40 ہزارروہنگیا مسلمانوں کو دہشت گرد قراردے کر دربدر کرنے کی مہم

بھارت میں برمی پناہ گزین ہندوفرقہ پرستوں کے نشانے پر مودی حکومت انہیں مہاجر تسلیم کرنے پر تیار نہیں

منگل 5 ستمبر 2017

40 Hzaar Rohngiya Muslmano ko Dehshat Gard Qrar dy kr Darbadar krny Ki Muham
رابعہ عظمت:
بی جے پی حکومت نے بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے وہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اسی مسلم دشمنی کی روایت نبھاتے ہوئے برمی مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا اعلان کردیا ہے اور انہیں بھارت سے دربدر کرنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت کا فرمان ان مہاجرین پر بجلی بن کر گرا ہے اور وہ شدید تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ میانمار میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارتی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مرتبہ رجسٹرڈ ہونے کے بعد کوئی بھی ملک پناہ گزینوں کو ملک بدر نہیں کرسکتا۔ سیکرٹری جنرل نہ یہ بھی کہا کہ ہندوستان کا یہ اقدام اس کی بے ضمیری کا ثبوت ہوگا۔

(جاری ہے)

․․․․ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ صرف روہنگیا کے مسلم مہاجرین کو ہی کیوں دربدر کیا جارہا ہے؟غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ہندوؤں اورسکھوں کو شہریت عطا کرنے کیلئے شہریت کے قانون میں ترمیم کیوں کی جارہی ہے۔

اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے بھی مذہب کا نام پر امتیاز برتا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ سال شہریت کے قانون میں ترمیم کی تھی جو صریحاََ مذہب کی بنیاد ہوئی تھی جبکہ بھارتی شہریت ایکٹ 1955ء کے تحت کسی بھی غیر قانونی تارک وطن کو شہریت عطا نہیں کی جاسکتی۔ مگر اس بل میں ترمیم کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت دی گئی۔

نئی ترمیم کے تحت مسلم اکثریتی ملکوں بالخصوص افغانستان ،بنگلہ دیش اور پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں ، سکھوں ،چین مت اور عیسائیوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے دائرے سے باہر کردیا گیا۔ نئے قانون کے مطابق اب کوئی بھی ہندو مسلم ملکوں سے ہندوستان میں داخل ہوسکتا ہے اور چھ سال بعد ہندوستانی شہریت کیلئے درخواست دے سکتا ہے۔ قبل ازیں یہ مدت 11 سال تھی۔

اس قانون کا نفاذ کرکے بی جے پی نے اپنا ایک انتخابی وعدہ پورا کردیا ہے ، جس میں مسلم اکثریتی ملکوں سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت عطاکرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 2014 ء کی انتخابی مہم کے دوران بے جے پی نے انتخابی منشور میں ہندوستان کو دنیا بھر میں مظالم کے شکار ہندوؤں کا فطری گھر قراردیا تھا اور بڑی ڈھٹائی سے ہندواور مسلمان پناہ گزینوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی تھی۔

اگر ہندوستان کا مقصد تمام غیر قانونی تارکین وطن کو دربدر کرنا ہے تو پھر مذہبی اساس پر دوہرا معیار کیوں روار رکھا گیا ہے؟ایک طرف غیر قانونی ہندوؤں کو بھارت میں بسانے کیلئے انہیں شہری مراعات و سہولیات کی فراہمی کیلئے غیر قانونی اقدامات کئے جارہے ہیں، دوسری طرف مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو دھکے دیکر ملک سے نکالنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے روہنگیا کو مہاجرین قرار دینے اور ان کی رجسٹریشن ہونے کے باوجود بھارتی حکومت انہیں مہاجر تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ نئی دہلی کے اس طرز عمل انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ بھارت کو بین الاقوامی کی پابندی کرنی چاہیے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکڑ کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام کو اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے جو بین الاقوامی طور پر اس پر عائد ہیں اور روہنگیا کو ان کے مہاجر ہونے کے دعوے کوپرکھے بغیر زبردستی میانمار واپس نہیں بھیجنا چاہیے۔

․․․ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بھارتی حکام انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے واقف ہیں جو روہینگیا کے ساتھ میانمار میں روار رکھی گئیں اور اگر اس کے باوجود بھی انہیں بھارت دربدر کرتا ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ بھارتی نائب وزیرداخلہ کا عالمی سطح پر تسلم شدہ اخلاقی اصولوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنا ہے کہ ”اقوام متحدہ رجسٹریشن کرتی رہتی ہے، وہ اپنا کام کرتے رہیں، لیکن ہمارے خیال میں یہ رجسٹریشن غیر متعلقہ ہے۔

