امریکی جمہوریت فوجی کنٹرول میں!

امریکن پالیسی پاکستان نہیں خود امریکہ کے خلاف ہے پینٹا گون نے اپنے صدر پر قابو پالیا

بدھ 6 ستمبر 2017

Americe Jamhoriyat Foji Control Main
امتیاز الحق:
پاک افغان پالیسی کا اعلان صدر ٹرمپ نے امریکی فوج کے اڈے سے بحیثیت کمانڈر انچیف اپنی قوم سے پہلے رسمی خطاب میں کیا۔خطاب کے دوران بھی ان کی اپنی سول حکومت میں تین جنرلز کیلی،مک ماسڑ اور جیمز میٹس (جنہیں میڈڈاگ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے اور وہ اس پر خوش بھی ہوتے ہیں۔ میٹس کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کے سروں ر گولی مارنے کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں)تینوں جرنیلوں نے شام وعراق میں مزید بمباری کیلئے صدر ٹرمپ سے پہلے ہی لائسنس لے لیا ہے۔

۔۔ قبل ازیں صدر ٹرمپ صدارت سے پہلے 2011ء میں اپنے ٹوئیٹ میں کہہ چکے تھے کہ ”میں افغانستان سے نکل جاؤں گا۔ “ 2012ء میں ٹرمپ نے کہا ”افغانستان وقت کا ضیاع ہے“ ۔ 2013 ء میں ٹرمپ نے کہا کہ ”ہمیں افغانستان سے آجانا چاہیے“۔

(جاری ہے)

2016ء میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ”مداخلتوں اور افراتفری کی پالیسی ختم کرنا ہوگی“ اور اب گزشتہ دنوں مذکورہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے جلد انخلا دہشت گردوں کیلئے خلا پیدا کردے گا۔

اپنا ذہن تبدیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ سے افغانستان میں پاکستان کی شراکت داری بہت فائدہ مند ہوگی اور اگر وہ دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ افغان حکومت کو بھی متنبہ کیا گیا کہ وہ امریکی حمایت کو بلینک چیک نہ سمجھیں تاہم ٹرمپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ”ہم نے افغانستان میں خون اور خزانے کا بے دریغ ضیاع کیا، افغان حکومت اس کا اعتراف بالکل نہیں کرتی یہاں سے نکل جاؤ۔

“ اوبامہ سے اقتدار لیتے وقت ٹرمپ نے کہا کہ میری فطری سوچ تو یہی تھی کہ ہمیں مکمل انخلا کرنا چاہیے اور تاریخی طور پر میں اپنی فطرت کے مطابق ہی چلنا پسند کر تا ہوں۔ افغانستان سے متلعق اپنی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس سے ممکنہ طور پر ان کے حامی ناراض ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کے مشہور زمانہ دوست اور مشیر سٹیفن بینن افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے مضبوط وکیل تھے ٹرمپ کے افغان جنگ سے متعلق خیالات کے پس پردہ انہی کی سوچ کا عمل دخل تھا۔

سٹیفن بینن افغان جنگ کے خلاف تھے دنیا کی مہنگی ترین جنگ کے حالات واثرات کا امریکی عوام کی زندگی پر منفی اثر کو زائل کرنے کے لیے” پہلے امریکہ“ کا آئیڈیا بھی بینن نے سجادیاتھا۔ اقتصادی حالت کے بارے امریکی عوام کی ہمدردی بھی سٹیفن بینن نے حاصل کی لیکن بینن امریکی جرنیلوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور بالآخر خفیہ اداروں کے سربراہوں اور جرنیلوں کے کہنے پر ٹرمپ نے سٹیفن بینن کو نکال دیا اس فیصلے کے ضمن میں ٹرمپ ے بارے کہا گیا کہ انہوں نے یوٹرن“ لے لیا ہے اور اب وہ جنوبی ایشیا میں فوجی مداخلت اور کشیدگی کو بڑھیائیں گے اور یہ بالکل اسی طرح ہورہا تھا جس طرح پینٹا گون کی اعلیٰ قیادت چاہتی تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ میں فوجی جرنیلوں کا بڑھتا اثرورسوخ کمزور ہونے پر ٹرمپ کیلئے خطرہ کی علامت ہی نہیں ہے بلکہ امریکی ایک فوجی حکومت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاپولر ریڈیکل صدرعام امریکی کی بات کرنے والا اور سول حکومتی طاقت کو واپس لانے کا نعرہ لگانے والا صدر فوجی اور کارپوریٹ ملٹری کی سازش کا حصہ بن گیا ٹرمپ کی کابینہ میں جنرل کیلی‘مک ماسٹر اور میٹس تیل کے بڑے چیف ایگزیکٹور یکس ٹیلرسن سابق وال سٹریٹ ایگزیکٹو منوچن سیکرٹری مالیات گیری ولبرروز یہ مجموعہ ملٹری اور صنعتی کارپوریشنز کا وہ گروپ ہے جو فاشٹ ریاست کی تعریف ہے۔

