20 برس کے بعد کی دنیا

آئندہ20 برسوں کے دوران انسان کا طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی اس انقلاب کے باعث 70 سے 80 فیصد روز گار کے مواقع ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

جمعرات 14 دسمبر 2017

20 Bars Badd Ki Dunia
محمد اظہر:
کسے علم تھا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں چند ایسے کرشمے ظہور میں آئیں گے کہ جو نہ صرف انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہوں گے بلکہ کروڑھا انسان سا فٹ وئیر کی ان شعبدہ بازیوں کے سامنے ہار جائیں گے مثلاً 80 کی دہائی میں کوئی بھی شخص گوگل،ایپل اور ایمازون جیسے اداروں کے نام سے بھی واقف نہ تھا، دنیا کی معروف ترین کارساز کمپنی ڈیملر بینرز(مرسڈ یز بینز) کے مینجنگ ڈائزیکٹر ڈیٹرزیڈ شا ابھی سے خوفزدہ ہیں کہ مستقبل میں ان کا مقابلہ کارساز کمپنیوں سے نہیں بلکہ سافٹ وئیر اور موبائل کمپنیوں سے ہوگا انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے تیور دیکھ کر اب وہ صرف دیگر کارساز اداروں کو اپنا حریف نہیں سمجھتے بلکہ ان کاماننا ہے کہ آنے والے دنوں میں ”ایمازون،گوگل اورایپل“جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں ان کی اصل حریف ثابت ہوں گی کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہونے والی حیران کن ترقی نے ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی ہے کہ آئندہ پانچ سے دس برس کے دوران انسان کی بجائے جدید ترین کمپیوٹرائزڈ ہارڈوئیر یا سافٹ وئیر کی حکمرانی ہوگی اور یہ زیادہ تر اپنی صنعتوں کا صفایا کردیں گے کوئی بھی نیا منصوبہ جس میں سمارٹ فون کا عمل دخل نہیں ہو پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا یعنی فون کے بغیر ہر آئیڈیا ناقابل عمل ٹھہرے گا آنے والے بیس برسوں کے دوران س تر سے اسی فیصد نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

زرعی شعبے میں کام کے لئے صرف سو ڈالر میں روبوٹ دستیاب ہوں گے۔تیسری دنیا کے کسان بھی خود کھیتیوں میں کام کرنے کی بجائے محض مشینوں اور روبوٹس سے ہی کام لیں گے۔گائے کے گوشت اور دودھ کی جگہ متبادل پروٹین لے لے گی انٹرنیٹ کی دنیا میں متبادل کرنسی کے طور پر”بٹ کوائن“گذشتہ چند برسوں کے دوران انتہائی مقبول ہوچکے ہیں لگتا ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران شاید صرف بٹ کوائن ہی چلیں گے۔

مسٹر زیڈ شا اس مفروضے کی دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اوبر“محض ایک سافٹ وئیر کے ذریعے چلنے والی کمپنی ہے لیکن آج یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کار بن چکی ہیں ۔حالانکہ اس کمپنی کی ملکیت ایک کار بھی نہیں۔اسی طرح ائیر بی این بی“یا ائیر بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کی مثال بھی دی جاتی ہیں کہ اس ادارے کو دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل چین چلانے کا اعزاز حاصل ہے حالانکہ اس کمپنی کی ذاتی ملکیت میں کوئی چھوٹا سا قطعہ زمین بھی نہیں ہے۔

مسز زیڈ شاکے بقول جس طرح گذشتہ چند برسوں کے دوران”آرٹیفیشل انٹیلی جنس“یعنی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی عام ہوئی ہے لگتا ہے کہ اب کمپیوٹر انسان کی سوچ کو سمجھنے کے قابل ہوچکے ہیں یہ ترقی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ رواں برس ایک جدید کمپیوٹر نے دنیا کے بہترین”گو“پلئیر کو مات دے دی حالانکہ ماہرین کا خیال نہیں تھا کہ ”گو“نامی اس مشکل ترین گیم میں کمپیوٹر کسی انسان کو شکست دے سکے گا بلکہ توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ یہ انہونی کم و بیش دس برس کے بعد ممکن ہی ہوسکے گی۔

