افغانستان میں طالبان کی ”منصوری “ مہم!

امریکہ افغان امور سے راہ فرار کی تلاش میں․․․․․․ اشرف غنی دورہ پاکستان سے قبل بھارت کی یاترا کریں گے

جمعہ 3 نومبر 2017

Afghanistan Me Talbaan Ki Mansoori Muham
محمد رضوان خان:
افغانستان کے امن کیلئے جس قدر کوشش کی جارہی ہے امن اس سے اتنا ہی دور ہوتا جارہا ہے حتیٰ کہ پاکستان سمیت 4 ملکی کمیٹی بھی اس بار مسقط میں بیٹھی تب بھی افغانستان میں امن تار تار ہورہا تھا جو کافی پریشان کن ہے۔ افغانستان میں بد امنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک سے ڈیڑھ ہفتے کے دوران 210 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

افغانستان کے اند ر بدامنی کی یہ لہر عین اس وقت شروع ہوئی جب مسقط میں افغان امن مذاکرات کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ بدامنی کی اس لہر میں پہلا حملہ طالبان نے پکتیا صوبے کے شہر گردیز میں پولیس کی ایک عمارت پر کیا جس میں پولیس کے صوبائی سربراہ سمیت 60 افراد مارے گئے تھے، ابھی اس حملے کا شور شرابہ جاری تھا کہ چند گھنٹوں میں دوسرا حملہ ہوگیا۔

(جاری ہے)

صوبہ غزنی میں طالبان کے اس حملے میں 15 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد ہلاک ہوگئے، اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف تو خطے کے تمام ممالک پوری تندہی کے ساتھ افغانستان میں امن کا راستہ تلاش کررہے تھے تو دوسری طرف سکیورٹی فورسز کی تنصیبات پر یہ تیسرا حملہ بھی کردیا گیا، اس سے قبل ہونے والے حملوں میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے جن میں فوجی اور پولیس اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔

افغانستان میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششیں کبھی اس قدر لہورنگ نہ تھیں جتنی اس بار دیکھی گئیں۔ افغانستان میں ہونے والی ان وارداتوں میں سے بعض کی ذمہ داری تو طالبان نے قبول کی لیکن بعض وراداتیں داعش کی طرف سے کی گئیں۔ گویا اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ افغانستان میں موجود متحارب گروپس اب بھی امن عمل کو تاراج کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ان میں داعش کا تو کوئی ٹھوس مئوقف نہیں لیکن طالبان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک افغانستان سے غیر ملکی افواج واپس نہیں چلی جاتیں اس وقت تک وہ کسی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے، اس قسم کا بے لچک رویہ دیکھ کردہشت گردی کی جو حالیہ کا روائیاں سامنے آئی ہیں وہ کوئی غیر متوقع نہیں تھیں بلکہ توقعات کے عین مطابق طالبان اپنا ردعمل دے رہے ہیں جبکہ داعش نے دیکھا کے لوہا گرم ہے تو اس نے بھی اپنی وارداتیں کرڈالیں ۔

یہ وارداتیں کب کہاں اور کیسے ہوئیں ان کی تفصیل جاننے سے قبل ضروری ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ مسقط میں ہونے والی بیٹھک میں امن کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی کہ نہیں؟ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب تو نفی میں ہے کیونکہ اس میں مبینہ طور پر ماسوائے چند ضمانتوں کے اور کوئی پیش رفت نہیں اور جو ضمانتیں بھی دی گئی ہیں ان کے بارے میں ضامن بھی خاصے پریشان ہیں لیکن سردست افغان امور میں کوئی بہتری آتی دکھائی نہیں دے رہی اسکے ساتھ ہی امریکہ نے جس انداز سے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر اپنا پینترا بدلا ہے اس نے بھی حالات کی غیر یقینی میں اضافہ کیا ہے۔

امریکہ کا یہ نیا انداز باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ نے آنکھیں دکھانا شروع کیں تو دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی جنہوں نے اپنے ارد گرد موجود ہندوستان نواز لابی کے باوجود پاکستان کے دورے کا اعلان کیا تھا نے اچانک پلٹا کھاتے ہوئے اس امرکا عندیہ دیا ہے کہ وہ دورہ پاکستان سے پہلے بھارت کی یاترا کریں گے، یاد رہے کہ اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل باجوہ کی دعوت پر پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کی تھی جس کے بعد افغانستان میں گویا بھونچال آگیا تھا اور وہاں موجود دہلی وواشنگٹن نواز لابی اس قدر مضطرب ہوگئی تھی کہ وہ دوسرے سے اشرف غنی کے دورہ پاکستان کیلئے تیار ہی نہ تھے۔