ہمارے نزدیک یہ سب غیر قانونی تارکین وطن ہیں انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جو بھی غیر قانونی تارک وطن ہے وہ ملک بدر ہوگا“۔ تاہم اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی جانب سے ساڑھے 16 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں تاکہ حکام انہیں گرفتار نہ کریں اور ان کے خلاف دیگر کاروائی بھی نہ کی جائے، لیکن افسوس کے اقوام متحدہ کے شناختی کارڈ بھی ان کے کام نہیں آئے مگر نئے حکم نامے کے تحت میانمار سے جان بچانے والے مزید مسلمانوں کوسرحد سے ہی واپس بھیج دیا جائے گا اور جوملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے انہیں بھی پکڑ کر واپس بھیج دیا جائے گا۔

ایک سروے کے مطابق بھارت میں 40 ہزار سے زائد روہنگیا مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں جن میں سے پندرہ ہزار یواین ہائی کمشنر فارریفیوجی میں رجسٹرڈ ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق ان مہاجرین کو دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی کئے جانے کا شبہ ہے،جو نہ صرف بھارتی شہریوں کیلئے بلکہ سکیورٹی کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ان بے کس ولاچار پناہ گزینوں کو سمندری راستے کے ذریعے واپس میانمار میں دھکیلنے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر ان مہاجرین کو واپس بھیج دیا گیا تو وہاں ان کے لئے موت کے سوا کچھ نہیں اور وہاں ان کی زندگیوں کا خطرہ ہے۔ اس وقت بھارت کے مسلم اکثریتی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں کی مہاجر بستیاں آباد ہیں جن میں شمالی حیدر آباد، جنوبی اتر پردیش اور دہلی سمیت مقبوضہ کشمیر وجموں کے علاقے شامل ہیں۔ جبکہ کشمیر میں بھگوابی جے پی اتحادی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ”Identify And Kill“مہم شروع ہے ۔

حقوق انسانی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو واپس میانمار بھیجنے کا پلان ان کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے مہاجرین کو ڈیپورٹ کرنے کے فیصلے کے بارے میں میانمار کے بھارت میں تعینات سفیر کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ اگرچہ انہیں اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر پناہ گزین تسلیم کررکھا ہے لیکن انہیں دوسرے پناہ گزینوں کی طرح کوئی مالی مدد نہیں ملتی۔

ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے اردو اور ہندی بھی سیکھ لی ہے۔ ان پناہ گزینوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ جموں ایوانِ تجارت کے صدر کا کہنا ہے کہ روہنگیا کو یہاں رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ بھارت میں برمی مسلم مہاجرین کی بستیوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ سینکڑوں بدقسمت مسلمان ان مہاجر کیمپوں کے باہر لگے کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔

کیونکہ انہیں بھارتی حکومت کی جانب سے بطور مہاجر کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی ان کے بچوں کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری بی جے پی کی مہم پر کٹھ پتلی کشمیر حکومت نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ریاستی پولیس بھی بی جے پی کی ہم زبان ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ وہ مختلف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

بھارتی حکومت کے ایماء پر مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے دیگر علاقوں میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بھارتی انٹیلی جنس نے برمی پناہ گزینوں کو مستقبل کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ”فارن ایکٹ“ کی خلاف ورزی کا مرتکب سمجھتی ہے جس کی سزا،جرمانہ، قید اور بے خلی ہے۔ ․․․تجزیہ نگاروں نے اس بھارتی فیصلے کو غلط قراردیا ہے اور کہا ہے کہ روہنگیا کو صرف اس لئے بھارت سے نکالا جا رہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں روہنگیا مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کرے گی۔

اس کو خطرہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی جنگ کی صورت میں روہنگیا مسلمان ہر قیمت پر ہندو فوج کے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برمی مہاجر انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں نے برمی مسلمانوں کے خلاف ہر زہ سرائی کا سلسلہ جاری کررکھا ہے کہ ملک میں پہلے ہی بنگلہ دیشی درانداز موجود ہیں۔

