آلودہ اور زہر یلا پانی، بیماریا ں پھیلنے لگیں

پینے کے پانی میں آرسینک کا انکشاف

جمعرات 7 ستمبر 2017

Alooda Or Zehreela Pani
سید ساجد یزدانی:
ملک میں پھیلے وبائی امراض کے ساتھ اب عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں پینے کے صاف پانی میں خطرناک اور زہریلے مادے آرسینک کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے جس سے 6 کروڑ شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ پانی میں سنکھیا کی سب سے زیادہ مقدار لاہور اور حیدرآباد میں دیکھی گئی ہے جس کے باعث وہاں اس سے وابستہ خطرہ بھی سنگین ترین ہے۔

واضح رہے کہ سنکھیا یا آرسینک قدرتی طور پر پائی جانے والی معدنیات میں شامل ہے جو بے ذائقہ ہوتا ہے اور گرم پانی میں حل ہوجاتا ہے۔ لمبے عرصے تک سنکھیا سے آلودہ پانی استعمال کرنے کے نتیجے میں خطرناک بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں جبکہ کسی انسان کو ہلاک کرنے کیلئے سنکھیا کے ایک اونس کا 100 واں حصہ یعنی صرف 284 ملی گرام بھی کافی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

صحت کے عالمی اداروں کی جانب سے اس قدر واضح الرٹ کے باوجود وفاقی و صوبائی سطح پر کسی قسمکی ہلچل محسوس نہیں کی گئی اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ صحت کا میدان کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

اس وقت خیبر پختونخواہ ڈینگی وائرس سے بری طرح متاثر ہے جہاں ڈینگی کے ہزاروں مریض رپورٹ ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر بھی ڈینگی سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ایک ہاؤس آفیسر ڈاکٹر بھی ڈینگی کا شکار ہو گیا جبکہ صوبائی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر کے ہسپتالوں میں 24گھنٹوں کے دوران ڈینگی سے متاثرہ 118 افراد میں سے 47 ڈسچارج ہوچکے ہیں ۔

اس وقت 71 افراد ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ حکومت نے ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات کی مانیٹرنگ کے لئے ”صحت پورٹل“ کی نئی ایپ بنا لی ہے۔علاوہ ازیں ماہرین صحت نے انتباہ کیا ہے کہ کراچی میں مون سون کی بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو شہر میں صحت کے مسائل تیزی سے جنم لیں گے۔ بارش کے موسم میں مچھروں کی افزائش نسل بڑھ جاتی ہے جس سے ڈینگی ، چکن گنیا اور ملیریا پھیلنے کا خدشہ ہے۔

ماہرین صحت نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اگر گندگی اور مچھروں کی افزائش کو ختم نہ کیا گیا تو آئندہ برسوں میں مچھروں سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں بھی پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں۔ صائب ہوگا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وبائی امراض اور پانی کی آلودگی ختم کرنے کے لئے فوری اور راست اقدامات کئے جائیں ۔ ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آلودہ پانی اور کھانے پینے کی غیر معیاری اشیاء کے استعمال کے باعث بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لاہور کے 15 بڑے ہسپتالوں میں گیسٹرو (پیٹ میں درد،دست لگنا قے آنا، متلی ہونا اور سردرد)میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دس فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ محکمہ خوراک کی ناقص کارکردگی کے باعث غیر معیاری مشروبات اور دیگر اشیائے خوردونوش کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ شہر کی 60 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ یومیہ تین ہزار سے زائد آنے والے مریضوں کو داخل کرنے کے لئے بیڈز کم پڑگئے ہیں، ابتدائی علاج کے بعد بیشتر مریضوں کو واپس گھروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتا یا گیا ہے کہ بیماری کی یہ صورتحال صرف صوبائی دارالحکومت تک ہی محددود نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع بالخصوص ملتان اور ڈیرہ غازی خان بھی متاثر ہیں۔ کچھ عرصے سے عام لوگوں کے کھانے پینے کی عادات میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ گھروں میں کھانے پکانے اور گھر کے اندر بیٹھ کر کھانے پینے کی بجائے بازاروں میں کھانا فیشن بنتا جارہا ہے جس کے باعث فٹ پاتھوں پر بیٹھے برگر بیچنے اور نان چنے فروخت کرنے والوں کے دارے نیارے ہوگئے ہیں۔

یہاں تک تو خیر تھی لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ”مصنوعات“ کی تیاری کے دوران صفائی کا خیال نہیں رکھتے، مصالحوں میں سستی اور ملاوٹی اشیاء استعمال ہوتی ہیں، پینے کا پانی گندے برتنوں میں رکھا ہوتا ہے، ایک ہی گلاس میں سب پی رہے ہوتے ہیں۔ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کھڑی ان ریڑھیوں پر مکھیاں بھنبھنارہی ہوتی ہیں اور سڑک کا گردوغبار اڑ کر ان پر پڑتا رہتا ہے۔

