امریکی وزیر خارجہ کا دورہٴ پاکستان!

واشنگٹن داعش اور مخالف طالبان کو متحد کررہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ دورہ کے پس پردہ ظاہر کچھ ‘ باطن کچھ اور ہے

پیر 30 اکتوبر 2017

Ameici Wazeer Kharja Ka Doraa pakstan
امتیاز الحق:
ایک سو سال پہلے افغانستان کے بارے میں فریڈرک اینگلز نے لکھا تھا کہ مرکزی حکومت کی حاکمیت سے نفرت اور شخصی آزادی سے محبت ورغبت یہ وہ عوامل ہیں جو افغانوں کے عظیم قوم بننے کی راہ میں حائل ہیں ۔افغان عوام کی اس خصوصیت سے لا علمی ہی وہ محرک ہے جو پاکستان ، روس چین اورہمسایہ ملکوں نے جان لیا۔

انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ مختلف نسلی ولسانی گروہوں پر مشتمل افغانستان جس میں پختون ، دری ،ہزارہ ،ازبیک اور تاجک النسل لوگ رہتے ہیں ان کی اپنی اپنی شناخت ہے ۔ وہ علاقے جن میں یہ گروہی قوتیں آزادانہ طور پر بغیر جنگ وجدل کے رہے ہیں تاہم مصنوعی ترقی تبدیلی لانے کی غلیظوں نے جنگ کی ایسی آگ بھر کائی ہے جس میں ہم سب جل رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

سودیت افواج لگ بھگ دس سال تک افغانستان میں رہیں لیکن وہ بھی افغانستان میں کبھی بھی مطلق مرکزی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہیں۔

افغانستان میں کبھی بھی مطلق مرکزی حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ طاقتور پشتون قبائل بھاری معاوضہ لیکر وقت کے بادشاہوں سے سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ جبکہ کمزور قبیلے اور اقلیتیں اپنی ہمت وبساط کے مطابق کئی گنا زیادہ محصول ادا کرتی رہیں ہیں۔ آج بھی افغانستان میں آباد قبائل اور قومیتیں اپنا روایتی تشخص برقرار رکھنے کیلئے ملک کے طول وعرض میں باہم دست وگریباں ہیں اور یہ سب مرکزی حکومت کے خلاف جنگ بھی لڑرہے ہیں ۔

وہ اب بھی امریکی سرپرستی میں قائم ریاست کی حاکمیت اور قوانین کو تسلیم نہیں کررہے وہ اسے اپنی شخصی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کی پاک افغان پالیسی کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان میں ردعمل کے طور پر دواہم پیش رفت ہوئی ہیں جن میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کی واشنگٹن میں اپنے ہم منصب اور امریکی حکام سے ملاقاتیں ، بعد ازاں قطر میں چار ملکی پاک افغان چین امریکہ مذاکرات جن میں طالبان اور روس کی شرکت نہیں ہوئی۔

دوئم پاک افغان سرحد پر ڈرون حملوں میں اضافہ بھی کردیا گیا۔ اس کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ کا متوقع دورہ پاکستان ہے اس دورہ سے قبل ہی ان کی جانب سے بیان دیا گیا کہ پاکستان کو اپنی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کرنا ہوگی ۔ اسی دوران اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ھیلی نے نیویارک میں امریکہ انڈیا فرینڈ شپ کو نسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت پاکستان پر نظر رکھے تاکہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دینے کے عمل میں ملوث نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے امریکہ کو بھارت کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں حالات بہتر بنانے کیلئے امریکہ کی مدد کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں ہی واشنگٹن میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کیساتھ امریکی قریبی تعلقات کی ضرور پر زور دیا اور کہا کہ اس خطہ میں چین کے ”غیر ضروری“ اثرورسوخ کو روکنے کیلئے بھارت امریکہ کا قریب ترین حلیف ہوگا۔

امریکی اہلکاروں کی باتوں سے اندازہ لگانے سے قبل گزشتہ عرصہ ہی میں ہونیوالے دہشت گردی کے تیزی سے واقعات کے پس پردہ محرکات جاننے کی ضرورت ہے۔ پاک افغان پالیسی کا اعلان ہوتے ہی قندھار پکتپا پاک افغان سرحد کوئٹہ، مستونگ، گوادر میں دہشگردی بم دھماکوں ، ڈرون حملے اور پاکستان کی سکیورٹی پر حملے تیز ہوگئے یاکردیئے گئے ہیں۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے سفارتی اور جنگی حربوں سے غیر اعلانیہ ، غیر روایتی جنگ شروع کی گئی ہے۔

