60 فیصد سے زائد کشمیری آبادی نفسیاتی مریض بن گئی

بھارتی افواج کی بربریت و درندگی سے دس لاکھ افرادذہنی تناوٴ کا شکار ہیں کشمیری خواتین کی بڑی تعداد ڈپریشن میں مبتلا خودکشی کے واقعات بڑھ گئے

اتوار 8 اپریل 2018

60 feesad se zayed kasmiri abadi nafsiati mareez ban gayi
راجہ عظمت
 حقوق انسانی فورم و کٹمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عدم تحفظ ، آئے دن کے چھاپوں، کریک ڈاؤن اور نت نئے حربوں نے کشمیریوں کی نصف سے زائد آبادی کو خطرناک ترین نفسایاتی و ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دل اور دماغ کی بڑی بیماریاں بھی عام ہو چکی ہیں۔ ماہرین نفسیات اور دیگر طبی ماہرین و معالجین کے حوالے سے مقامی حقوق انسانی کارکن نے کہا کہ پُر تشدد صورتحال اور دھونس ھاندلی کے حربے عام آدمی کی زندگی، اس کے رہن سہن، پہناوے اور معمولات زندگی میں خلل ڈالتے ہیں۔

جب کوئی بھی انسان اپنی مرضی و منشا کے مطابق زندگی ہی نہیں جی پاتا اور اس پر مختلف نوعیت کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو اس کی نفسیات منفی تاثر لے لیتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مرد و زن اور بچے امراض قلب اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔کیو نکہ وہ اپنے ساتھ یا گردو نواح میں بار بار ظلم و جبر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جاری صورتحال کے دوران جاں بحق ہوئے ہزاروں کشمیری اور جیلوں میں بند پڑے اسیران کے والدین، شریک حیات اوربچے نفسیاتی امراض سے دوچار ہیں اور ان کی راحت اور آسودگی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔ایک کئے گئے سروے کے مطابق کشمیری خواتین کی 24 فیصد تعدادذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ گزشتہ 28 سال کے دوران خود کو غیر محفوظ تصور کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے گھر میں موجود افراد کی جانیں بچانے کیلئے اپنی ملازمت تک کو چھوڑ دیا۔

سرینگر کے مختلف اضلاع سے آنے والے مریضوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقبوضہ وادی میں12.9 فیصد خواتین ذہنی مریض بن گئی ہیں۔مینٹل ہیلتھ ماہرین پر مشتمل ٹیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنوں کا خون خرابہ دیکھنے والی خواتین میں 24.3 فیصد ذہنی امراض پائے جاتے ہیں جبکہ اسی خواتین جنہوں نے ذاتی طور پر خون خرابہ دیکھا نہیں ہوتا جو ایسے واقعات سے منسلک نہیں ہوتیں ان میں صرف9.4فیصد ذہنی امراض پائے جاتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خواتین کی بڑی تعداد نے اپنے عزیز و اقارب کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے اپنی نوکریاں چھوڑیں جس نے ان کی اقتصادیات اور ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ 18سے40سال کی عمر کی عورتوں میں 57فیصد،40سے زیادہ عمر کی خواتین میں 59 فیصد اور60سال سے زائد عمر کی خواتین11.6 فیصد خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

نامساعد حالات کے دوران بھی کئی خواتین انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اور نیورو سائنر کشمیر سے علاج معالجہ کروا چکی ہیں۔ بیشتر عورتیں اپنے بچوں کی ہلاکت کی وجہ سے ذہنی مریض بن گئی تاہم علاج معالجہ ملنے کی وجہ سے اب ان کی حالت بہتر ہے۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ان 30 سالوں میں جو نوجوان پیدا ہوئے ان کے دماغ مفلوج ہو چکے ہیں اور یہ کہ ان پر نفسیاتی دباؤ بھی بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد سے زائد کشمیر کی آبادی نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔ ڈاکٹروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نوجوانوں کو اپنا مستقبل غیر واضح دکھائی دے رہا ہے، وہ دن بدن دماغی مریض بنتے جارہے ہیں۔ بھارتی درندہ صفت افواج کے ظلم و ستم سے 50 فیصد بالغ آبادی کے ساتھ ساتھ 40 فیصد نوعمر اور بچے کسی نہ کسی طور پر اپنی زندگی کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں جن کے سبب ان کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین نفسیات نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ریاست میں ذہنی یا نفسیاتی امراض سے متعلق مخصوص ادارہ یا کوئی تحقیقی مرکز بھی قائم نہیں ہے اور یہی صورتحال اس خطرناک مرض کوبڑھنے میں مدد دے رہی ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر وادی میں خود کشی کے واقعات و منشیات کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر روز ایک نوجوان ذہنی دباؤسے تنگ آ کر بغیر کی ٹھوس وجہ کے خود کشی جیسے انتہائی اقدامات اٹھا رہا ہے اور کشمیری معاشرے میں بڑے پیمانے پر نفسیاتی اورذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ذہنی انتشارسے متاثرہ لو گوں کے پاس ان بیماریوں کا کوئی علاج نہیں اور اس وجہ سے وہ منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے ہیں تاہم بروقت علاج سے ایسے مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ماہرین طب کے مطابق وادی میں روزانہ چار سے پانچ خود کشی کے واقعات رونما ہوتے ہیں جو کہ باعث تشویش ہے۔ مقبوضہ وادی میں جدوجہد آزادی پر جانیں قربان کرنے والوں کے بعد دوسرا نمبر خودکشی کا آتا ہے۔