اشرف غنی کے اس اعلان کے بعد ان کے دورے کی مخالفت اور حمایت دونوں ہی افغانستان میں دیکھی جارہی تھیں لیکن آخر میں ثابت ہوگیا کہ افغان قصر اقتدار میں افغانیوں سے زیادہ اثرو اشنگٹن اور اس کی وساطت سے ہندوستان کا ہے۔افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے قبل بھارت جانے پر پاکستان نے ابھی تک باقاعدہ طور پر کوئی ردعمل ظاہر ہیں کیا اور نہ ہی باقاعدہ طور پر اس کی کوئی ضرورت ہے لیکن افغانستان کے کرتا دھرتا افراد نے اشرف غنی کی نئی شرط کا اظہار کرکے اپنی ترجیحات ظاہر کردی ہیں۔

ذرائع کے مطابق اشرف غنی بھارت جاکر پاکستان آئیں یا پاکستان سے ہوکر بھارت جائیں اس بات سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیو نکہ یہ دو ملکوں کی سفارتکاری کا معاملہ ہے لیکن خاص طور پر اس بات کا چرچا کرنے کا مقصد پاکستان کو نیچا دکھانا ہے۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستان کو اس بات کا قلق ضرور ہے لیکن اگر اشرف غنی کی طرف سے جو کہا جارہا ہے ویسا ہی عملی طور پر کیا جاتا ہے تو پاکستان کے پاس دنیا کو پیش کرنے کیلئے ایک اور استدلال آجائے گا کہ کابل میں بھارت نواز لابی کس قدر مضبوط ہے، یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں ہی بار ہایہ بات کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کبھی بھی پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت سے دوستی نہین بڑھائے گا لیکن عملی صورتحال اس سے مختلف ہے۔

افغان صاحب اقتدار طبقہ جو ہندوستان نوازیاں کرتا ہے اس کے نتائج افغان عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ افغانستان کے حکام کا عالم یہ ہے کہ وہ جب بھی پاکستان میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین کی واپسی کی بات کرتا ہے تو افغان حکام بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت جس کے پیٹ میں افغانیوں کی محبت کے مروڑ ہر وقت اٹھتے ہیں اس کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ تو ان مہاجرین کو بھارت میں آباد کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی وہ افغانستان میں اپنی فوجیں بھینجے پر آمادہ ہے۔

حالیہ دنوں میں جب امریکہ نے بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کی بات کی ہے تب بھی اس نے ایک بار پھر اپنی فوج افغانستان بھیجنے صاف انکار کردیاہے۔ اس تضاد کے بارے میں افغانیوں کو استفسار کرنا چاپئے کہ اس کا خیر خواہ افغان عوام کو طالبان اور داعش سے بچانے کیلئے کیوں اپنی فوج نہیں بھیجتا ، اگر بھارت افغانیوں سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے یہاں اپنی افواج بھیجے گا تو وہ افغان فوج جو اس کی سدھائی ہوئی ہے اس کے اہم رکاب طالبان کے خلاف لڑتے ہوئے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ جس فوج کی اس نے تربیت کی ہے وہ اس کی طرح کس قدر ”بہادر“ تھے؟۔

افغانستان میں اس وقت جس انداز سے دہشت گردی کی کاروائیاں ہورہی ہیں انہیں دیکھا جائے تو اس وقت افغانیوں کو اپنے بچاؤ کیلئے انسانی وسائل کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں یکے بعد دیگرے حملے ہورہے ہیں، ان حملوں میں نیا رنگ فرقہ واریت کا بھی دیکھا جارہا ہے جس کے دوران کابل اور صوبہ غور میں شیعہ مساجد پر دو مختلف حملوں میں کم از کم 73 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

دارلحکومت کابل کے مغربی حصے میں واقع امام ضامن مسجد پر ہونے والے خودکش حملے میں کم از کم تیس افراد جاں بحق ہوئے، اس کے علاوہ افغانستان کے مرکزی صوبے غور میں ایک شیعہ مسجد پر ہونے والے حملے میں33 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ کابل حملے میں حملہ آور نے نماز جمعہ کے موقع پر خود کو دھماکہ سے اڑانے سے پہلے نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔

حکام کے مطابق پیدل حملہ آور مسجد امام ضامن میں داخل ہوا اور کچھ دیر نمازیوں پر فائرنگ کی جس کے بعد اس نے خود کودھماکے سے اڑا دیا، اس طرح افغانستان کے مرکزی صوبے غور میں ایک شیعہ مسجد پر حملے میں حکومت کے حامی ملیشیا رہنما سمیت 33 افراد جاں بحق ہوگئے۔ کابل کی مسجد حملے کی ذمہ داری تو کسی نے قبول نہیں کی لیکن صوبہ غور کی مسجد پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی۔

افغانستان میں ابھی ان دو حملوں کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ اس دوہری واردات کے اگلے ہی روز کابل میں فوجی اکیڈمی کے باہر ایک خودکش حملے میں کم از کم 15 کیڈٹ ہلاک اور کئی دوسرے افراد زخمی ہوگئے، اس واردات کے بارے میں افغان پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ اس وقت ہوا جب ایک پیدل خودکش بمبار نے مارشل فہیم ملٹری اکیڈمی کے باہر کھڑی ایک منی بس کے نزدیک پہنچ کر خود کو دھماکہ سے اڑا دیا، منی بس کیڈٹوں سے بھری ہوئی تھی۔

طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی اس کے ترجمان کا دعویٰ ہے یہ حملہ افغان فورسز اور ان کے غیر ملکی سر پرستوں کے خلاف طالبان کی جاری مہم”منصوری“ کا حصہ تھا ۔ طالبان اور داعش کی افغانستان میں اس مہم جوئی کے پیچھے کئی عوامل کار فرماہیں جن میں طالبان کا تو واحد مقصد یہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان سے نکل جائے لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ افغانستان میں فوجی اڈے کی صورت میں امریکہ کو جنوبی ایشیاء میں فوجی اڈا ہاتھ آیا ہے اور وہ اس کو کسی صورت چھوڑ نا نہیں چاہتا۔

امریکہ کچھ بھی کہے لیکن وہ افغانستان میں 16 سالہ جنگ ہار چکا ہے کیونکہ سولہ برس میں وہ طالبان کو ختم نہیں کرسکا اورطالبان آج بھی افغانستان کے 40 فیصد رقبے پر حکمرانی کرتے ہیں جبکہ حکومت افغانستان سے زیادہ محاصل وہ وصول کرتے ہیں، ان حالات میں امریکہ جنوبی ایشیاء میں اپنے غیر نیٹو اتحادی بھارت کے پیچھے چھپنا چاہ رہا تھا لیکن بھارت نے اپنی فوج افغانستان بھیجنے سے صاف انکار کرکے امریکہ کے اس منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔

امریکہ کی اب کوشش یہ ہے کہ بھارت کو علاقائی تھانیداری دے کر خود افغان امور سے بری الذمہ ہو جائے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی یہ بات قبل از وقت ہوگی لیکن ٹرمپ انتظامیہ اس بار جیت کے قصے سے ہی جان چھڑانا چاہتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک تو امریکی حکام پاکستان پر بے سروپاالزام اب تو اتر کے ساتھ عائد کررہے ہیں تو دوسرا انہوں نے پاکستان سے مفاہمت کیلئے جو کھڑکی کھول رکھی تھی اس کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی کی ٹیم کو تحلیل اور دفتر کو ختم کردیا گیا ہے، اس بات کا اعلان سرکاری سطح پر نہیں کیا گیا تاہم ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹیم میں شامل اہلکاروں کا معاہدہ ستمبر کے آخر میں ختم ہونے کے بعد کنٹریکٹ میں مزید توسیع نہیں کی گئی جس کے باعث ٹیم کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں اور اب وہ اپنی پوزیشن پر کام نہیں کرسکتے، اس نئی صورتحال سے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ مستقبل میں افغان مسئلے کے پرامن اور سیاسی حل کی تلاش کرنے کی صلاحیتیں متاثر ہوگی جس کے مضمرات مستقبل قریب میں سامنے آئیں گے۔

یاد رہے کہ اس سیکشن کے خاتمے کے بعد افغان حکومت کی بقاء پر بھی ایک سوال کھڑا ہوگیا ہے کیونکہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان مشترکہ حکومت کا فارمولہ اسی دفتر کی کوششوں سے قابل عمل ہوا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afghanistan Me Talbaan Ki Mansoori Muham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.