افسوس یہ ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی علانیہ خلاف ورزی کو چیک کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسی جگہوں سے کھانے کا نتیجہ وہی ہوگا جس کارپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ویسے تو محتاط لوگوں کے نزدیک بڑے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں کو بھی صحت وصفائی کے لحاظ سے معیاری قرار دینا مشکل ہے لیکن چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور کنٹینوں کی حالت سخت ابتر ہے۔ بہر حال یہ محکمہ صحت اور خوراک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ عام لوگ جو کچھ کھا رہے ہوں اور صاف ستھرا ، ملاوٹ اور جراثیم سے پاک ہو۔

جہاں تک صاف پانی کی فراہمی کا تعلق ہے تو یہ واسا کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کرے۔ دوتین برس پہلے لاہو ر میں مختلف مقامات پر کارپوریشن اور واسا نے شہریوں کو بلا قیمت پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے کئی ایک فلٹر پلانٹ لگائے تھے جو مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ناکارہ ہوچکے ہیں یا بوتلوں میں پینے کا پانی فراہم کرنے والوں نے بند کرادیئے ہیں۔

بہر کیف لاہور سمیت تمام شہروں کی واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹیز کو اپنے اپنے حلقوں میں کثریت سے مصفا پانی کے فلٹر لگانے چاہئیں۔ آلودہ پانی کے باعث گیسٹرو کے مریضوں میں اضافہ ، سرکار ہسپتالوں میں ابھی تک گیسٹرو سے بچنے کی احتیاطی تدابیر ور معلوماتی کاؤنٹر قائم نہیں کئے گئے، دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو ایمرجنسی میں بیڈز کی کمی کا سامنا، یومیہ 3 ہزار سے زائد مریض علاج کے لئے آتے ہیں جن کو ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں صرف ڈرپ لگا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

شہر کی 60 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ یہ صرف لاہور کی صورت حال ہے جو نہ صرف صوبے کا دارلحکومت کہلاتا ہے بلکہ اسے پنجاب کا دل بھی کہا جاتا ہے اور جسے خوشنما بنانے کے لئے صوبے کے دوسرے شہروں کے حصے کے فنڈز بھی بیدردی سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ صوبے کے باقی شہروں کی اس حوالے سے صورت حال کیا ہوگی اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔

گویا اگر لاہور جیسے شہر کے 60 فیصد باسی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں توکم ترقی یافتہ شہروں میں ایسا پانی پینے والوں کی اوسط نکالنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئے دن کی لیبارٹری رپورٹوں میں منرل واٹر تیار کرنے والی کمپنیوں کا پانی بھی آلودہ اور مضر صحت قرار دیا جاتا ہے لیکن کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔

حکومت تعلیم پر خرچ کرتی ہے وہ جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بھی کم ہے جس سے صحت پر اٹھائے جانے والے اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ آلودہ پانی تو ایک طرف رہا دیگر اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کا تناسب بھی ہوش رُبا ہے جس میں دودھ اور مصالحہ جات بطور خاص شامل ہیں حتیٰ کہ بقول شخصے مُلک میں خالص زہر بھی دستیاب نہیں۔ اکیلے پانی ہی کی صورت حال یہ ہے کہ اس میں اکثر رپورٹوں کے مطابق گٹر کا پانی بھی شامل ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں فلٹریشن پلانٹ کاکوئی رواج نہیں ہے۔

سو‘ جہاں قوم ملاوٹ کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی وہاں اس کی نگرانی کے ذمہ دار سرکاری اہلکار یعنی فوڈ انسپکٹر وغیرہ بالعموم اپنی منتھلیاں کھری کرنے ہی میں مصروف رہتے ہیں۔ باقی اشیاء تو الگ رہیں خالص گوشت کا دستیاب ہونا بھی روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پانی بھرے گوشت کی شکایت تو پہلے ہی عام تھی اب مردہ جانوروں اور مرغیوں کا گوشت قوم کو کھلایا جارہا ہے۔

حتیٰ کے آئے دن گدھے کا گوشت بیچنے والوں کے حوالوں سے بھی کوئی نہ کوئی خبر اخبار کی زینت بنی نظر آتی ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں کوئی مئوثر انسدادی قانون نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے پکڑے جانے والے عبرتناک سزا کی بجائے معمولی جرمانہ ادا کرکے سرخرو ہوجاتے ہیں۔ ایسا ناقص اور مضر صحت گوشت زیادہ تو ہوٹلوں میں پایا جاتا ہے جہاں سے یہ قوم کے معدوں میں اترتا ہے۔

سرکاری سلاٹر ہاؤسز کی صورت حال مزید ناگفتگی ہے جہاں صفائی ستھرائی کے فقدان کے علاوہ نگرانی کا انتظام بھی دیگر محکموں کی طرح انتہائی ناقص ہے اور لاغروبیمار جانوروں کا نکاس بھی ایک معمول کی بات ہے ۔ چنانچہ صحت اور اس سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی جس قدر مایوس کن ہے اسی قدر حکومت کی ترجیحات کا بھی تخمینہ لگایا جاسکتا ہے جن کے حوالے سے عوام کو پہنچائی جانے والی سہولیات صاف نظر بھی آتی ہیں اور مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتی دعوؤں اور دلیلوں کی قلعی بھی کھلتی ہے کہ ان میں اصلیت کتنی ہے اور لفاظی کا تناسب کیا ہے۔