گزشتہ ریکارڈدیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 1998ء میں 167 خود کشی کے واقعات درج ہوئے۔ 1999ء میں 249 رجسٹرڈ ہوئے۔ صرف 2000ء سے 2001ء تک کوئی دس لاکھ کشمیری نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جن میں سے 20 مریضوں نے خود کشی کر لی۔ سالانہ ایک لاکھ افراد ذہنی مریضوں کے ہسپتال میں علاج کروانے آتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی فوج کی بربریت و درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اسی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہے جنہیں بے حرمتی اور وحشت کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ 30 سالوں میں سینکڑوں خواتین کو بیوہ بنا دیا گیا ۔ان کے خاوندوں کو دوران حراست لاپتہ کر دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی اکثریت نفسیاتی ودماغی دباوٴ کا شکار ہے۔مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے واحد نفسیاتی ہسپتال کے ماہرذہنی امراض کا کہنا ہے کہ 1990ء سے قبل اس ہسپتال میں لگ بھگ ہر سال 1800سے 2000 مریض آتے تھے لیکن اب ان کی تعداد بڑھ چکی ہے۔

اس وقت یہاں شدید صدموں سے گزرنے کے باعث پیدا ہونے والاذہنی مرض عام ہو گیا ہے جو اس سے قبل اس خطے میں موجود نہ تھا۔ اس کی بڑی وجہ تشدد آمیز ماحول کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ شدیدذہنی صدموں کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ کو اکثر اوقات ایسے واقعات سے منسلک کیا جاتا ہے جن میں کسی شخص کو کسی حملے میں زخمی ہونے کا، کی شدید خوفزدہ صورتحال کایاکسی شدید تشدد کے مشاہدے کا تجربہ ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ان شدیدذہنی صدموں کے بعد وہ واقعات ان افراد کے ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔کبھی کبھی ان مناظر کی دھندلی تصویر بھی ان کے سامنے منڈ لانے لگتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پر بہت زیادہ خوف طاری ہو جاتا ہے۔
ماہین نو سال کی تھی جب اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بڑے بھائی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کا ہولناک منظر دیکھا تھا اور جب دس سال کی ہوئی تو اس نے اپنے ہمسائے کو سڑک پر مرتے ہوئے دیکھا۔

ان کے یکے بعد دیگرے دل دہلا دینے والے واقعات نے ننھی ماہین کے ذہن پر برا اثر ڈالا اور وہ ذہنی دباوٴ کا شکار ہو گئی اور کافی عمر تک مقامی فزیشن کے پاس زیر علاج رہی۔ اس کی پوزیشن میں اس وقت بگاڑ پیدا ہوا جب ماہین کے والد کی بھارتی فوج کی حراست میں موت واقع ہو گئی۔ اس صدمے سے گزرتے ہوئے اسے شدید دورے پڑنے لگے۔ بعد ازاں ذہنی امراض کے ہسپتال کے ڈاکٹر کی تشخیص کے مطابق ماہین پندرہ سال کی عمر میں ہی ( traumaric stress disorder post- ) میں مبتلا ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر کے مطابق وہ اکثرغمگین رہتی ہے اور غیر ارادی طور پر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ ماہین صرف واحد کشمیری لڑکی نہیں جو حالات کی ستم ظریفی کا شکارہے بلکہ نصف سے زائد آبادی انیزائٹی ، انتشار، نیند کی کمی، ڈپریشن اور دباؤ جیسے امراض کے گھیرے میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میڈیکل سائنز انسٹی ٹیوٹ نے انکشاف کیا کہ 55 فیصد کشمیری افراد کو کسی نہ کسی ذہنی بیماری سے واسطہ پڑتا ہے۔


 کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی مجموئی صحت پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری عورتوں میں اولاد پیدا کرنیکی صلاحیت میں کمی ہوئی ہے اور انہیں پیچیدہ نسوانی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سترہ سالہ ایک کشمیری نوجوان لڑکی ملیحہ بھارتی افواج کی وحشت و درندگی سے اس قدر ہراساں ہوئی کہ لیڈی ڈاکٹر کے مطابق اسے شدید نسوانی امراض نے آ گھیرا جس کی وجہ سے اسے بانجھ پن کا خطرہ بڑھ گیا۔

ایک اورذہنی مریضہ عندلیب ابھی تک اولا دکی نعمت سے محروم ہے۔ اسے بھی ڈاکٹر نے بانجھ پن کی تشخیص کی ہے۔ عندلیب نے کہا کہ اس نے ہر میڈیکل ٹیسٹ کروالیا۔ بانجھ پن کی وجہ سے ماں نہیں بن سکتی جو میرے لئے سب سے تکلیف دہ بات ہے اور اس نے میری زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ صرف عندلیب ’ملیحہ ہی نہیں ہزاروں مظلوم و بے بس کشمیری خواتین و نوجوان لڑکیاں انہیں شدید حالات سے دوچار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

60 feesad se zayed kasmiri abadi nafsiati mareez ban gayi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.