اسی گروپ نے اپنے اتحادیوں ووٹر اور عوام کو دھوکہ دینے کے ساتھ خطرناک صورتحال پیداکردی ہے۔ پینٹا گون نے اپنے صدر پر قابو پالیا ہے افغانستان کے بارے میں باعث شرم اور مکارانہ نقطہ نظر اختیار کیا گیا ۔ ٹرمپ نے جن امریکی ووٹرز سے ووٹ لیا وہ اسکے برعکس نکلا جس کا واضح اور صاف مطلب ہے کہ امریکہ میں جمہوریت نہیں ہے۔ عوام کی مرضی فوجی وصنعتی کمپلیکس کی مرضی سے ختم ہوگئی اور ٹرمپ ایک ایسی پریشان کٹھ پتلی جو وال سٹریٹ اور فوجی انڈسٹریل کمپلیکس کے حکم سے چل رہا ہے بڑے منہ سے بری باتیں اور انا کے باعث بڑی تباہی کی جانب امریکی ریاست کو لے جارہا ہے۔

صدر ٹرمپ کو امریکی عوام نے پرامن خارجہ پالیسی کیلئے ووٹ دیا تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان عراق وشام سے نہ صرف امریکی افواج کو واپس بلائے گا بلکہ دنیا بھر میں 34000 سے زائد امریکی فوجی اڈے اور امریکی ملازمین جو اندرون امریکہ میں ملازمین کی زیادہ تنخواہ سے دسیوں گنا تنخواہ لیتے ہیں ہر سال اربوں ڈالرز امریکی ٹیکس دہندگان کے خارجی طورپر خزانے سے نکل جاتے ہیں ، بچت کرکے عوام کی صحت اور ان کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں گے لیکن افغان پاک لیسی بیان کرتے ہوئے مسلح افواج کو پیغام دیا کہ وہ ان کی قیادت کی پالیسی کو جاری رکھیں گے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ جمہوریت کی بجائے جرنیلوں کی کرپشن کو فروغ دینا چاہتے ہیں وہ فوجی کامیابی حاصل کرنا چاہیے انہیں اب اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ اندرون امریکہ شورش و مسائل کے خاتمہ پر توجہ دی جائے بلکہ وہ دہشت گردی کے نام پر جنگ پر توجہ مرکوز کررہے ہیں جسکے مہلک اثرات برآمد ہونگے۔

صدر نے افغانستان میں اچھی حکمرانی اور بدعنوانی سے نبٹنے پر زور نہ دیکر ایک خلا چھوڑدیا ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو دہشت گردی یا جنگ سے افغانستان میں کم بدعنوانی سے زیادہ اموات ہورہی ہیں۔ ہیروئن کی سمگلنگ تعمیراتی کاموں میں ٹھیکوں،خوراک کی فراہمی اور دیگر اخراجات کے ضمن میں باہمی لڑائی جھگڑے اور اموات رپورٹ نہیں کی جارہی۔

صدر ٹرمپ اپنی ہی ٹیم بنانے میں ناکام رہے ہیں جو ان کے مقاصد کو پورا کرتی حکمران ملٹری اشرافیہ نے صدر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے جس کا اگلا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ وہ جنگی اشرافیہ کے گھیرے میں آنے کے بعد اپنے آفس سے کئے جاسکتے ہیں یا حکمران اشرافیہ انہیں اپنو ں سے علیحدہ کردے گی۔ پاکستان بارے سخت لہجہ در حقیقت دباؤ میں لاکر غنی، امریکی اور اپنے پسندیدہ طالبان یعنی حکمت یار اور ایسے ہی دیگر گروہوں کے ساتھ ایسی حکومت بنانا ہے جو روس چین اور پاکستان وایران وسط ایشیائی ریاستوں سے بے تعلق رہے مستقبل میں انہی کے خلاف بھی استعمال کیا جائے لیکن ٹرمپ اور ان کی جنگی اشرافیہ شام میں امریکی دہشت گردی کا کس طرح جواب دے سکتی ہے، عراق میں تباہی امریکی جارحیت دہشت گردی نہیں داعش کو مالی ودفاعی وسائل دیگر مشرق وسطیٰ میں امن تباہ نہیں کیا وہ کیا عمل ہے؟ امریکی قیادت اپنی کونسی کامیابیوں پر ناز کرنے میں حق بجانب ہے؟ ان کی افغانستان میں جنگی دانشمندی کایہ حال کہ مزید 4 ہزار امریکی فوج کو بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔

16 سال بعد بھی امریکی و اتحادی فوج مزاحمتی تحریک کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ افغان افواج امریکی اتحادی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے میں کسی خاص و جوش کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ اتحادی افواج اپنا ہی دفاع خود کرنے کی بجائے کرایہ کی افواج پر انحصار کررہی ہیں بلیک واٹر کے چیف ایگزیکٹو ”پرنس“ نے وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات میں اپنی سکیورٹی کمپنی ڈین کارپ کی خدمات پیش کیں اور اب پرائیوٹ فوج کو بھی افغانستان میں امن قائم کرنے کا کنٹریکٹ دیا گیا ہے جو بذات خود ایک خطرناک کام ہے سرکاری افواج کسی نہ کسی ڈسپلن میں رہتی اور ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے لیکن پرائیویٹ فوج کی عراق شام اور افغانستان میں ظلم وبربریت بارہا سامنے آیا ہے۔

پاکستان میں معمولی سی مثال ریمنڈ ڈیوس جو بلیک واٹر کا ایجنٹ تھا پاکستان بعدازاں اپنے ملک میں بھی تشدد کرنے کی سزا بھگت رہا ہے۔ یہ پرائیویٹ آرمی پاکستان میں بھی صدر ٹرمپ کی دھمکی پر عملی جامہ پہنانے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے ۔ امریکی و اتحادی افواج میں اخلاقی و نظریاتی جوش کا فقدان اور پیشہ ورانہ اہلیت کی خامیاں وہ بنیادی محرکات میں جن کی وجہ سے دفاعی مشینری کا موثر استعمال ممکن نہیں ہے۔

کمانڈروں کا اگلی صفوں میں محاذ جنگ پر لڑنے سے گریز جبکہ پرائیوٹ آرمی کو آگے رکھ کر جنگ لڑی جارہی ہے۔ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانوں کی رہنمائی کرے، سفارتی وسیاسی طریقہ کار کے تحت علاقائی ریاستوں پر مشتمل افغان مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن عملی طور پر فوجی حلیف کی کمان سنبھال لی گئی ہے۔ واشنگٹن پینٹا گون سے احکامات صادر ہورہے ہیں۔

افغانوں کو امریکی جرنیلوں کے فیصلوں کا پابند کیا جاتا ہے اور افغانوں کی کمزوریوں کا با آواز بلمد واویلا اور اپنی ناکامیوں کی وجہ ”تمام مشکلات کی جڑ“ پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے اور کامی اپنی سیاسی حکمت عملی میں تلاش نہیں کی جاتی۔ صدر ٹرمپ کی افغان پاک پالیسی میں انتہائی پچیدہ معاملات کی گہرائی اور اہمیت جانچے بغیر ایک غیر سنجیدہ اور رسمی انداز اختیار کیا گیا ہے۔

حقیقت پسندی کے تقاضے پورے کرنے کیلئے فوج اور دفاع سے متعلق پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ افغان خفیہ ایجنسیوں اور سی آئی اے کے ذریعے کام کرنے والے اہلکاروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ امریکیوں ہی نے انہی طالبان کو روس کے مقابلے کیلئے اعلیٰ درجہ کی تربیت دی، انہیں گوریلاجنگ کی ایسی تربیت دی گئی جس کو خودامریکی افواج کو سامنا ہے۔

گوریلا جنگ کی تعریف میں کہا گیا کہ ”سودیت فوج اپنے ساتھ گاڑیاں تو لائی لیکن ایندھن لانا بھول گئی اور طیارہ شکن راکٹوں سے لدے ٹرک تو لے آئے لیکن یہ بھول گئے کہ دشمن کے پاس سرے سے ائیر فورس ہی نہیں ۔ لیکن ب صورتحال امریکی افواج کے ساتھ بھی ایسی ہی خوامریکیوں نے طالبان کو راکٹ دیئے اور وہی ان کے خلاف استعمال ہورہے ہیں، اب ان ٹرکوں کو پاکستان یا وسط ایشیا کے راستے بھی نہیں مل رہے۔

افغانستان میں کامیابی کا انحصار خطہ کے ممالک اور عالمی برادری کے پاس ہے تاہم امریکی افسران اور قیادت ان کے ذاتی کردار ذہانت، قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر اپنی نیت رویہ تبدیل کرکے افغان مذاکراتی عمل شروع کیا جائے تاخیر کی صورت میں ”ناقص حکمت عملی“مثبت نتائج نہیں لاسکے گی۔ افغان جنگ کے اثرات میں سودیت یونین روس بن گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ بھی امریکہ کے گورباچوف بن جائیں اور امریکی ریاستیں آزاد ملکوں میں تبدیل نہ ہوجائیں، جس طرح 15 ریاستوں والا سودیت یونین 15 ملکوں میں بدل گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Americe Jamhoriyat Foji Control Main is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.