13 جولائی تحریک آزادی کشمیر کا اہم دن

تحریک آزادی کشمیر میں 13 جولائی 1931ء کادن بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 22 کشمیری اذان کی تکمیل کرتے کرتے جام شہادت نوش کرگئے تھے۔ بلاشبہ تاریخ میں شعائراسلام کے ساتھ محبت کایہ اپنی نوعیت کامنفردواقعہ ہے۔

جمعرات 13 جولائی 2017

13 July Tehreek e Azadi Kashmir Ka Aham Din
ارشاد احمد ارشد
تحریک آزادی کشمیر میں 13 جولائی 1931ء کادن بڑی اہمیت کاحامل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 22 کشمیری اذان کی تکمیل کرتے کرتے جام شہادت نوش کرگئے تھے۔ بلاشبہ تاریخ میں شعائراسلام کے ساتھ محبت کایہ اپنی نوعیت کامنفردواقعہ ہے۔ 13 جولائی کے دن سری نگرجیل کے سامنے لاکھوں کامجمع تھااتنے میں اذان کاوقت ہوگیاایک نوجوان اذان کہنے کے لئے دیوار پر چڑھا ابھی اس نے اذان کاپہلا کلمہ اللہ اکبر اداکیا تھا کہ فوجی نے بغیر کسی انتباہ کے نشانہ باندھ کر اس کے سینے پرگولی ماری۔

جوان گولی کھاکرنیچے گرپڑاتڑپنے لگااورجام شہادت نوش کرگیا۔پھراسی دیوار پر ایک دوسرا نوجوان اچھل کر کھڑا ہو اور پہلے نے جہاں سے اذان چھوڑی تھی اس سے آگے شروع کردی۔

(جاری ہے)

فوجی نے اسے بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا اور وہ بھی شہید ہو گیا۔چنانچہ یکے بعد دیگرے 22 لوگ شہیدہوئے لیکن برستی گولیوں اورمیدان کارزار میں بھی اذان مکمل کی۔اذان کی تکمیل کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والوں میں 19 سال کے بچے سے لے کر 75 سال کے بزرگ شامل تھے۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیراعظم ویک فیلڈ نے اس واقعہ کے متعلق اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ 13 جولائی کو جتنے بھی کشمیری مسلمان شہید ہوئے سب کی چھاتیوں پر زخم تھے ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جس کی پشت پر گولی لگی ہو۔امرواقع یہ ہے کہ ہماری آزادی میں اہل کشمیر کی قربانیاں بھی تاریخ سازہیں اب ہوایہ ہم تو 1947ء کے وقت آزادی کی نعمت سے ہمکنارہوگئے لیکن کشمیری ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ کہاجائے توبے جانہ ہوگا کہ مقبوضہ جموں کشمیر پر بھارتی قبضہ ڈوگرہ راج کا تسلسل ہے۔

ڈوگرہ راج کی ابتدا 16 مارچ 1846ء کو اس وقت ہوئی تھی جب جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرہ نے انگریزوں سے ساز باز کر کے تاوان جنگ کے طور پر کشمیر کو اس کے باشندوں اور وسائل سمیت صرف 75 لاکھ نانک شاہی روپوں،چند بھیڑوں اور کمبلوں کے عوض خرید لیا تھا۔ توہین قرآن مجید کے واقعہ اور گرفتاری کے بعد بغاوت سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جموں کی ا س تحریک کے روح رواں چوہدری غلام عباس تھے تو وادی کشمیر میں اس تحریک کی قیادت میر واعظ مولانا محمد یوسف اور شیخ عبداللہ کے ہاتھ میں تھی۔

وادی کشمیر میں اس تحریک کے دوبڑے مرکز تھے یعنی جامع مسجد سری نگر اور خانقاہ معلی۔ سری نگرکی جامع مسجد کا منبر میر واعظ خاندان کے پاس تھا۔جب احتجاج اپنے عروج پر پہنچا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے توہین قرآن کے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا اور مہاراجہ کا وزیر اعظم بذات خود تحقیقات کیلئے جموں آیا۔ ویکیفلڈ نے بعد از تحقیق یہ بات تسلیم کر لی کہ قرآن مجید کی توہین ہوئی ہے لیکن ویکیفیلڈ نے یہ بھی ساتھ کہہ دیاکہ قرآن مجید کی توہین کا ارتکاب دانستہ نہیں کیا گیا۔