جدید ٹیکنالوجی نے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے نو آموز قانون دانوں کوبھی بری طرح متاثر کیا ہے حال ہی میں جاری شدہ اعدادو شمار کے مطابق امریکہ کے نئے لاء گریجوایٹس کے لئے روزگار کے مواقع تیزی سے کم ہورہے ہیں جس کی اہم ترین وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لوگ بہت قانونی معاملات پر کسی جونئیر وکیل سے رائے لینے کی بجائے”آئی بی ایم واٹسن“نامی سروس سے استفادہ کررہے ہیں جو انسانوں اور کمپیوٹر کے مابین زندگی کے ہر شعبے میں بہترین تعلق استوار کررہے ہیں جو انسانوں اور کمپیوٹر کے مابین زندگی کے ہر شعبے میں بہترین تعلق استوار کرنے کی غرض سے متعارف کروائی گی ہے ماہرین کے مطابق آئی بی ایم واٹسن کے مشورے قریباً نوے فیصد درست ثابت ہوئے ہیں جبکہ اس کے برعکس کسی انسان سے رائے لینے سے کامیابی کا امکان اوسطاً ستر فیصد تک دیکھا گیا ہے۔

اس رجحان کو دیکھتے ہوئے امکان کا ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں وکلا کی تعداد موجود تعداد کا محض دس فیصد رہ جائے گی اور وہ انتہائی کامیاب اور ماہر ترین وکلاء ہی میں ہوں گے طب کے شعبے میں بھی ٹیکنالوجی تیزی سے اثر انداز ہورہی ہے اس حوالے سے واٹسن کی مثال ہی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے کہ اس کی مدد سے کینسر جیسے امراض کی تشخیص کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے واٹسن کے استعمال سے نرسز کے مقابلے میں چار گنا بہتر اور مستند نتائج کا سامنے آنا اس شعبے سے منسلک انسانوں یعنی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف دیگر روایتی تشخیص آلات کی بقاء کے لئے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں اس حوالے سے فیس بک کی مثال بھی دی جاتی ہیں کہ اس میں چہرے کی شناخت کرنے والا ایک جدید ترین فیچر متعارف کروایا گیا ہے جو انسانوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے چہرے پہچان سکتا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاً مشکل نہیں کہ 2030 تک انسان کے مقابلے میں کمپیوٹر زیادہ ذہین ثابت ہوگا۔

اس وقت سمارٹ فون کی دنیا میں موڈیز نام کی ایپلی کیشن موجود ہے جو انسان کے موڈ مزاج کے بارے میں خاصی درست پیشنگوئی کرتی ہیں۔توقع ظاہر کی جارہی ہیں کہ 2020 میں ایک ایسی ایپلی کیشن بھی مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی جو چہرے کے تاثرات کو بھی کامیابی سے پڑھ سکے گی حتیٰ کہ اس ایپ کی مدد سے جھوٹ پکڑنا بھی آسان ہوجائے گا اس ایپ کے عام ہونے کے بعد سیاسی مباحثوں میں جھوٹ بولنا آسان نہیں رہے گا یعنی ٹیکنالوجی میں جدت سیاست کو بھی متاثر کرے گی۔