امریکہ افغانستان کو اس کے اپنے حال پر نہیں چھوڑ سکتا نہ ہی چھوڑ نا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات میں پاکستان کو نشانہ بنانے کے حوالے سے امریکہ پاکستان کو اس کی علاقائی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بات امریکی وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے اندر استحکام لانا ہوگا۔ امریکہ کے پاکستان اور پاکستان کے امریکہ سے مطالبات سے بات آگے نکل چکی ہے۔

پاکستان اب امریکہ کا بااعتماد ساتھی نہیں رہا۔ پاکستان کو امریکی اتحادی ہونے کے فوائد مل چکے ہیں اور مزید فوائد کیلئے اب امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کا انتظار نہیں کرسکتے۔ اب افغانستان بھارت نہیں پاکستان روس کا اتحادی ہے جسے چین وسط ایشیائی ریاستوں اور ہمسایہ ایران کی خاموش وبرملا حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا پاکستان آنے کا مقصد پاکستان کی پوزیشن کا اندازہ لگانا ہے کہ وہ پس پردہ روس چین کیساتھ آئندہ مستقبل کی کیا حکمت عملی رکھتا ہے۔

پاکستان بھی واضح طور پر اپنا مئوقف نہیں بتائے گا تاکہ امریکی قیادت کو اس کی پوزیشن معلوم نہ ہو اور مزید سختیوں سے بچا جاسکے۔ وہ پاکستان کو امریکی پالیسی سمجھانے آرہے ہیں نہ کہ پاکستان سے ڈکٹیشن لینے آرہے ہیں۔ وزیر خارجہ ریکس ٹیلر سن کا دورہ پاکستان ظاہری کچھ اور باطنی کچھ اور ہے ۔ وہ اپنے دورہ میں متعدد امریکی شہریوں کو طالبان کی قید سے رہائی ، پاکستان کو تابع فرمانی کی تلقین ، پاکستان کو زبانی اور بھارت کو ٹھوس یقین دھانیاں کرائیں گے ۔

پاکستان کے بارے سخت رویہ کا اظہار کرکے بھارت کو اپنی قربت، دوستی اور اہمیت کااحساس دلانا ان کا مقصد ہے۔ پاکستان کو سخت جواب دینے کا مطلب بھارت جاکر ہی تاثر دینا اور بتانا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ ان کی کوشش ہوگی کہ بھارت کو علاقہ کی چوکیداری کیلئے تیار کریں کیونکہ بھارت مغرب اور مشرق میں نئے حالات کے ایسے کنارے پر بیٹھا ہے جو روس اور امریکہ دونوں سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

امریکہ کے پاکستان سے تعلقات میں ہم آہنگی نہیں رہی، اس لئے بھارت بڑی چالاکی سے پاک چین سی پیک کی مخالفت کرکے بھی امریکیوں سے مراعات لے رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ اور پاکستانی معصوم شہریوں کی شہادت زخمی اور نقصان کے باوجود امریکہ بھارت کی مخالفت نہیں کر رہا ۔ پاکستان پر بھارتی فوج کی بلاجواز فائرنگ کے واقعات میں امریکہ کی بھارت کیساتھ ہمدردیاں ہیں۔

امریکہ کی جانب سے کینیڈین خاندان کو دہشت گردوں کی جانب سے رہائی کے آپریشن پر تعریف وتوصیف مصنوعی ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں اپنی کامیابی کے طور پر ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ جس بات کو اطمینان بخش خیال کیا جارہا ہے وہ محض خام خیالی ہے۔ امریکہ کے پاس افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی اس بات کا جواب نہیں ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں افغانستان کی سرزمین کیوں استعمال کررہا ہے؟ ایسی صورت میں پاکستان کیونکر افغانستان کو رعائتیں دے سکتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان بھارت کا مسئلہ اٹھانا امریکہ کیلئے بھی مسئلہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا دورہ ”امریکہ افغانستان بھارت ٹرائیکا“ کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ روس اور چین کے زیادہ نزدیک نہ ہو اور امریکی ہدایات پر عمل کرلے کیونکہ اس دورہ میں وزیر خارجہ افغانستان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اور پاکستان کو فرمانبردار بنانا افغانستان بارے موجودہ امریکی پالیسی جو کہ افغان مرکزی حکومت کو مضبوط بنانے کے بارے ہے اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں ۔

وہ پاکستان کو افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی شکایت پر زبانی حمایت اور عملی طور پر پاکستان کے خلاف پوزیشن اختیار کریں گے۔ امریکہ کی افغانستان میں پس پردہ حکمت عملی یہ ہے کہ اس نے طالبان اور داعش کو آپس میں ضم کردیا ہے جو آئندہ مستقبل میں خطہ میں ایک بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ امریکہ خطہ میں جنگ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، مذکورہ دونوں گروپ پہلے ہی افغانستان میں متحد ہوچکے ہیں اس کا تجربہ بقول افغانی تجزیہ نگاروں کے افغانستان کے علاقہ سارے پول میں دیکھا گیا ہے ۔