ویکفیلڈ نے ایک طرف مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ وفد کی صورت میں مہاراجہ سے ملیں اور اپنے مطالبات پیش کریں دوسری طرف ویکفیلڈ نے یہ عیاری کی کہ ہندؤوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں کھڑا کر کے فرقہ وارانہ فسادات شروع کروادیئے۔ بعد ازاں مہاراجہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے غیر جانبدار رہنے کا مصنوعی بھرم قائم کرنے کیلئے اعلان کردیں کہ مہاراجہ نے جس طرح ہندؤوں کے وفد سے ملنے سے انکار کر دیا ہے ایسے ہی وہ مسلمانوں کے وفد سے ملنا نہیں چاہتے یہ اعلان مہاراجہ کی صریحاََ جانبداری تھی۔

بہرحال مہاراجہ کے اس اعلان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ خانقاہ معلی میں ایک وسیع جلسے کا اہتمام کیا گیا اس جلسہ میں ایک غیر ریاستی باشندہ عبدالقدیر خان بھی موجود تھا۔عبدالقدیرخان نے سٹیج پر کھڑے ہو کر نہایت ہی غضبناک پرجوش اور مدلل قسم کی تقریر کی اس کی تقریر نے مجمع میں آگ لگادی۔جلسہ کے اختتام پر ریاستی پولیس نے عبدالقدیر خان کو گرفتار کر لیا وہ چونکہ کشمیری عوام کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے گرفتار ہوا تھا لہٰذا کشمیری عوام کو اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔

عبدالقدیر پر مقدمہ چلا تو کشمیری عوام ہزاروں کی تعداد میں کاروائی سننے کیلئے جمع ہوگئے۔اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیاجس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔ ایک وقت میں 22 افراد کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔13 جولائی کی بازگشت ریاست جموں کشمیر کے علاوہ پورے ہندوستان میں سنائی دینے لگی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ہندوستان بھر کے مسلمان اپنے مظلوم کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ 25 جولائی 1931ء کو شملہ میں آل انڈیا کشمیر کانفرنس طلب کی گئی جس میں حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمداقبال، خواجہ سلیم اللہ، نواب آف ڈھاکہ، مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی، نواب سر ذولفقار علی خان،میاں نظام الدین، مولانا شوکت علی خان، مولانا عبدالمجید سالک، سید حبیب شاہ، مولانا اسماعیل غزنوی، مرزا بشیر الدین، اے آر ساغر، مولانا عبدالرحیم درد اوران جیسے بیسیوں زعماء نے شرکت کی۔

اس موقع پر کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایاگیا اور 14 اگست 1931ء کو اظہار یکجہتی کشمیر کادن منایا گیا۔ گو کہ مرزا بشیرالدین محمود کی وجہ سے کشمیر کمیٹی زیادہ عرصہ نہ چل سکی مگر اس کے اثرات بہت دیرپا ثابت ہوئے اور پورے ہندوستان کے مسلمان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ ڈاکٹراسلام الدین نیاز کے بقول ”اظہار یکجہتی کشمیر کی ہمہ گیری نے تحریک حریت کشمیر میں اتنی حرار ت پیدا کردی کہ دنیا بھر میں کشمیریوں کی داستانِ مظلومیت ہر ذی شعور کی زبان پر آگئی۔

“ 13 جولائی کے شہدا کی قربانیوں نے پہلی دفعہ مہاراجہ کو مسلمانوں کے سامنے جھکنے اور دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیا اس سے پہلے ریاست میں کشمیریوں کی حالت جانوروں سے بھی بدتر تھی 13 جولائی کی قربانیوں کی وجہ سے انہیں زندہ انسان تسلیم کیا گیا اور ان کے حقوق کی بات کی گئی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ڈوگرہ راج کے ظلم کا سیاہ دور 13 جولائی کے شہدا کی قربانیوں کی بدولت غروب ہوا اورپاکستان کے زیرانتظام آزاد جموں کشمیر کا خطہ بھی اس دن کے شہدا کی قربانیوں کی بدولت آزاد ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کشمیری قوم 13جولائی کا دن آج بھی پورے جوش وخروش سے مناتی ہے۔اس لئے کہ ان کی آزادی کا سفر ابھی ادھورا ہے۔ ڈوگروں کے بعد بھارتی استعمار مقبوضہ جموں کشمیر پر قابض ہے 13 جولائی کادن کشمیری قوم کیلئے سنگ میل اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

13 July Tehreek e Azadi Kashmir Ka Aham Din is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.