پتے کی بات

موقع پر موجود عوام چاچے فضل کی فراست سے بہت متاثر ہوئے؛ سبھی سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ پوری زندگی میں انہوں نے کبھی اس پہلو سے نہیں سوچا جس کی طرف چاچے فضل نے توجہ دلائی تھی؛ حالانکہ ان میں سے ہر ایک نے کبھی نا کبھی سڑک پر حادثوں کی وجہ سے ہونے والے جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کوشش ضرور کی ہوئی تھی

Babur Javed بابر جاوید ہفتہ 24 جون 2017

Patay ki baat
موقع پر موجود عوام چاچے فضل کی فراست سے بہت متاثر ہوئے؛ سبھی سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ پوری زندگی میں انہوں نے کبھی اس پہلو سے نہیں سوچا جس کی طرف چاچے فضل نے توجہ دلائی تھی؛ حالانکہ ان میں سے ہر ایک نے کبھی نا کبھی سڑک پر حادثوں کی وجہ سے ہونے والے جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کوشش ضرور کی ہوئی تھی۔ یہ سارا واقعہ میرے سامنے ہی رو نما ہوا تھا؛ اس روز میں کسی کام سے شاہ عالم چوک کی طرف جارہا تھا؛ چوک میں سگنل بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک رکی ہوئی تھی؛ اس رکی ہوئی ٹریفک کے سب سے پیچھے ایک گاڑی تھی جسے عرف عام میں کیری ڈبہ کہتے ہیں؛ میں نے وہیں سڑک کی دوسری طرف اپنی مطلوبہ دکان پر جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے اپنے قدم واپس کھنچنا پڑے کیونکہ میں نے ایک تیز رفتار تانگے کو آتے دیکھ لیا تھا؛ گھوڑا شاید کوچوان کے قابو میں نہیں تھا؛ اس کی لاکھ کوشش کے باوجود گھوڑا نہ رکا اور کیری ڈبے کے پیچھے جا ٹکرایا۔

(جاری ہے)

کیری ڈبے کو زور دار جھٹکا لگا جس کے نتیجے میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اس کا مالک بھی ہل کر رہ گیا؛ اس نے یکدم گردن گھما کر دیکھا پھر صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے گاڑی سے اتر کر پیچھے کی طرف لپکا؛ نہ صرف گاڑی کی دائیں طرف والی پچھلی بتیاں ٹوٹ چکی تھیں بلکہ اس کے پچھلے دروازے پر بھی ڈنٹ پڑ گیا تھا؛ یہ دیکھ کر گاڑی کے مالک کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا؛ وہ گالیاں بکتے ہوئے سہمے ہوئے کوچوان کی طرف بڑھا اور اسے گریبان سے پکڑ کر سڑک پر پٹختے ہی تھپڑوں، گھونسوں اور لاتوں پر رکھ لیا؛ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس موقع پر بھی کئی تماشائی اکٹھے ہو گئے تھے۔

کچھ لوگوں سے اس کا بے رحمانہ سلوک نہ دیکھا گیا تو وہ بیچ بچاوٴ کرانے کیلئے آگے بڑھے لیکن گاڑی کے مالک نے انتہائی سفاکانہ لہجے میں پیچھے ہٹنے کا کہہ دیا؛ پھر اس نے سڑک پر گرے کوچوان کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کرتے ہوئے لائسنس کی بابت پوچھا؛ کوچوان نے جیب سے لائسنس نکال کر اسے دکھایا؛ اس نے لائسنس جھپٹ کر اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہا: ”میرا نقصان پورا کرو یا میرے ساتھ تھانے چلو۔

“ ”مم--- میں --- معافی“ کوچوان ہاتھ جوڑتے ہوئے منمنایا؛ گاڑی والے نے جواباً اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارتے ہوئے گاڑی کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ اسی اثنا ء میں چاچا فضل آگے بڑھتے ہوئے گاڑی والے سے مخاطب ہوا ”بیٹا ایک منٹ تحمل سے میری بات سن لو۔“ ” اب تم کیا کہتے ہو؟“ ”ماشاء اللہ صاحب حیثیت لگتے ہو؛ وہ غریب آدمی ہے؛ تم تو نقصان برداشت کر سکتے ہو لیکن وہ بیچارہ------“ ” کیا بے چارہ؟“ گاڑی والا چاچے کی بات کاٹ کر بدتمیزی سے بولا ”ایک بار سزا مل جائے گی تو آئندہ احتیاط سے تانگہ چلائے گا۔

“ ”پتہ نہیں تمہارا نقصان پورا کرنے سے اس کے بچوں کو کتنے دن بھوک برداشت کرنا پڑے گی؛ معاف کر دو گے تو وہ تمہیں دعائیں دیں گے؛ چاچے نے ایک بار پھر منت کی۔“ ”وہ دعائیں تم لے لینا؛ میرا نقصان تم پورا کر دو؛ مفت میں ہمدردی نہ جتاوٴ“ گاڑی والے نے غصے کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے کہا۔ ”ہاں یہ ٹھیک ہے؛ چاچے نے حامی بھر لی؛ ”کتنا نقصان ہوا ہے تمہارا؟“ گاڑی والے نے سرسری جائزہ لیا اور بتایا کہ کم از کم تین ہزار لگ جائیں گے؛ ”ٹھیک ہے میں ادا کر دیتا ہوں“ چا چا تین ہزار روپیہ جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔

گاڑی والے نے رقم لینے کیلئے ہاتھ بڑھائے لیکن چا چا اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے گویا ہوا ”تمہارا نقصان تو میں پورا کر دوں گا لیکن تانگے والے کا نقصان تمہیں پورا کرنا پڑے گا۔“ ”کیا مطلب؟“ گاڑی والے نے حیرت سے پوچھا۔ ”تم نے جو اس کو بیسیوں گالیاں دیں؛ درجنوں لاتیں؛ گھونسے اور تھپڑ مارے ہیں وہ تمہیں واپس لینا پڑیں گے۔“ چاچے کی اس بات پر مجمع میں موجود لوگوں کے منہ سے بے ساختہ ’واہ‘ نکلی۔

چاچا پھر بولا ”یمہارا نقصان پورا ہو جانے کے بعد اس سزا کا جواز ختم ہو جاتا ہے جو تم اس بے چارے کو دے چکے ہو لہٰذا جو سلوک تم نے اس کے ساتھ کیا وہی سلوک اب وہ تم سے کر کے اپنا حساب برابر کر دے تو میں تمہیں پیسے ادا کر دیتا ہوں۔“ گاڑی والے کو جیسے بات سمجھ میں آگئی تھی لیکن رسی جل جانے کے بعد بھی بل نہیں گیا تھا۔ وہ جیب سے کوچوان کا لائسنس نکال کر سڑک پر پھینکتے ہوئے زیر لب بڑبڑایا ”ہونہہ آ جاتے ہیں منصف بن کر“ اور گاڑی طرف چل پڑا۔ وہاں موجود لوگ چا چے فضل کو ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے اپنے رستے پر چل پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Patay ki baat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.