جہاں تک پانی کی صورت حال کا تعلق ہے تو ایک حقیقت ایسی ہے جس کا نہ کسی کو ادراک ہے نہ احساس۔ اور وہ یہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح روز بروز نیچی ہوتی چلی جارہی ہے اور جس کی ایک وجہ ہمارے ہاں میٹھے پانی کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ اسی سے ہم فرش بھی دھوتے اور گاڑیاں بھی، حتیٰ کہ ہماری خواتین برتن وغیرہ صاف کرتے وقت پانی جس بیدردی سے استعمال کرتی ہیں وہ ایک الگ عبرت انگیز مقام ہے اگر یہی صورت حال رہی تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ زیر زمین پانی جواب ہی دے جائے اور ہم پانی کے ایک قطرے کے لئے ترستے رہ جائیں جبکہ دریاؤں اور سیلابوں کا پانی ہماری بے تدبیری کی بدولت سارے کا سارا سمندر میں جاگرتا ہے اور ہماری کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بڑے نہیں تو چھوٹے ڈیم ہی تعمیر کرکے اس انتہائی قیمتی شے کا ذخیرہ کرنے کی کوئی صورت حال نکل سکے۔

ابتدا میں درج رپورٹ کے مطابق عوامی صحت کے بارے حکومتی ترجیح کا کچا چٹھا کھل کرسامنے آجاتا ہے کہ ہماری کیا صورت حال ہے اور ہمارے بچوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے کہ قوم کی تعمیر کا یہ بنیادی پتھر ہے جو اپنا حالِ زار خود ہی بیان کررہا ہے حالانکہ حکومت کو کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے کہ جن لوگوں سے اس نے ہر پانچ سال بعد ووٹ حاصل کرکے اپنے اقتدار کی گاڑی کو آگے چلانا ہے، اسے کم از کم بنیادی طور پر صحت کی سہولیات تو مہیا کی جائیں لیکن ایسے معاملات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔

اس کی ترجیحات میں میگاہ پروجیکٹس ، وہ موٹروے ہو، میڑو بس ہو یا اورنج ریلوے۔ اور وہ صرف دور سے نظر آنے چاہئیں۔ صحت اور تعلیم کے مسائل کو اگرحل کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو وی نظر نہیں آتے ہیں اور وہ ترجیحات میں شامل کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ اکثر ایسے پراجیکٹس محض دور ہی کا جلوہ ثابت ہوتے ہیں جن میں تازہ ترین قائداعظم سولر پراجیکٹ ہے جس کی اصلیت ہمارے دوست خالد مسعود خان نے اپنے کالم میں کھول کر بتادی ہے۔

اور جہاں تک آلودہ پانی کا تعلق ہے تو یہ حکمرانوں کو کبھی خود پی کر دیکھنا چاہیے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا۔ اتوار کو بجلی کا شارٹ فال 4700 میگاواٹ سے تجاوز کرگیا جس کے باعث 9 سے 15 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوئی بجلی کی بندش کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہر ے کئے گئے۔ ملتان، کراچی اور بلوچستان کے میدانی علاقوں میں پینے کے پانی کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے۔

شہریوں نے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت کے خلاف بھی احتجاج کیا ۔ بڑھتی گرمی کے باعث غیر علانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی طلب 15700 میگاوٹ جبکہ سپلائی 11000 میگاواٹ ہے۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)کے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز بجلی کی مجموعی طلب 15 ہزار 500 میگاواٹ جبکہ پیداوار ساڑھے 11ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ رہی۔

لاہور میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت کی شکایات ملتی رہیں ۔ ترجمان وزارت پانی و بجلی نے بتایا کہ تیس فیصد لائن لاسز والے علاقوں میں آٹھ گھنٹے ،پچاس فیصد والے علاقوں میں دس گھنٹے، ساٹھ فیصد لائن لاسز والے علاقوں میں بارہ گھنٹے ،جبکہ 80 فیصد لائن لاسز والے علاقوں میں چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

این این آئی کے مطابق لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت کے خلاف شرقپور شریف، گوجرانولہ ، حویلی لکھا،قصور،پتوکی،فیروزوالہ،شاہدرہ سمیت مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ بلوچستان کے شہروں جعفر آباد ، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی ودیگر میدانی علاقوں میں طویل لوڈشیڈنگ کے باعث پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ پانی کے بحران سے ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی اور وہ پندرہ سو روپے سے لے کر دو ہزار وپے تک فی ٹینکر فروخت کررہے ہیں۔

ڈیرہ بگٹی میں پانی کی عدم فراہمی کے خلاف سینکڑوں افراد نے او جی ڈی سی ایل کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ڈیرہ اللہ یار کی مختلف کالونیوں میں شہری پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔ ملتان میں چونگی نمبر 1پر شہریوں نے پانی کی قلت کے خلاف ٹائر جلا کر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ کراچی میں پانی کی قلت سے زندگی اجیرن ہوگئی ۔ شہری واٹر ٹینکرز سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Alooda Or Zehreela Pani is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.