کہا جارہا ہے کہ 2018 میں یعنی آج چند ماہ بعد ایسی گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہوں گی جنہیں ڈرائیور کی بجائے کمپیوٹر کنٹرول کریں گے اس صورتحال میں دیگر ساز کمپنیاں بھی بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں متعارف کروانا شروع کردیں گی اور ممکنہ طور پر صرف دو سال کے اندر ترقی یافتہ ممالک میں ایسی گاڑیوں کی بہتات ہوجائے گی دوسری طرف کرائے پر گاڑیاں مہیا کرنے والی کمپنیز کا کاروبار اس قدر پھیل جائے گا کہ لوگ ذاتی کار خرید نے کی بجائے کرائے کی گاڑی کو ترجیح دیں گے مستقبل قریب میں فون کے ذریعے گاڑی منگوائی جائے گی اور اس کی پارکنگ یا مرمت کی فکر بھی باقی نہ رہے گی بلکہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ نئی نسل ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا سوچے گی بھی نہیں کیونکہ ذاتی گاڑی نہیں لائسنس کی بھلا کیا ضرورت، ذاتی گاڑی رکھنے کا رجحان ختم ہونے اور خود کار گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کی ترویح کی صورت میں ممکنہ طور پر روایتی کار ساز کمپنیاں دیوالیہ ہوجائیں گی،روایتی کار ساز کمپنیز کو اپنی بقاء کے لئے جدید رجحانات اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا جبکہ گوگل،ایپل اور ٹیسلا جیسی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہی اس شعبے میں صحیح معنوں میں حکمرانی کرسکیں گی،معروف ترین لیکن روایتی کار ساز کمپنیوں جیسے ووکس ویگن اور آؤڈی سے وابستہ انجینئرز ابھی سے خوفزدہ ہیں کہ آخر ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ گوگل ایپل اور ٹیسلا جیسی کمپنیوں کی تیار کردہ گاڑیاں ایک طرح سے پہیوں پردوڑنے والے کمپیوٹر ہوں گی اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں یعنی الیکڑک کار بھی 2020تک شروع ہوجائیں گی جس کے باعث شہروں میں صوتی آلودگی میں واضح کمی ہوگی اور ساتھ ہی بجلی بھی سستی ہوجائے گی کیونکہ اس وقت سولر انرجی یعنی سورج سے بجلی حاصل کرنے کا رجحان اپنے عروج کی جانب گامزن ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں کمی سے سستے اور وافر پانی کی فراہمی بھی خاطر خواہ حدتک بڑھنے کی امید کی جارہی ہے کیونکہ سمندری پانی سے نمکیات نکالنا بھی ایک سستا اور سہل ترین عمل بن جائے گا۔ اگرگاڑیاں سے متعلق یہ مفروضہ درست ثابت ہوگیا تو اس سے شہروں کے ماحول پر بھی ناقابل یقین اثرات مرتب ہوں گے۔ذاتی ملکیت کا رجحان تقریباًختم ہونے سے نہ صرف سڑکوں پر رواں دواں گاڑیاں کی تعداد خاصی کم رہ جائے گی بلکہ ان کی پارکنگ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔

پارکنگ کے لئے مخصوص جگہوں پر پارکس اور دیگر تفریحی مقامات قائم کرکے ماحولیات میں انقلاب پیدا ہونے کی بھی توقع ہے اعدادوشمارمطابق دنیا بھر میں ہر سال قریباً بارہ لاکھ افراد حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی کاروں میں اوسطاً ایک لاکھ کلومیٹر مسافت طے کرنے کے بعد ہی کوئی کارحادثے سے دوچار ہوئی ہے جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں مزید جدت آنے کے بعد دس لاکھ کلو میٹر کے بعد ہی کسی کار کو حادثہ پیش آئے گا یعنی پر سال کم و بیش دس لاکھ قیمتی جانیں بچ جائیں گی ان حالات میں انشورنس کمپنیوں کا دھندہ بھی بری طرح ٹھپ ہونے کی توقع ہے کیونکہ حادثات جب نہ ہونے کے برابر رہ گئے تو انشورنس کی قیمت بھی کم از کم سوگنا کم رہ جائے گی شاید کار انشورنس کا بزنس ماڈل اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکے۔

