم بڑھایا ‘ خطے میں امریکی سیاسی،فوجی اور معاشی مقاصد حاصل کرنے کیلئے پاکستان اب اس خاص حکمت عملی کا حصہ بننے سے انکار رکرہا ہے جو اس علاقہ میں ”ماسٹر“ بن کررہنا چاہتا ہے۔

پاکستان میں اب ایسے حکمران سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ، بیورو کریسی ، چند سیاستدان کم ہو رہے ہیں جن پر امریکی اثر تھا اور امریکہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیتا تھا۔ قبل ازیں ہمارے اقتصادی ، دفاعی، سماجی نظام یاسیٹ اپ کا شاید ہی کوئی حلقہ ایسا ہو جہاں امریکہ نے چاہا ہو اور اپنا نمک خوار پیدانہ کرلیا ہو۔ پاکستان وزیر خارجہ ، ریاست کے اہم مقتدر ادارے،سیاسی قیادت،بیرونی ممالک میں ذہین، ایماندار سفارتی اہلکار امریکی دھونس، دباؤ کی پالیسی کے خلاف ایک پیج اور ایک سمت کی جانب چل پڑے ہیں۔

دباؤ اور پابندیوں کے محاذ پر اپنا موثر دفاع کرنا ہے۔ امریکی ”جن“ کے خلاف یہ ایک سوئی چبھونے کے مترادف بات ضرور ہے لیکن پاکستان کے مضبوط موقف، بلند حوصلہ اور مزاحمت نے دنیا میں اس کا وقار بلند کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایران میں اپنے ہم منصب جواد طریف سے ملاقات کی اور امریکی حکمت عملی‘ آئندہ اقدامات‘ اپنے دفاع اور ایرانی قیادت سے باہمی تعاون کے فروغ اور اقتصادی ، سیاسی ، مذہبی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے پاکستانی ریاست اور عوام کی امنگوں پر مبنی احساساتی پیغام انہیں پہنچایا اور اس پیغام میں پاکستان کی جانب سے ایک شفاف صداقت پر صدر ایران حس روحانی نے ملاقات کی‘ یہ ملاقات روایتی دوروں یا سرکاری کاروائیوں کے برعکس تھی۔

ایران کے خلاف امریکی رویہ نے ملاقات کو دوستانہ اور انتہائی اہمیت کا حامل بنادیا ، اس میٹنگ میں صدر ایران اور ایرانی حکومت کا مجموعی رویہ 1965ء اور 1971 ء کی جنگوں والا ایرانی رویہ تھا جس میں ایران واضح اور بھرپور طریقہ سے پاکستان کی مدد کررہاتھا۔ زمانہ امن میں ایرانی ضرورت پاکستان کو رہی ہے لیکن امریکہ کے ساتھ سیاسی وفوجی تنازعات کے سلسلے میں ایران کے ساتھ دوستی اہم ہے۔

کمزور تعلقات اب مشترکہ دشمنکے خلاف مضبوط ہو رہے ہیں۔ تعلقات میں پیدا کی گئی خلیج اور غلط فہمیاں کم ہورہی ہیں ۔ شاہ ایران کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات امریکی مرضی اور ہدایات کے مرہون منت تھے۔ آر سی ڈی ، دفاعی میدان میں دونوں ملکوں پر وہائٹ ہاؤس چھایا رہا اور اب صورتحال اس کے تقریباََ برعکس ہے۔ مشترکہ مذہبی ‘ثقافتی اور تاریخی ورثہ، مشترکہ سرحدیں ایک بار پھر تقاضا کررہی ہیں کہ تعلقات میں گومجوشی پیدا کی جائے۔

پاکستان پہلا ملک تھا جس نے اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کیا تھا اور امام خمینی نے اس سفارکار کو گلے لگایا اور کہا کہ ریڈیو تہران، ایران کا ریڈیو اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلان کے بعد جو پہلی خبر نشر کرے گا وہ پاکستان کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کرنے کی ہوگی۔ یاد رہے کہ ایران بھی پہلا ملک تھا جس نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی آزاد ریاست کو تسلیم کیا تھا۔

پاکستان ہی ملک تھا جس نے پیرس سے امام خمینی کا لانے کیلئے پی آئی اے کے طیارے کو پیرس کے ہوائی اڈا ہر ان کی صوابدید پرچھوڑ دیا تھا۔ عراق ایران جنگ میں امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس جنگ میں غیر جانبدار رہے لیکن پاکستان خفیہ طور پر ایران کی امداد کرتا رہا۔ رات کے اندھیرے میں مختلف رنگوں سے پینٹ کئے گئے ایرانی فضائیہ کے کار گوطیارے اسلام آباد اترتے اور دن کے اجالے سے پہلے سازو سامان لیکر واپس روانہ ہوجاتے۔

