امریکہ کی اسلام دشمنی اور بیت المقدس

امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے قیام کے صرف دوگھنٹے بعد اسے تسلیم کرلیا تھا۔۔۔۔۔ دسمبر 2017ء میں سقوط ِ یروشلم کے ٹھیک ایک صدی بعد یروشلم کو یہودی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان مسلمانوں کیلئے نیا زخم ہے

منگل 16 جنوری 2018

America ke Islam Dushmani or Islam
سیف اللہ خالد:
یہودیوں نے اپنی بے پناہ دولت ، ساہو کارانہ فطرت، میڈیا ہاوسز اور سود خور نظام بینکاری کی بنا پر امریکہ کو یرغمال بنا رکھا ہے ، ہر امریکی صدر کامیابی کی منازل طے کرنے کے لیے یہودیوں کی آشیر باد لینا اپنے آپ پر واجب سمجھتا ہے ۔ اعلان بالفور کے بعد جب اسرائیلیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا تو اسرائیل کے قیام کے صرف 2 گھنٹے بعد امریکہ نے اس کے وجود کو تسلیم کرلیا ۔

فلسطین کی سرزمین پر صہیونی ریاست کا قیام اورمسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر یہودیوں کا دیرینہ خواب ہے، اپنے اس خواب کو حقیقت کاروپ دینے کے لئے یہودیوں کی تنظیم فری میسز یز کے اعلیٰ درجے کے اکا برین نے پروٹو کولز کوروس کے ایک پروفیسر نائلس نے کتاب کی صورت شائع کیا تو کمیونسٹ حکومت نے اسے قید میں بدترین اذیتیں دے کر ماردیا اور نائلس کی کتاب کسی بھی فرد کو اپنے پاس رکھنے پر سزائے موت کا اعلان کیا گیا۔

(جاری ہے)

یہودیوں کی شرانگیزیوں ، شرار توں کے سبب ہٹلر نے ان کا ہولو کاسٹ کیا تھا۔ ہٹلر کہتا ہے میں نے کئی ایک یہودیوں کو اس لئے زندہ چھوڑ دیا تھا کہ دنیا ان کے کردار کو جان کر برملا میرے اقدام کو درست اور صحیح تسلیم کرلے۔ ترکی کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے لیکن سلطان چونکہ ان کے منصوبے کو جان گئے تھے لہٰذا انہوں نے صاف انکار کردیا ، دوسری بار پھر یہ وفد سلطان کے پاس آیا اور یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لئے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر کے یہودی سائنسدان سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے ترکی کو ترقی یافتہ بنادیں گے۔

سلطان نے جواب میں کہا کہ وہ فلسطین کے علاوہ کسی بھی دوسری جگہ یونیورسٹی بنالیں مگر یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین کی ایک انچ زمین پر بھی آباد ہونے نہیں دیں گے۔ تیسری دفعہ پھر یہودیوں کا وفد ایک نئی پیشکش لے کر سلطان کے پاس پہنچا کہ جتنی رقم چاہیں لے لیں اس کے عوض یہودیوں کی محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔

اس وفد میں ترک پارلیمنٹ کا یہودی رکن قورہ صورت آفندی بھی شامل تھا۔سلطان نے غیظ وغضب میں انہیں کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا۔ یہاں سے بری طرح ناکام ونامراد ہونے کے بعد یہودیوں نے ان کو ہٹانے کے لیے سیاسی تحریک کی آبیاری کی اور عوام کو ان کے خلا ف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کردیا گیا ۔ سلطان کی برطرفی کا پروانہ لانے والوں میں ترک پارلیمنٹ کا یہودی رکن قرہ صورت آفندی بھی شامل تھا۔

بیت المقدس بہت عزت وعظمت والا شہر ہے ۔ یہ شہر 1517 سے لیکر 1917 تک عثمانی سلطنت کو شکست ہوئی تو فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ تب برطانوی استعمار نے یہودیوں کو یہاں لا کر بسانا شروع کیا 1947ء میں یون این نے اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی 1949 میں اسرائیلی کابینہ نے یو این پارٹیشن پلان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا 1950 میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس غیر قانونی اقدام کی تائید کی ۔