افغانی علاقہ” خوست اور دیگر علاقوں میں افغان حکومت اس بات کی وضاحت نہیں کرپائی کہ امریکی واتحادی افواج صفائی کا آپریشن کیوں نہیں کر پائی ہے کہ امریکی واتحادی صفائی کا آپریشن کیوں نہیں کررہی ۔ ان علاقوں میں 2سے 3 ہزار شورش پسندوں کو موجودہ افغان 36000 مضبوط فوج کنٹرول نہیں کرپارہی۔ درحقیقت اور اصل میں یہ داعش وطالبان گروہ امریکہ کی کٹھ پتلیاں ہیں۔

الٹا الزام روس پر دیا جارہا ہے کہ وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کررہا ہے درحقیقت میں اس بات کو پوشیدہ اور چھپانا ہے کہ امریکہ اس علاقہ میں شکست سے دوچار ہے یا اس کو ناکامی کا سامنا ہے اس کا واضح مقصد افغانستان میں جنگ کو جاری رکھنا ہے ۔ دہشت گردی کے نام پر امریکیوں کے لڑنے کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ ہمسایہ ملکوں کو نشانہ بنایا جائے اور ان ملکوں میں عدم استحکام پیدا کیا جائے۔

دوسرا ماسکو کو مشرق وسطیٰ وسط ایشیائی ریاستوں سے دور رکھا جائے۔ 1991 ء میں امریکہ میں سلک روٹ حکمت عملی ایکٹ اسی سٹریٹجک پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس حکمت عملی کے تحت اس نے داعش اور طالبان کو تخلیق کیا ہے ۔ دونوں کو امریکہ سے خوارک حمایت اسلحہ اور مالی مدد مہیا کی جارہی ہے ۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ رنگ تبدیل کر کے ہیلی کاپٹروں سے مذکورہ گروپوں کو اسلحہ پہنچایا جارہا ہے ہر روز پروازیں مذکورہ علاقوں میں آجا رہی ہیں۔

اس عمل کے ذریعے چین،روس کو اس خطہ سے علیحدہ رکھنا ہے۔ دن بدن خطرناک صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ چیزوں کو خراب زیادہ اور ٹھیک کم کیا جارہا ہے ۔ افغانستان خطرناک ہتھیاروں کی لیبارٹری اور مذبح گھر بنایا جارہا ہے۔ نئی جنگی پالیسی اور صورتحال پیدا کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ امریکہ میں روس سے متعلق تحقیقات کے دباؤ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔

افغانستان میں مضبوط مرکزی حکومت کے قیام کی پالیسی اور پاکستان کو اس میں گھسیٹنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ افغانستان میں افغانی مضبوط فوج نہ تشکیل ہونے دی جائے جومستقل میں افغانستان کا نظم ونسق سنبھالنے اور پاکستان روس چین علاقائی طاقتوں کی مدد سے تمام نسلی واقلیتی گروہوں پر مشتمل ایسی حکومت نہ بن پائے جو ایشیاء میں امریکی بالادستی کو ختم کردے۔

افغان پالیسی کے ذریعے افغانستان میں قومی فوج کے فروغ کو روکنا نسلی کشیدگی کو بڑھاتے ہوئے پشتونوں ، تاجک ازبک ہزارہ کثیر نسلی اتحاد کو کمزور مذاکرات کے دوران قوتوں کو ڈی سنٹر لائز ہونے سے روکنا ہے ۔ دکھاوے کے طور پر ایک پشتون گروپ کو کہ گلبدن حکمت یار کی رہنمائی میں متحرک ہے اسے حکومت میں شامل کرکے پختونوں میں منافرت پھیلائی گئی ہے۔

غیر پشتون علاقوں میں جنگجوؤں کی تعداد بڑھائی گئی ہے اور حکمت یار خفیہ ایجنسیوں اور کرائے کی فوج سے غیر پشتون علاقوں میں حملے کرائے گئے ہیں تاکہ افراتفری کا ماحول برقرار ہے۔ ان علاقوں کے لوگ ایک جانب امریکی اور دوسری جانب داعش کے جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں جنہیں کسی قسم کی حفاظتی مدد بھی حاصل نہیں ہے۔ جبکہ امریکی پالیسی یہ ہے کہ کابل حکومت مضبوط ہو وہ افغانستان تعمیر کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اچھی حکمرانی ، غیر جانبدار سیاسی حکومت جو تمام قومیتوں نسلی گروہوں ،اقلیتوں پر مشتمل ہو برادریوں کو فروغ دے اور قابل اعتماد کا تشخص بحال کرے، پاکستان کا بھی یہی مطالبہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Ameici Wazeer Kharja Ka Doraa pakstan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.