قرض کا مرض

علاج نہ ہوا تو پاکستان ایشین ٹائیگر نہیں بنے گا

منگل 19 جنوری 2016

Qarz Ka Marz
شیخ عبدالرحمن:
قرض کاایک ایسا جان لیوا مرض ہے جواپنے شکار کاجینامشکل اور مرناآسان کردیتاہے۔ سود پر حاصل کیا گیاقرضہ خوشحالی کی نسبت بدحالی کاپیش خیمہ ثابت ہوتاہے۔ قرضہ چاہے انفرادی سطح پر حاصل کیاجائے یااجتماعی سطح پراس کا نتیجہ یقینا براہی نکلتاہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے شیرا کوٹ میں دوبچوں کے باپ نے سود خوروں کی گالیوں اور نارداسلوک سے تنگ آکراپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

ایسی بہت سے مثالیں ہمیں اپنے اردگرددکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کے خراب معاشی حالات کے باعث شہری غربت اور مفسلی کی زندگی گزارنے پرمجبورہوچکے ہیں۔ شہریوں کی غربت کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت اشیائے خوردونوش پرنئے نئے ٹیکسز لگارہی ہے جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں آسمان پرجاپہنچی ہیں۔

(جاری ہے)

لوگوں کی تنخوا ہوں اور آمدنی میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ نہیں کیاجارہا۔

قلیل آمدنی میں گزربسرنہ ہونے پرگریب شہری سود پر قرض لینے پرمجبور ہوجاتے ہیں اس کانتیجہ تباہی ہو بربادی کے سواکچھ نہیں نکلتا۔ اجتماعی سطح پرلئے جانے والے قرض سے جنم لینے والی ہولناک صورتحال کامشاہدہ کرنے کیلئے پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سرکاری افسران کی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں نیب کے سابق چیئرمین ایڈمرل(ر) فصیح بخاری کاکہناتھاکہ ملک میں روزانہ دس سے پندرہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس سے زیادہ کی کرپشن کی جاتی ہے کیونکہ کرپشن کودکھاکر نہیں کی جاتی بلکہ دوسروں سے چھپاکرکی جاتی ہے۔ سابق چیئرمین نیب نے جواعدادوشمارپیش کئے وہ کرپشن کی کم ازکم شرح ہے جومنظرعام پر آچکی ہے۔ ہرحکومت قومی خزانہ خالی کردیتی ہے اور نئی آنے والی حکومت یہ رونالے میٹھتی ہے کہ خزانہ خالی ہے اور کاروبار حکومت چلانے کیلئے قرض لیناہی پڑے گا۔

آئی ا یم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے کڑی شرائط پرقرض دینے پر رضامندی کااظہار کرتے ہیں۔ حکومت کے پاس ان مالیاتی اداروں کی شرائط ماننے کے سواکوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی عہدیدارقرض کی اس رقم کواپنی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں پر ضائع کرنے کواپنی حق حکمرانی سمجھتے ہیں۔ سود ‘ عیاشیوں اور ٹیکس چوری ایسے معاملات ہیں جن سے خسارہ میں اضافہ اور آمدنی میں کمی ہونی ہے اور اسی لئے ہرحکومت مزید قرض لیتی رہتی ہے اور ملک سو درسود کے جال میں اس طرح پھنستا ہے کہ اس کا نکلنا مشکل ہوجاتاہے۔