1960ء میں وہ دلخراش واقعہ پیش آیا جب ایک آسٹریلوی یہودی نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی تو مسجد کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کا وہ منبر بھی راکھ ہوگیا جسے انہوں نے بیت المقدس میں نصب کرنے کے لئے 16 خونریز جنگیں لڑی تھیں۔1980 میں پورے بیت المقدس کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قرار داد نمبر 478 منظور کرکے اسرائیلی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام ممبر ممالک کو پابند کیا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل نہ کریں، اس موقع پر قرار داد کے حق میں 14 ووٹ جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا امریکہ نے اس وقت ووٹ ڈالنے سے گریز کیا ۔

17 دسمبر 2017ء کو سقوط یروشلم کی ایک صدی مکمل ہوچکی ہے۔ ایک صدی مکمل ہونے پر امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرکے مسلمانوں کو نیا زخم دیا گیا ہے۔ ایک صدی بعد امریکی صدر کے اس اقدام پر سکیورٹی کونسل کے 14 ارکان نے امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے اور اسے اسرائیل کا دارالحکومت ماننے سے انکار کردیا لیکن اس واقعہ پر امریکہ نے مخالفت میں ووٹ دیا اور قرار داد کو ناکام بنانے کے لئے ووٹ کا حق تک استعمال کردیا امریکہ کے اس اقدام سے اس کے چہرے پر سے جمہوریت کا نام نہاد نقاب اتر گیا، امریکہ نے ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جنگل کا قانون رکھنے والا بدمست ہاتھی ہے۔

سکیورٹی کونسل کے بعد جنرل اسمبلی میں بھی امریکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ امریکہ نے اس رسوائی سے بچنے کے لئے دھونس، دھاندلی اور لالچ کے تمام حربے استعمال کئے لیکن 9 ممالک کو چھوڑ کر 128 ممالک نے امریکی اقدام کی مخالفت کرکے مہر تصدیق ثبت کردی کہ بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا تھا ہے اور رہے گا۔ صدر ٹرمپ کو اس سے قبل میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے کے معاملے اور 7 ممالک کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندیی کے مسئلے پر بھی خفت اٹھانا پڑی، ریپبلکن پارٹی کو اس معاملے پر جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ٹرمپ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدارت کا منصب چھوڑ دے۔

ٹرمپ نے جو کام کیا اس کا حوصلہ اس سے پہلے بل کلنٹن ، بش اور اوبامہ بھی نہ کرسکے1992ء میں کلنٹن نے کہا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ صدر بننے کے بعد جب یہودی لابی نے کلنٹن پر دباؤ ڈالا تو وائیٹ ہاؤس کو احساس ہوا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان پر عملدرآمد کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

اسرائیلی لابی 1995 ء میں امریکی کانگریس کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئی کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور امریکی سفارتخانہ31 مئی1999 ء تک یہاں منتقل کردیا جائے یروشلم ایمبیسی ایکٹ نامی یہ قانون منظور تو ہوگیا لیکن عالمی قوانین سے متصادم ہونے کی بنا پر فوری نافذ العمل نہ ہوسکا اور امریکی صدور ہر 6 مہینے بعد اس مدت میں اضافہ کرتے رہتے اور یوں 22 سال گزر گئے لیکن ٹرمپ جسے دنیا احمق کہہ رہی ہے اس نے سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کردیا وہ احمق نہیں بکہ اس نے ایسا کرکے اپنے اقتدار کو بچانے اور آئندہ کی صدارتی مدت بھی اپنے نام کرنے کی چال چلی ہے ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کا اس کے عہدے سے معزول کرنے کے لئے تحریک کا آغاز ہونے والا تھا۔