جب آمدورفت اور ٹیکنالوجی کے تال میل سے دور دراز کی جگہوں پر رہائش اختیار کرنا اور دوران سفر دنیا بھر سے رابطے میں رہنا آسان ہوگیا تو لوگ دور دراز اور قدرتی مقامات کو مسکن بنانے کو ترجیح دیں گے جس کے نتیجے میں زمین کی خریدوفروخت یا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ٹیکنالوجی نے صحت کے شعبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اب مہنگے تشخیصی مراحل کے بجائے سمارٹ فون کی جدید ترین ایپلی کیشن سے ہی بلڈ ٹیسٹ آنکھوں کے امراض کی تشخیص اور دیگر عوارض کا قبل از وقت پتہ چلانا ممکن ہوسکے گا جلد ہی ایسا دور آنے والا ہے کہ لیبارٹری کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی اور ہر فرد اپنے فون کی مدد سے کئی پچیدہ امراض کا پتہ لگاسکے گا جبکہ علاج کے حوالے سے پہلے ہی انٹرنیٹ پر ہر قسم کامواددستیاب ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی میں انسان کی اوسط عمر میں بھی اضافہ ممکن ہے فی الوقت کہا جاتا ہے کہ انسان اوسط عمر ہر سال تین ماہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے مثلاً چار برس قبل انسانوں کی اوسط عمر 79 برس تھی جو بڑھ کر اس وقت 80 سال ہوچکی ہے امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ 2036 کے بعد انسان کی اوسط عمر بڑھتے بڑھتے سو سال تک پہنچنے کی امید کی جاسکتی ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے کرشموں میں سے ایک بڑا کرشمہ تھری ڈی ٹیکنالوجی ہے،گذشتہ تین برسوں کے دوران یہ ٹیکنالوجی نہ صرف سوگنا تیز ہوئی ہے بلکہ اس کی قیمت بھی ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے یعنی چند برس قبل اٹھارہ ہزار ڈالر ملنے والا ایک تھری ڈی پر نٹراب صرف چار سو ڈالر میں دستیاب ہیں اس وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی جوتا ساز کمپنیوں میں اب تھری ڈی پرنٹنگ رواج پذیر ہے ایک دو برسوں کے دوران جدید سمارٹ فونز میں بھی تھری ڈی سکینگ کی سہولت متعارف کروادی جائے گی جس کی بدولت کوئی بھی فرد اپنے پاؤں کی سکینگ کرکے اپنا جوتا خود ڈیزائن کرنے کے قابل ہوگا اسی ٹیکنالوجی کی بدولت خلائی مشین بھی نسبتاً زیادہ آسانی سے کام کررہے ہیں تھری ڈی پرنٹنگ کا کامیاب ترین عملی نمونہ چین میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں انتہائی مختصر وقت میں چھ منزلہ دفتر کی تعمیر عمل میں لائی گی ماہرین امید ظاہر کررہے ہیں کہ 2027 تک دنیا میں ہونے والے سبھی کاموں کا دس فیصد تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے انجام پائے گا۔

تعلیمی شعبے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں جبکہ مستقبل قریب میں مزید حیران کن انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہونے جارہی ہیں اس وقت افریقہ ممالک میں محض دس امریکی ڈالر سستا ترین سمارٹ فون دستیاب ہے امید ظاہر کی جارہی ہیں کہ آئندہ تین برسوں کے دوران دنیا بھر میں کم و بیش ستر فیصد افراد کے پاس سمارٹ فون ہوں گے۔

اور اسی بدولت طلبہ اور ریسرچرز کو دنیا بھر کی جدید ترین تحقیق سے استفادہ کرنے میں بے پناہ آسانی میسر ہوگی اس وقت خان اکیڈمی کے سافٹ وئیرز اور اکیڈیمک ویڈیوز کی عربی سواحلی اور چائینز زبان میں تراجم کی کوشش ہورہی ہیں جس کی بدولت بچے گھر بیٹھے دنیا کی بہترین سکولوں کا نصاب اور سرگرمیاں سیکھ سکتے ہیں اگر اس کی انگریزی ایپ مفت فراہم کردی جائے تو افریقہ سمیت دنیا بھر کے بچے صرف چھ ماہ کے عرصے میں فر فر انگریزی بولنے کے قابل ہوجائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

20 Bars Badd Ki Dunia is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.