اب روہنگیا مسلمان بھی آرہے ہیں وہ بھی بنگلہ دیش سے میانمار اور وہاں سے اب ہندوستان آرہے ہیں۔ سابق کانگریسی وزیر مملکت ششی تھرور کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جو انتہائی قابل رحم حالت میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے بنیاد الزام لگانے کے بجائے ایک موثر قانون بنایا جائے۔ روہنگیا پناہ گزینوں میں صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی اور ہندو بھی شامل ہیں۔

اب بھارتی حکومت نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے کہ یہ مہاجرین دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ 45 سالہ برمی مسلمان مہاجر زاہد حسین پہلا پناہ گزین تھا جس نے 2009 ء میں جموں کے علاقہ میں پناہ لی تھی۔ اس کے بعد سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت صرف جموں میں دو ہزار روہنگیا خاندان پناہ گزین ہیں جنھیں مہاجرین ہونے کے ناطے کوئی سہولت میسر نہیں۔

زاہد کا کہنا ہے کہ ان کا بھارت میں پناہ لینے کا کوئی سیاسی مقصد نہیں بلکہ صرف اور صرف اقتصادی مسئلہ ہے ۔ مہاجرین کی بڑی تعداد مزدوروں پر مشتمل ہے۔ زاہد کے مطابق ہمیں یہاں اچھی اجرت ملتی ہے، سبزی مارکیٹ نزدیک ہے۔ ریاستی بی جے پی حکومت نے ان مہاجرین پر نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا اور پارٹی نے ریاستی اسمبلی میں اس کو موضوع بحث بنائے رکھا۔

بی جے پی ترجمان کے مطابق ہم ان کو یہاں مزید قیام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ سب غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس سے بھارتی سماج کو خطرہ درپیش ہے،اس لئے ہم انہیں بھارت میں کسی صورت بھی قبول نہیں کریں گے۔ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ ہندو ہے تو اسے رہنے کی اجازت مل سکتی ہے، اگر مسلمان ہے تو میانمار واپس بھیج دیا جائے گا کیونکہ ان مسلمانوں کے یہاں قیام پذیر ہونے سے ریاستی آبادی کا تناسب بگڑ سکتا ہے۔

جموں کی مہاجر کالونی میں قائم جھونپڑیاں موٹے فیبرک سے بنی ہوئی ہیں، ان میں زیادہ تر آگ لگنے کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہیں۔ زاہد حسین نے مزید کہا کہ بھارت میں ہر طبقے کے فرد کو مراعات میسر ہیں چاہیے وہ مسلمان ہو یا ہندو ۔ اگر ہمیں بھی اپنے ملک میں ایسی مراعات و سہولیات مہیا کی جائیں گی تو ہم ہندوستان چھوڑدیں گے۔ 2012ء سے تین بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ حیدرآباد میں مقیم عبدالرحیم نے بتایا کہ ہمیں واپس بھیجنے سے بہتر ہے کہ ہمیں مار دیا جائے۔

وہ اپنے ملک تب ہی واپس جائیں گے جب ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ دیگر پناہ گزینوں کی طرح عبدالرحیم روزانہ کی اجرت پر مزدوری کرتا ہے اور اسے مہینہ میں صرف 15 دن کام ملتا ہے۔ یونس بھی مہاجر کیمپ کے باہر ایک چھوٹی سی دکان چلاتا ہے۔ انہوں نے اپنا درد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میانمار کی حکومت نے ان کی جائیداد بھی اپنے قبضے میں لے لی ہے۔

حالانکہ ہندوستان آنے کے بعد بھی ان کی پریشانیاں ختم نہیں ہوئیں۔ 32 سالہ غلام حسین نے کہا کہ میں گھر واپس جانے کیلئے تیار ہوں اگر وہاں پرامن وامان ہمارا استقبال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک میں حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں سنتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ اب کوئی گھر لوٹتا ہے تو اس کے رشتہ دارواں کو جیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جموں میں پناہ گزین برمی خاندان بڑی مشکل میں رہ رہے ہیں، انہیں متنبہ کرنے کیلئے ”جموں چھوڑو“ والے بینر لگائے گئے تھے۔ وہ خفیہ ایجنسیوں اور ریاست کی سیاسی پارٹیوں کے ریڈار پر بھی آگئے جنہوں نے انہیں واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 23 برس کی مسلمان خاتون انیتا پناہ گزین کیمپ میں سخت ترین حالات سے دوچار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

40 Hzaar Rohngiya Muslmano ko Dehshat Gard Qrar dy kr Darbadar krny Ki Muham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.