مواخذہ کی اس تحریک سے قبل ہی ٹرمپ نے یہ اقدام یہودی لابی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ صدر ٹرمپ اچھی جانتے ہیں کہ انہیں معزول کرنے کی کوئی قرار داد پیش کی گئی تو اس کی راہ میں یہودی لابی ہی دیوار کھڑی کرسکتی ہے اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے یہودی لابی کو یہ تحفہ دیا ہے ۔ امریکہ کے اس فیصلے پر عالم اسلام ہی نہیں پوری دنیا میں شدید ردعمل آیا ہے پاکستان میں بھی دینی وسیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے ریلیاں اور مظاہرے کئے دفاع پاکستان کونسل نے اسلام آباد میں اے پی سی میں یہ لائحہ عمل طے کیا کہ وہ پاکستان اور عالم اسلام کے عوام کو بیدار کرنے کے لئے میدان میں کھڑی ہوگی ۔

او آئی سی نے سابقہ روایات کے برعکس خود کو منوایا ہے او آئی سی کے صدر رجب طیب اردوان نے مسلم ممالک کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ اگر القدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نیکل گیا تو پھر مدینہ منورہ کا تحفظ بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم یہ جانتے ہیں کہ امریکی فیصلے کو تبدیل کرانا نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ امریکہ کہ شہ رگ پنجہ یہود میں ہے لیکن اگر او آئی سی متحرک کردار ادا رکرے اور تمام مسلم ممالک متفقہ طور پر بیت المقدس کو مملکت فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا بیک وقت اعلان کریں، اسی طرح وہ تمام ممالک جنھوں نے جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل میں دنیا کو تقسیم کرنے والے امریکی اقدام کو مسترد کیا ہے ان کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب میں ہی رکھیں، تمام مسلم ممالک اپنے اپنے ممالک میں امریکہ سفارتخانے بند کرنے کا اعلان کردیں تو یقینا امریکہ کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔

مسلم ممالک کو اس بات کے لئے بھی آواز اٹھانی چاہیے کہ وہ دنیا کا ایک تہائی ہیں لہٰذا جنرل اسمبلی میں دومسلم ممالک کے ووٹ کا حق تسلیم کیا جائے اس لئے کہ اگر ہم ویٹو پاور نہیں بنتے تو پھر دنیا میں ہماری پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں ہوگی۔ اردن کے شہریوں نے امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف انوکھا احتجاج کرکے یہ تجویز پیش کی ہے کہ دارالحکومت عمان کی سڑک جس پر امریکی سفارت خانہ ہے اس کانام ”القدس العربیہ“ رکھا جائے اس طرح امریکی سفارتخانہ کو مجبوراََ ”القدس اللعربیہ“ لکھنا پڑے گا۔

او آئی سی کی جانب سے پوری دنیا میں دستخطی مہم شروع کی جائے تاکہ امریکہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور کیا جائے، یہ بات بھی ہمارے سمجھنے کی ہے کہ یہودی وہ قوم ہیں جنہوں نے لمحہ بہ لمحہ ذوالجلال کی نافرمانیاں کیں اور موسیٰ علیہ السلام نے جب انہیں بیت المقدس فتح کرنے کا حکم دیاتو یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے آپ اور آپ کا رب جا کر جہاد کریں۔

یہی وہ قوم ہے جس نے اپنے انبیاء پر بہتان لگائے اور ان کو قتل کیا ۔ انبیاء کے قاتل بھلا انبیاء کی سرزمین کے وارث کیسے ہوسکتے ہیں۔؟ انبیا ء کی سرزمین کے وارث رہی ہوسکتے ہیں جو انبیاء کو ماننے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں لہٰذا اگر ہم بیت المقدس یہودیوں سے واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے پہلے ہمیں حقیقی معنوں میں انبیاء کا وارث بننا اوران کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا ۔ پھر بیت المقدس ہمارا ہوگا، مقبوضہ جموں کشمیر آزاد ہوگا اور سرزمین اندلس پر بھی اسلام کا جھنڈا لہرائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America ke Islam Dushmani or Islam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.