قرض فراہم کرنے والے عالمی ادارے اور ملک کڑی شرائط عائد کرتے ہیں۔ پی آئی اے، واپڈا‘ سٹیل ملزسمیت پاکستان کے دیگر منافع بخش اداروں نجکاری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرپاکستان اپنے قومی اداروں کوکوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیتا ہے تووہ معاشی طور پر خود کشی کااقدام ہوگا۔ ملک کے محب وطن شہری حکومت کے اس عاقبت نااندیشی کے اقدام پرصدائے احتجاج بلند کئے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں بلوچستان میں سی پیک روڈزنیٹ ورک کی افتتاحی تقریب سے انتہائی غصے کے عالم میں خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈارکاکہناتھا کہ پاکستان کے دانشورقرضوں کے حوالے سے غلط اعدادوشمار پیش کررہے ہیں۔ اسحاق ڈارکے مطابق ان کے دورمیں معاشی صورتحال بہترہونے کے ساتھ ساتھ قرضوں کاحجم بھی کم ہوا۔ اگر اسحاق ڈاردرست فرما رہے ہیں تووہ قرضوں کے حوالے سے درست اعدادوشمارجاری کردیں تاکہ ابہام ختم ہوجائے۔

پاکستان کی ہرحکومت نے عالمی مالیاتی اداروں سے اس طرح دھڑلے سے قرض لیے جیسے انہیں واپس کرنے کی بجائے اسی طرح معاف کرالیاجائے گا جس طرح پاکستان کے ساستدان بنکوں سے اپنے قرضے معاف کراتے ہیں۔ ستمبر 2015ء تک پاکستان کل بیرونی قرضے 66.5ارب ڈالرتک جاپہنچے تھے۔ جون 2006ء سے جون 2015ء تک صرف 9سالوں میں ملک کے بیرونی قرضوں میں 75فیصدتک اضافہ ریکارڈ کیاگیا خدشہ ہے کہ موجودہ رفتار سے قرض لینے کی حکومتی عادت برقراررہی توآئندہ 4سالوں میں ملک کے ذمہ غیرملکی قرضوں کاحجم 90بلین ڈالرزتک جاپہنچے گا۔

اس کامطلب یہ ہے کہ ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنانظام چلانے کیلئے 20ارب ڈالرزسالانہ کی ضرورت ہوگی۔ عالمی بنک کی جانب سے 2014ء میں مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 55فیصد قرضوں پرڈالرروپے پر برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ اس سے مرادیہ ہے کہ روپے کے نسبت ڈالربہت زیادہ مستحکم ہے اگرخدانخواستہ پاکستانی روپیپ ڈالرکے مقابلے میں کمزورہوتاہے تواس کااثر براہ راست ہمارے قرضوں پرپڑے گا اور ان کے حجم میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

اس کے پاکستان کی برامدات پربھی نہایت برے اثرات مرتب ہونگے۔ موجودہ حکمران سمجھتے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے لوٹ مارکے ذریعے خزانہ خالی کیااس لیے قرض لینے پر مجبور ہیں۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاحکومت ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے قرض کے حجم میں اضافے کی بجائے کمی ہوا س کاجواب یہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں عالمی مالیاتی اداروں سے جس قدر قرضے حاصل کیے ہیں اس کے بارے میں سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے فرمانبرداری ثابت کرنے کیلئے قومی اداروں کی نجکاری کرنے پرتلی بیٹھی ہے۔ یہ توعوامی ردعمل تھا جس کے باعث پی آئی اے کی نجکاری کاپروگرام ملتوی کردیاگیا ورنہ آئی ایم ایف نے حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے 31دسمبر 2015ء کی حمتی ڈیڈلائن دے رکھی تھی کہ وہ اس تاریخ تک اس کی نجکاری کی منصوبہ بندی کومکمل کرے۔

یہ اس بات کاسب سے بڑا ثبوت ہے کہ حکومت قرضوں کے جال میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ حکمرانوں نے قرضوں کے حصول میں تمام ترقواعد وضوابط کی دھجیاں بکھیرکررکھ دیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے ملک میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار کوسست کردیاہے۔ معاشرے پرغربت اور بے روزگاری کے انتہائی برے اثرات پڑرہے ہیں۔ جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہاہے۔ دوسری جانب حکومتی عہدیدار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں دودھ، شہدکی نہریں بہنے لگیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی معیشت کبھی مستحکم ہوسکتی ہے اور نہ ہی پاکستان ایشئن ٹائیگربن سکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Qarz Ka Marz is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.