افغانستان میں امریکی افواج کو نئے اختیارات تفویض!

امریکہ کا نیٹو ممالک پر دباؤ۔۔۔۔ پاکستان کو نظر انداز کرنے سے امن کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوگا

پیر 11 دسمبر 2017

Afganistan me Amrici Afwaj Ko Naye Ikhtyarat
محمد رضوان خان:
سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے ملک کے اندر کوئی اصلاحات متعارف کرائی ہوں یا نہ لیکن سابق صدر یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج کے کردار کو بتدریج محدود کرنا ہے۔ سابق انتظامیہ کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک تھا کہ افغانستان طالبان کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسی جیتی جاگتی حقیقت ہے جس کا اقتدار باقاعدہ طور پر ملک کے 8 صوبوں میں اب بھی جاری وساری ہے ایسے میں پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرکے اس پر دباؤ بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لئے اوباما انتظامیہ نے دو کام ایسے کئے جو امریکہ کے مفاد میں تھے ان میں سے ایک تو افغانستان میں اپنے لئے فوجی اڈہ حاصل کرنا تھا اوردوسرا افغانستان میں امریکہ کے متحارب کردار کو محدود کرناتھا، مثال کے طور پر سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے دنوں میں امریکی فضائی کاروائی کی اجازت صرف اپنی ذاتی دفاع کی صورت میں ممکن تھی اور یہ اجازت بھی اس وقت کیلئے تھی جب طالبان اس حد تک قریب ہوں کہ ان کے حملے کا امریکی اور افغان افواج کو براہ راست خطرہ لاحق ہوتا تب امریکیوں کو مارے۔

(جاری ہے)

امریکی بخوبی جانتے تھے کہ افغانستانیوں امریکیوں کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ اس مقصد کیلئے باقاعدہ حکمت عملی مرتب کی جو درست تھی لیکن اوباما کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے جذبات میںآ کر اوباما کی پالیسیوں کو ختم کر ڈالا اور ساتھ ہی امریکی ونیٹو فوج کو اس بات کا بھی اختیار دے دیا گیا کہ امریکی فوج افغان فوج کے ساتھ مل کر افغانستان میں مستقل امن کی راہ ہموار کرے۔

ٹرمپ کے دور کی اس پالیسی میں یہ طے کیا کہ طالبان کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا، اس فضائی قوت کا استعمال امریکہ عراق میں بھی کرچکی ہے اور افغانستان میں بھی ابتداء میں یہ قوت پوری آب وتاب کے ساتھ استعمال کیا گیا اور 36 روز بعد طالبان نے از خود پسپائی اختیار کرلی اور یوں طالبان حکومت ختم ہوگئی۔ امریکہ نے بالغ نظری کا ثبوت دیا جہاں جہاں طالبان کی حکومت تھی اس کو نہیں چھیڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں آج بھی افغان حکومت کے مقابلے میں طالبان زیادہ محاصل حاصل کررہے ہیں۔

اوباما کے دور میں بھی طالبان اسی طرح محاصل لیتے تھے لیکن ٹرمپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکی فضائیہ کی قوت استعمال کرے گی جس کیلئے افغانستان کے انسانی وسائل تصرف میں لانے تھے۔ امریکہ نے جدید جنگی ہیلی کاپٹر بھی افغان آرمی کودیئے تاکہ انہیں جہاں افغان طالبان کی کمین گاہیں ہیں ان کا نشانہ بنایاجا ئے۔ امریکہ نے افغان آرمی کو جدید جنگی ہیلی کاپٹر دیئے اور پھر افغان پائلٹس کوباقاعدہ تربیت بھی دلوائی گئی لیکن اب کی بار یہ اچھا ہوا کہ ہیلی کاپٹرز چلانے کیلئے افغان فوج کو تربیت دینے کیلئے امریکی فوج پر انحصار کیا ہے جو خوش آئند اقدام تھا۔

امریکی فوج 8 سو سے 1 ہزار فوجیوں کو تربیت دے رہی ہے۔ لیکن اس ٹرینڈ فضائی فوج کے ساتھ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہورہا طالبان پر جن علاقوں میں گولہ باری کی گئی وہاں طالبان کی طرف سے بھی اس کا جواب اس طرح دیا جارہا ہے کہ طالبان ان امریکی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کئی بلیک باکس ہیلی کاپٹر مار گرائے ہیں ، تاہم وہ ان کی تعداد بتانے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے ان کے دعوے کی صحت پر شک کیا جارہا ہے۔

افغان حکومت اور امریکہ دونوں اس معاملے میں خاموشی اپنائے ہوئے ہیں، ان کی اس خاموشی اور طالبان کا تواتر کے ساتھ ہیلی کاپٹر گرانے کے اصرار کے دعوے اس میں حقیقت کے رنگ بھر رہے ہیں۔ افغان فضائیہ کی ان کا روائیوں میں بڑی حد تک اضافہ بھی ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود امریکیوں کے مطابق افغانستان میں فضائی حملوں میں تین گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔

امریکی جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ اضافی فضائی طاقت کی فراہمی کے نتیجے میں افغانوں کے لئے طالبان کے خلاف زیادہ جارحانہ طریقہ کار اپنانے میں مدد ملی ہے، اس بارے میں ”رزولوٹ سپورٹ“ مشن کے ترجمان کے مطابق اکتوبر2017ء سے لے کر اب تک امریکہ نے افغانستان میں27 سو فضائی کاروائیاں کی ہیں، واضح ہو کہ امریکہ اس وقت افغانستان کے متحارب دھڑوں کو کچلنے میں ہمہ وقت مصروف ہے جس کیلئے حالیہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے افغانستان کے کئے فضائی ذرائع سے اسلحے کی فراہمی میں بھی تین گنا اضافہ کیا ہے جبکہ ساتھ ہی سینکڑوں فوجیوں کو تربیت دی جارہی ہے افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے بعد ان فوجیوں کو نئی ذمہ داریاں دی جائیں گی کیونکہ یہ ذمہ داراں اب نیٹو فوج نے عملی طور پر شیئر کرنے سے انکار کردیا ہے اور حالت یہ ہے کہ امریکی اب اس جنگ میں تنہا ہوچکے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت افغانستان میں امریکی افواج کوئی نئے اختیارات تفویض کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے مزید فضائی طاقت میسر آئی ہے۔ امریکہ ایک طرف تو افغانستان میں فیصلہ کن راؤنڈ کے طور پر اپنی فضائی قوت بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن کی سوئی ابھی تک پاکستان پر اٹکی ہوئی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلام آباد سے متعلق سخت مئوقف اپنانے کے باوجود پاکستان نے دہشت گردوں کے حوالے سے اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی ظاہر نہیں کی۔

امریکہ کا ایک عرصے سے اصرار ہے کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے۔ نکولسن نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کاروائی کرے۔ افغانستان میں امریکہ کی دو عملی یہ ہے کہ وہ خود طالبان کی صوبائی حکومتوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کررہا جبکہ پاکستان سے اسی تسلسل کے ساتھ تقاضے کئے جارہے ہیں تاہم اب فرق یہ ہے کہ پہلے صرف یہ تقاضے کئے جاتے تھے لیکن اب ان میں دھمکیاں بھی شامل ہوگئی ہیں جس میں حال ہی میں نکولسن نے کہا کہ”ہم پاکستان سے متعلق واضح اور دو ٹوک اندا ز میں موقف اپنائے ہوئے ہیں۔

جنرل نکولسن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں مقیم ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کی صرف نچلے درجے کی قیادت موجود ہے۔ امریکیوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن افغانستان کی شکست کا ذمہ دار اپنے سر نہیں لینا بلکہ دنیا کو پاکستان کے خلاف الجھا کر رکھا جائے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں دھیرے دھیرے تنہائی کا شکار ہوتاجارہا ہے۔

افغانستان کے بارے میں امریکہ نے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد نیٹو ممالک کے سربراہان نے اپنے اجلاس کے دوران اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت افغانستان سے دہشت گردوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے اپنے فوجی بھی بھیجیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا نیٹو ممالک کے فوجی نہ آنے سے اب افغانستان میں امریکی فوج کو ہی اپنی تعداد بڑھانی پڑی۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد15298 تک جاپہنچی ہے حالانکہ اوباما اپنے دور میں اس تعداد کو کافی گھٹا گئے تھے لیکن جو کامیابی یا فائدہ امریکی فوجیوں کو اوبامہ کی پالیسی سے ہوسکتا تھا لیکن سردست ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ امریکی جب تک بھارت کو افغانستان کے معاملات میں زبردستی گھسانے کی کوشش میں پاکستان کو نظر انداز کرتا رہے گا اس وقت تک افغانستان میں امن کا خواب بھی پور انہیں ہوگا۔

واضح ہوکہ پاکستان بار بار یہ وضاحت کرچکا ہے افغانستان میں بھارت کے نفوذ پر پاکستان کے خدشات ہیں لیکن اس پر غور کرنے کے بجائے الٹا پاکستان پر ایک طرف الزام لگائے جارہے ہیں تو دوسری طرف نیٹو ممالک کی حمایت بھی ٹرمپ کی پالیسی کے اعلان کے بعد کم ہوچکی ہے اور امریکہ کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ وہ نیٹو ممالک کے پہلے التجا کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپنے اپنے حصے کی فوج افغانستان بھیجیں تاکہ ان کا قلع قمع کیا جاسکے، اس ضمن میں امریکی سیکرٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اپنے نیٹو کے ممبر ممالک سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے مشن پر اپنا عہد (فوج بھجوانے والا)برقرار رکھیں۔

ٹیلرسن ایک طرف یہ بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر نیٹو ممالک اکھٹے نہ ہوئے تو دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پھر زور پکر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ایک اور نائن الیون جیسی سازش ہوسکتی ہے گویا امریکہ کی طرف سے اب نیٹو ممالک کے دبے دبے لفظوں میں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں کہ وہ بلا چون وچرا افغانستان اپنے فوجیوں کو بھیج دے تاہم سردست نیٹو ممالک کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ افغانستان میں اب تک انہوں نے اپنے فوجی جوانوں کی لاشیں جس طرح گنوائیں اس کے بعد وہ سرزمین افغانستان پر اپنے بچوں کی خون کی ہولی ہونے پر تیار نہیں ، یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں دنیا کو بتایا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عملی جدوجہد سب سے زیادہ کررہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے افغانستان، عراق اور شام میں اس کے 26 ہزار فوجی قیام امن کیلئے کام کرہے ہیں جس میں سے 15298 فوجی افغانستان میں 8892 عراق میں اور1720 شام میں تعینات ہیں ۔

امریکہ افغانستان میں اپنی عسکری تنہائی دورکرنے کیلئے بے تاب ہے ، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا نیٹو ممالک اس ہاری ہوئی جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں گے کہ نہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Afganistan me Amrici Afwaj Ko Naye Ikhtyarat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.