یہ پروازیں انتہائی خفیہ تھیں اور ان کا کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا۔ امریکی انتظامیہ نے نظر چرا کر عراق ایران جنگ میں ایران کی درخواست پر ایرانی پائلٹوں کی ٹریننگ بھی کی گئی۔ پاکستان ایران نئی پابندیوں کی صورت میں امریکہ سے علیحدہ ہوکر افغانستان میں امن کے ثمرات سمیٹ سکتے ہیں۔ افغان امن کے لئے دونوں ملک مشترکہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف ترکی‘چین اورروس کے ہم منصبوں سے بھی رابطے کررہے ہیں ۔ روس نے واضح طور پر پاکستان کی حمایت میں آوازبلند کی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ وہائٹ ہاؤس میں وزیر خارجہ پاکستان ہی نہیں مجموعی طور پر پاکستان کا قد بڑھ اور رتبہ بلند ہو گیا ہے۔ خواجہ آصف مضبوط تعلقات ، حمایت،تعاون لے کر امریکہ جائیں گے تو اس کے نتائج بھی مثبت آئیں گے، گوکہ امریکہ کو اُس کی پالیسی کے ضمن میں نرم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے رویہ میں تبدیلی کے امکانات واضح ہیں۔

چین کی جانب سے بھی اسی قسم کی حمایت ملی ہے جس کے باعث پاکستانی قیادت میں اعتماد اور حوصلہ بڑھا ہے۔ ترکی اس ضمن میں پہلے ہی پاکستان کی حمایت کرچکا ہے ترکی بھی باہمی افہام و تفہیم ، تعلقات بڑھانے میں پیش رہا ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری اور تعاون کی وجہ سے قریبی مراسم مزید بڑھے ، دونوں ملکوں بالخصوص موجودہ رہنما طیب اردگان کے خلاف گزشتہ عرصہ میں ہونے والی ناکام بغاوت میں پاکستان کی جانب سے مکمل حمایت کی گئی۔

علاوہ ازیں ترکی ایران شیعہ سنی باہمی تعاون پر مبنی دوستی در حقیقت امریکی سانپ سے ڈسنے کی وجہ سے ہے کہ سنی ترک، شیعہ ایران اپنے مسالک سے بلند ہو کر مقصد کی جانب بڑھے ہیں۔ روس چین ایران ترکی اتحاد میں امریکی استحصال ان ممالک کو کنٹرول ، ترقی میں رکاوٹ اور ان ملکوں کو اپنی جغرافیائی، سیاسی اور مشترکہ سرحدوں کے اند ر رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔

پاکستان، کوئٹہ، زاہدان کے راستے ترکی تک اپنے سامان کی ترسیل، قزاقستان ، وسط ایشیائی ریاستوں تک سستی رسائی کے علاوہ بذریعہ سڑک وریلوے ایران کیسپئن سمندر سے روس تک مدد وتعاون کرسکتا ہے۔ ٹرمپ پالیسی نے خطہ کے ممالک کو باہمی طور پر قریب کردیا ہے جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا عالمی سیاست کے محور کے ساتھ آپس کے تعلقات ، معاشی ، سیاسی ،دفاعی اور عوامی رابطے بڑھانے میں رکاوٹوں کو دور کررہے ہیں، یہ باہمی تعلق ایک مشرقی بلاک بننے کی جانب رواں دواں ہے۔

امریکی کردار خطے میں تبدیل نہیں لیکن کم ہورہا ہے۔ باہمی درپیش خطرات سے یہ ممالک آگاہ ہوگئے ہیں۔ امریکہ دفاعی سازو سامان کی مجبوری اور خریدنے کے ضمن میں روس اور چین کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔ عالمی تعلقات ، مشترکہ مفادات کے تناظر میں مذکورہ ممالک تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ خفیہ طاقتوں کی جانب سے مذہبی تقسیم ، تعصب،کشیدگی اور دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کی سازش سے آگاہ ہوگئے ہیں۔

خفیہ طاقتوں کا مقصد ایسے حالات پیدا کرکے مشکلات میں اضافہ ، عوامی فلاح کے مواقع کو ضائع ، خوف میں مبتلا کرکے تناؤ اور دباؤ معاشی بدحالی پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے باعث روز بروز مشکلات میں پھنسے لوگوں کو بعض اوقات انہی حکومتوں کے خلاف وقتی طور پر عوامی جذبات کو اچھالنے کی حرکت کر کے عوام کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے اور خفیہ ہاتھ حکمرانوں سے اپنا کام نکلوالیتے ہیں، لیکن اس کا نتیجہ میں بیروزگاری ، مہنگائی، کم ہوتی سہولتوں، پریشانی کے”جن“ کو بوتل سے باہر نکلنے سے کون روک سکتا ہے۔ ایشیائی محور اور بلاک کا ”جن“ بوتل سے باہر آگیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

American Pabndiya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.